کالمز

ًماں‌میں‌واپس نہیں‌آوں گا

تحریر: ساجد حسین

پھول مرجھا گئے ہیں سارے

تھمتے نہیں ہیں آسماں کے آنسو

شمعیں بے نور ہو گئی ہیں

آئینے چور ہو گئے ہیں

ساز سب بج کے کھو گئے ہیں

پایلیں بج کے سو گئی ہیں

اور ان بادلوں کے پیچھے

دور اس رات کا دلارا

درد کا ستارا

ٹمٹما رہا ہے

جھنجھنا رہا ہے

مسکرا رہا ہے

عموماً ہر گھر میں معمول کے مطابق یہ ہوتا ہے کہ بچے سکول جانے سے ضد کرتے ہیں کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم سکول نہیں جائنگے لیکن ان بچوں کی مائیں بہنیں انکی ضد پر قائل نہیں ہوتیں اور بلا آخر ان بچوں کو سکول بھیجنے میں کامیاب ہوتیں ہیں۔

ایسا ہی کچھ 16 دسمبر 2014 کو بھی ہوا ہوگا ہر ماں اپنے لال کو میدان جنگ کے لیے تیار کر رہی ہوگی کہ انکے لال اس میدان میں تو ظاہری طور پر سلامتی سے جائنگے مگر لوٹ کر نہیں آنے والے بچوں نے بیشک ضد کیا ہوگا کہ ہمیں سکول نہیں جانا مگر ماؤں نے انکو تیار کر کے بھجادیا ہوگا لیکن وہ مائیں جانتی کہاں تھیں کہ انکے بچوں کی جگہ انکے لاشیں گھر آینگی۔

ایک ماں اپنے بچے کو سکول کے لیے تیار کر رہی ہے اور بچہ ماں سے نئے جوتوں کا مطالبہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ماں مجھے نئے چاہیے یہ جوتے میرے پرانے ہوگئے ہیں مگر ماں اس بچے کو جوتے اس دن نہیں دیتی کہ میں اسکو اگلے دن سرپرائز دونگی مگر اسکا پھول سا بچہ آنکھوں میں آنسو لئے کہتا ہے کہ آج میں گھر واپس نہیں آؤنگا ماں اضطراب سے پوچھتی ہے کہ گھر نہیں آؤگے تو کہاں جاؤ گے اس پر وہ بچہ کہتا ہے کہ میں کہیں بھی جاؤنگا مگر گھر لوٹ کر کبھی نہیں آؤنگا۔ مگر اسکو کیا معلوم تھا کہ وہ گھر نہیں بلکہ اپنی ابدی نیند سے ایک تارا بن جائے گا ایک ماں کے یاد بن جائے گا۔ شام کو گھر بس اسکی کفن میں لپٹی لاش آتی ہے۔

دنیا کی تاریخ کا یہ المناک و سفاک واقعہ کسی قہر سے کم نہ تھا ہر فرد کے آنکھ اشکبار اور دل غموں سے نڈھال اور ہر کوئی مضطرب تھا۔ انکی قربانی کا کسی کو علم نہیں تھا کہ وہ ایک الگ انداز میں قتل کیے جائنگے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ایسا بھی بدقسمت اور بد ترین دن آئیگا جو گھروں کے اجالوں کو اندھیروں میں بدل دے گا۔ ہر ماں کے دلوں میں چراغ جلانے والے پیارے اس دن چراغ غل کر دینگے۔

اس واقعے میں شہید ہونے والے اساتذہ جن کا ذکر نہیں کیا گیا تو ناانصافی ہوگی وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر دشمن کے آگے سینہ تان کر بچوں کے لیے ڈھال بن گئے اور ایک حد تک دشمنوں سے مقابلہ کرتے رہے مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہتھیار سے لیس دشمن ان نہتے اور لاچار اساتذہ کو بخش دیں۔ کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے ایسا ہی کچھ سکول کے بچوں کے ساتھ کیا گیا انکو درد ناک موت دے کر یہ ثابت کیا کہ دردندگی صرف جنگل میں نہیں بلکہ انسانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔۔!!!

اس طرح دشمن نے بتلایا دیا کہ وہ سب سے بڑا بزدل ہے کہ وہ بچوں کو ہی نشانہ بنا سکتا ہے مگر ہم ایسی قوم ہیں کہ جن کے بچوں سے دشمن ڈرتا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا کہ دشمن ہزار حربے استعمال کرے مگر ہمارے حوصلے بلند رہنگے اور ہم ایک مظبوط قوم بن کر دنیا کے لیے مثال بن کر دکھائیں گے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button