آو کہ پھر سے گھاس کھاتے ہیں
زندہ قوموں کی بھی عجیب روایات ہوتی ہیں ۔۔تاریخ کبھی کبھی ان کو دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے ۔جنگ خندق میں بھوک کی شکایت ہوئی تو قوم کے سردار فخر موجوداتﷺ نے اپنا سینہ مبارک دیکھائے کہ پیٹ مبارک پہ دو پتھر باندھے ہوئے ہیں ۔قوم نے جھاڑئیاں کھائی مگر باطل کے مقابلے میں ڈٹے رہے ۔۔یہ مسلم امہ کی روایت ہے ۔۔اللہ کی مدد اس وقت پہنچتی ہے جب انسان کی ساری کوششیں شکست کھاتی ہیں ۔چینی قوم نے گھاس کھانے کی قسم کھائی۔۔ موزیتنگ کی شاعری اس بات کا گواہ ہے کہ اس نے پہلے خود گھاس کھائی ہے ۔برصغیر میں قوم نے قسم کھائی ۔ان کے قائیدیں نے وہ مثال قائم کی کہ تاریخ ششدر ہے ۔۔جاپان پہ اٹم بم گرایا گیا قوم نے گھاس کھانے کی قسم کھائی ۔اور دنیا پہ ثابت کردیا کہ زندہ قومیں کیا کیا کیا کرتی ہیں ۔۔ہم نے آزادی حاصل کی ۔ہم نے قناعت کی مثال قائم کی ۔نوزائدہ ملک ٹوٹا نہیں ۔۔اس کے ٹوٹنے کا خواب دیکھنے والے تلملا اٹھے ۔ہم کئی دفعہ دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے ۔ہمیں آزمائشوں کا بہت تجربہ ہے ۔۔ہم نے کہا کہ اٹم بناتے ہیں آو کہ گھاس کھاتے ہیں ۔۔ہم نے اٹم بنایا ۔لیکن گھاس کھانے کی اللہ کا شکر ہے نوبت نہیں آئی ۔۔ لیکن۔۔۔اس لیکن میں ایک ادھ سا شکوہ ہے کہ ہمارے بڑے ہمیں آزماتے ہیں ۔ہم ہر آزمائش پہ پورا اترتے رہے ہیں ۔۔شکوہ یہ ہے کہ یہ آزمائش ہمارے بڑے ہم سے کم برداشت کرتے رہے ہیں۔۔ملک خداد اد کے موجودہ وزیر اعظم کی بہت ساری باتیں قوم کے اس طبقے کو اچھی لگنے لگی ہیں۔۔ جو ’’عام‘‘ ہیں ۔۔عام کو شکوہ تھا کہ ہمارا قومی لباس ہماری شناخت ہے ۔۔ہمارے بڑے ’’خاص طبقہ‘‘ غیروں کے لباس میں غیروں کے سامنے جاتے ہیں ۔۔اب وزیر اعظم قومی لباس میں سب کو اچھے لگتے ہیں ۔۔ہم شان و شوکت سے ناواقف شان و شوکت پسند نہیں کرتے تھے ۔۔وزیر اعظم کی سادگی دل کو بھاتی ہے ۔۔ائی ایم ایف سے چھٹکارے کی بات کی تو سب کو اچھی لگی ۔گھاس کھائیں نگے۔ ہمیں چھٹکارہ چاہیے ۔اخراجات کم کرینگے ۔۔مگر اس کے مطالبات مان کر اس سے قرضے نہیں لینگے ۔پہلے ارباباں اقتدار و اختیار اپنے اخراجات کم کریں ۔عیاشیوں میں اعتدال لائیں ۔قوم کے مرتبے کی فکر کریں ۔تو ہم ہزار بار قسم کھائیں گے بلکہ قسم پورا کرکے دیکھائیں گے ۔ہم کو رب نے قدرتی وسائل سے مالامال کیا ہے ۔۔ہمارے ہاں سرمایہ کاری کے مواقع ہیں ۔ہمارے پاس سمندر ہیں ۔دریا ہیں ۔جنگلات ہیں ۔معدنیات ہیں ۔آخر اللہ کا دیا ہوا کیا نہیں ہے ۔۔ان کو کام میں لانے ان پر نیک نیتی سے سوچنے اور ان کو قومی امانت سمجھ کر ان سے فائیدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔۔ہم میں اعتماد اور اعتدال ہو تو ہم گھاس کیوں کھائیں ۔۔اللہ کی دی ہوئی یہ ساری نعمتیں ہمارے لئے کافی ہیں۔ لیکن ہمارا المیہ ہے ۔۔کہ ان خزانوں کے منہ کھلتے نہیں ۔ان پہ اژدھے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں ۔۔قوم کی دولت قوم کی امانت نہیں سمجھی جاتی ۔اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کی نوید بھی سنائی جاتی ہیں۔۔ وعدے وعید بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ان پہ عمل نہیں ہوتا ۔قوم ہر قر بانی کے لیے تیار ہے ۔۔ملک میں جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے بھی بحران آتے رہے ۔۔بجلی کا بحران آیا ۔۔تیل کا آیا ۔۔گیس کا آیا ۔۔اشیائے خوردونوش کا آیا ۔قومی خزانہ خالی ہونے کی خبریں دی گئیں ۔ہم نے ان سب کا اثر بڑے بڑوں پر کبھی نہیں دیکھا ۔۔قرضوں کی معافی ہوئی تو بڑے اور بڑے ہوگئے ۔۔آسان اقساط پہ قرض کی سہولت آئی ۔بڑوں کا سر کڑائی میں ۔چیزوں کی قیمتیں بڑھتی ہیں ۔بڑوں کے سر کڑائی میں ۔۔ٹیکس لگاتے ہیں لیکن بڑے ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔۔غریبوں کو کبھی کبھی اس بات پہ نعوذوباللہ شک پڑتا ہے کہ کیا وہ بھی اس ملک کے باشندے ہیں ۔۔موجودہ وزیر اعظم کی نیک نیتی عیان ہوگئی ہے۔۔ سب کہتے ہیں کہ یہ جو کہتے ہیں دل سے کہتے ہیں ۔۔اور دل سے جو بات نکلتی ہے اس کا اثر ضرور ہوتا ہے ۔۔تو اب انتظار کس چیز کا ہے تم جرات مندانہ قدم اٹھاؤ یہ قوم گھاس کھانے کے لیئے تیار ہے ۔کشکول توڑنے کا اعلان کرو ۔۔ملک میں فضول خرچیاں بند کرو ۔شاہ خرچیوں پہ پابندی لگاؤ ۔۔آئی ایم ایف کی شرائط کا یہ مقروض قوم متحمل نہیں ہوسکتی ۔اگر ملک سے منی لانڈرنگ اور کرپشن کا خاتمہ ہو جائے تو گھاس کھانے کی نوبت کبھی نہیں آئے گی ۔پاکستان اللہ کے نام سے وجود میں آیا ہے ۔اللہ اس کو قائم رکھے گا ۔۔اس کو قائم رکھنے کے لئے جہان اللہ کی خاص مدد کی ضرورت ہے وہاں پر مخلص قیادت اور دیانتدار قوم کی بھی ضرورت ہے اللہ ہمیں وہ غیرت عطا کرے ۔۔ہم اپنے موجودہ وزیر اعظم سے یہی توقع رکھتے ہیں ۔۔