گدھوں کی تعداد میں اضا فہ
خبرآئی ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں گدھوں کی تعداد میں اضا فہ ہو اہے چار سال پہلے یہ خبر پشاور سے آئی تھی تو ہمارا ماتھا ٹھنکا تھا ہم نے دل ہی دل میں کہا کہ کس کو اتنی فر صت ملی ہے کہ سارے کا م چھوڑ کر گدھا شماری کا شغل فر ما تاہے حا لانکہ گدھوں کو گن گن کر رکھنے کی بات ہمارے لئے نئی نہیں تھی ہمارے پو لٹیکل سائنس کے پرو فیسر کہا کر تے تھے کہ جمہوریت ایسی طرز حکومت ہے جس میں ’’گدھوں‘‘ کو گنا کر تے ہیں تو لا نہیں کرتے پھر ایسی افتاد پڑ ی کہ گدھا ایسا غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ غا ئب ہوئے تھے بار برداری کے لئے موٹر گاڑیاں آنے کے بعد یاروں نے گدھا پالنا چھوڑ دیا مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا ایک سہانی صبح کو مشیئت الٰہی سے ایسا ہوا کہ پنجاب کے ہو ٹلوں میں لذیز ترین کڑا ہی اور باربی کیو مشہور ہوئے دوسرے صو بوں سے گوشت خو ر لو گوں نے پنجاب کا رخ کیا ، یہاں تک تو بات درست تھی ، بات اُس وقت بگڑی جب پنجاب پو لیس نے کار وائی ڈالنے کے لئے گدھوں کے سر ، کان ، سُم اور دُم بڑی تعداد میں برآمد کر کے قصائی کو عدالت میں پیش کیا مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیتے ہوئے قصائی نے اعتراف کیاکہ وہ گدھے کے گوشت کا سب سے بڑا بیو پاری ہے شہر کے بڑے ہوٹلوں میں کڑا ہی اور باربی کیو کے لئے گدھے کا گوشت بے حد مقبول ہے گویا ہم جس لذیز گوشت کے عادی ہو چکے تھے وہ گدھے ہی کا گوشت تھا ہم نے لا حول پڑھا مگر ہمارے لا حول کا اُلٹا اثر ہوا خبر آگئی کہ چین نے خیبر پختونخوا کی حکو مت کے ساتھ گدھوں کی تجا رت کا معا ہدہ کیا ہے خیبر پختونخوا سے ایک بڑا تجارتی وفد بیجنگ کے ہوائی اڈے پر اُترا تو کارٹونسٹ نے کیپشن لگائی ’’گدھوں کی پہلی کھیپ ۔۔۔۔‘‘ چینیوں نے سبزبتی دکھائی تو حکومت نے صو بے میں ڈنکی فارمنگ کے ذریعے مزید گدھے پیدا کرنے کا منصو بہ بنایا حالانکہ وزیر باتدبیر اپنی درویشی اور فقیری کا اعلان کرتے ہوئے باربار کہتے تھے ہم مغرور لوگ نہیں ہم درویش ہیں فقیر ہیں گدھے ہیں مو صوف ’’گدا‘‘کہنا اپنی تو ہین سمجھتے تھے اس لئے اپنے آپ کو ’’گدھا ‘‘ کہتے تھے ویسے گدھا ہونے کا اقرار بہر حال انکار سے بہتر ہے تاریخ میں ایک ایسا گدھا بھی گزرا ہے جسے وزیر ہی نہیں وزیر مو سمیات بنا یا گیا تھا کہتے ہیں ایک باد شاہ شکار پر جا نے سے پہلے مو سم کی پیش گوئی پر نظر رکھتا تھا ایک دن شکار پر روانہ ہو اراستے میں کمہار اس کو ملا کمہار نے کہا باد شاہ سلامت آج تو بارش ہوگی اور سیلاب آئیگا باد شاہ نے پرواہ نہیں کی آگے بارش ہوئی اور سیلاب آیا بادشاہ نے بڑی مشکل سے جان بچائی اگلے روز کمہار کو دربار میں بلا یا اور وزیر موسمیات کے عہدے کی پیشکش کی کمہار نے کہا عالی جاہ! میں مو سم کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا میرا گدھاکان لٹکائے رکھتاہے تو بارش ہوتی ہے کان کھڑے کرتا ہے تو دھوپ ہوتی ہے بادشاہ سلامت نے کہا ٹھیک ہے ہم گدھے کو وزیر بنا دیتے ہیں کمہارنے زیر لب بڑبڑا تے ہوئے کہا ’’باد شاہ لوگ گدھے کو ہی وزیر بنا تے ہیں‘‘ ملاّ نصیر الدین نے گدھے کو مزید عزت دے کر اپنے کندھے پر سوار کیاتھا قصہ یو ں ہے کہ ملا نصیر الدین گدھے پر سوار تھا اُس کا بیٹا پیدل جارہا تھا لو گون نے کہا کتنا ظا لم ہے بچے کو گدھے پر سوار ہونے نہیں دیتا ، اُس نے بچے کو گدھے پر بٹھا یا تو لو گوں نے کہا کہ یہ کیسے لوگ ہیں باپ پیدل جا رہا ہے بچہ گدھے پر سوار ہے ملا نصیر الدین نے گدھے کو اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا شاید یہ کام لو گوں کو پسند ہو شکر ہے ہمارے ہاں کا مو سم گدھوں کو راس آگیا ہے سی پیک (CPEC)اور اوبور(OBOR)نامی چینی منصوبے کا کوئی فائدہ ہو نہ ہو ، یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ گدھے کی مانگ بڑھی ہے اور مانگ بڑھنے کے ساتھ گدھوں کی عزت میں بھی خا طر خواہ اضا فہ ہو اہے ویسے سچ پو چھئے تو غا لب کے محبوب کی گلی کا دربان بھی گدھوں کا قدر شناس تھا یہ بات ایک طالب علم کا پر چہ چیک کرتے ہوئے نظر سے گزری اردو کے پر چے میں سوال آیا تھا کہ غالب نے محبوب کے دربان کا ذکر کس اسلوب میں کیا ہے ؟ہونہار طالب علم نے لکھا کہ دربان تو غالب سے گدھے کو بھی بہتر سمجھتا تھا ورنہ شاعر یہ کبھی نہ کہتا
’’گدھا‘‘ سمجھ کے وہ چپ تھا میری جو شامت آئی
اُٹھا اور اُٹھ کے قدم میں نے دربان کے لئے
ایک بارغالب کے احباب جمع تھے آموں کا دورچل رہا تھا ایک دوست کو آم پسند نہیں تھے اتنے میں وہان سے گدھے کا گزر ہوا دوست نے آموں کے چھلکے گدھے کے سامنے ڈال دیے گدھے نے ان کو سونگھا ضرور مگر کھا یا نہیں دوست نے کہا دیکھو میاں نوشہ ! گدھا بھی آم نہیں کھا تا ، غا لب کب چوکنے والے تھے فوراً بولے ’’ جی ہاں ! اسی لئے تو گدھا کہلا تا ہے ‘‘
پنجاب میں جس نے بھی تازہ ترین گدھا شماری کی ہے اس نے کمال کا کام کیا ہے سال ڈیڑھ سال بعد گدھوں کی اتنی بہتات ہوگی کہ گدھوں کو گننے کا کام نا ممکن ہو جا ئے گا ہمارے دوست پروفیسر شمس النّظر فاطمی فر ماتے ہیں کہ گدھوں کو حقیر مت جا نو پاک چین تعلقات کے تنا ظر میں گدھوں کا مستقبل بہت روشن ہے بلکہ مستقبل ہی گدھوں کا ہے آنے والے دنوں میں پاک چین دوستی کی مثال دیتے ہوئے لوگ ہمالہ سے بلند ، سمندر سے گہری اور شہد سے زیا دہ میٹھی نہیں کہینگے بلکہ پاک چین دوستی کو کُتّوں کی بر یا نی ، مینڈکوں کی میکرونی اور گدھوں کی کڑاہی سے تشبیہہ دینگے یار کی دوستی کے لئے ’’یار ‘ ‘ کی لغت سے استعارے تلاش کرینگے تاکہ ’’زبان یار من ‘‘ والا مسئلہ دوستی کے بیچ حائل نہ ہو ہماری ولی خواہش ہے کہ ہماری جمہوری حکومت دیگر صو بوں کو بھی پنجاب کی طرح گدھا شماری کا ٹاسک حوالہ کرے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی گدھوں کے اعداد شمار اکھٹے کئے جائیں تاکہ پتہ لگے کہ وطن عزیز میں گدھوں کی کتنی گنجا ئش ہے اب تک ہم نے بے شمار گدھوں کو قوم کا اثاثہ قرار دیا ہے اعداد و شمار آنے کے بعد ہم یقینی طور پر کہہ سکینگے کہ ہمارے پاس کتنا اثا ثہ ہے ہمارے قیمتی اثا ثوں پر چین ہی کی نہیں امریکہ کی بھی للچائی ہوئی نظر رہتی ہے اور خیر سے گدھا امریکہ کی ایک بڑی سیا سی جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی کا انتخابی نشان بھی ہے اس لئے ہمیں اپنے اثا ثوں کا خا ص خیال رکھنا چاہئیے اور دیکھتے رہنا چاہئیے کہ ہمارے قو می اثا ثے یعنی گدھے محفوظ ہا تھوں میں ہیں یا نہیں ! اگر ہم نے یہ قیمتی اثا ثہ چینی دوستوں کو دیدیا تو اگلے دن ہمارے چینی دوست اس کی تکا بوٹی کر دینگے کڑا ہی اور بار بی کیو میں سجا ئینگے یہ قیمتی اثا ثہ بر باد ہو جا ئے گا اس لئے پنجاب والے گدھا شماری پر اکتفا نہ کریں اپنا قیمتی اثا ثہ چین کو بھی نہ دیں وہاں یہ اثا ثہ محفوظ نہیں ہو گا یہ اثا ثہ امریکہ کو دیدیں جہاں کم از کم ایک سیا سی جماعت اس کو سر آنکھوں پر بٹھا نے کے لئے تیار ہے دوسری جماعت سر آنکھوں پر نہ بھی بٹھا ئے اُسے بھون کر کھا نے پر امادہ نہیں ہو گی