کالمز

مونٹینز آر کالنگ بٹ فلائیٹ از کینسلڈ

زندگی سے سفر وابستہ ہے یا سفر بجائے خود زندگی ہے مجھے نہیں معلوم۔ گزشتہ کچھ سالوں کے سفر اور مسلسل سفر نے فطرت کی رنگینیوں اور ان رنگینیوں کے پس منظروں کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ سفر در سفر کی تلاش سے ہم خود بھی نابلد ہیں۔ وہ کسی دل جلے ہے خوب ہی کہا ہے؎

کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں

جب سے چلے ہیں گھر سے مسلسل سفر میں ہیں

ہاں یہ الگ بات ہے کہ احمد فراز کے بقول؎

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل

کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا

یا پھر یہ شعر کہ؎

میری تقدیر میں منزل نہیں ہے

غبار کارواں ہے اور میں ہوں

ان بے شمار اسفار کے بعد معلوم پڑا بھی ہے تو بس اتنا کہ زندگی کا دوسرا نام ہی شاید سفر ہے۔ رحم مادر سے پیدائش تک، بچپن سے لڑکپن تک، لڑکپن سے جوانی تک، جوانی سے بڑھاپے تک اور بڑھاپے سے لحد تک سفر ہی تو ہے کہ ہر انسان کو نہ چاہتے ہوئے بھی ان مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ حیدر علی جعفری نے خوب کہا ہے؎

آئے ٹھہرے اور روانہ ہو گئے

زندگی کیا ہے، سفر کی بات ہے

سفر وسیلۂ ظفر ہے۔ لیکن سفر کا وہ لمحہ کرب ناک ہوتا ہے جب الوداع کا وقت آتا ہے۔ ہر اسٹشین پر جہاں کچھ نئے لوگ ہم سفر بنتے ہیں تو وہاں کچھ ہمسفر بچھڑ جاتے ہیں۔ میری حساسیت کا آپ اس بات سے اندازہ لگائے کہ نہ جان نہ پہچان اپنی منزل پر اترنے والے اجنبی سے الوداع کہتے ہوئے آخری بار ہاتھ ملاتا ہوں تو مجھ پر کیا گزرتی ہے وہ میں ہی بہتر جان سکتا ہوں اس کرب کو لفظوں کا پیرایہ دینا بجائے خود ایک کرب ناک مشق ہے۔ آگاہ دہلوی نے ان حالات کی اچھی منظرکشی کی ہے؎

ایک سفر وہ ہے جس میں

پاؤں نہیں دل دکھتا ہے

یا پھر یہ شعر؎

ابھی سفر میں کوئی موڑ ہی نہیں آیا

نکل گیا ہے یہ چپ چاپ داستان سے کون

یا عابد ادیب کا یہ شعر؎

سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں

ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ چھوٹ جاتے ہیں

آج بھی جب شہر اسلام آباد سے خروج کا وقت آیا تو نہ جانے کیوں ائیر پورٹ کے ویٹنگ لاؤج میں باہر کی طرف لگی لوہے کی مضبوط ریلنگ کا سہارا لیے میں اس شہر نامراد کی دھند میں لپٹی فضا کو گھور رہا تھا تو جہاں مجھے اس شہر کو الوداع کہتے ہوئے بچھڑ جانے کا درد ستا رہا تھا وہاں گزشتہ رات کی بارش کے قطرے ائیر پورٹ کے صحن کو بھگو کر اس حسینہ کا روپ دھار چکے تھے جو اپنے ہرجائی کو رخصت کرتے ہوئے دل پر پتھر رکھ کر بے بسی میں آنسو بہاتی ہوئی صرف اتنا کہہ پاتی ہے کہ پھر کب آؤ گے؟ اب اس نا سمجھ حسینہ کو کون سمجھائے؎

میں لوٹنے کے ارادے سے جا رہا ہوں مگر

سفر سفر ہے مرا انتظار مت کرنا

اور وہ سفر بھی پہاڑی وادیوں کی طرف ہو تو مسافر کے واپس آنے کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔ وہ جہاں فضا میں تحلیل ہوتی ہوئی پرواز کے ساتھ آکاش کو چھونے کی کوشش کرتا ہے اور نیچے بہت نیچے لوگوں سے بزبان شاعر کچھ یوں مخاطب بھی ہوتا ہے؎

پہاڑوں کی بلندی پر کھڑا ہوں

زمیں والوں کو چھوٹا لگ رہا ہوں

ہر اک رستے پہ خود کو ڈھونڈھتا ہوں

میں اپنے آپ سے بچھڑا ہوا ہوں

اپنے آپ سے بچھڑنے والوں کو ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہیں۔ غلام جیلانی برق کہتے ہیں ’’دو آدمیوں کو تلاش کرنا مشکل ہے ایک وہ جو اپنے آپ سے جدا ہوجائے اور دوسرا وہ جو اپنے آپ کو پالے۔‘‘ پھر کہتا ہے ’’زندگی ایک متاعِ گم گزشتہ ہے جس کی تلاش میں ہم سرگرداں ہیں، جب یہ مل جاتی ہے تو ہم خود گم ہوجاتے ہیں۔‘‘ اس لیے وہ مسافر جہاز کی کھڑکی سے دیکھتا ہے اور اس ناسمجھ حسینہ کو جو ابھی تک ہاتھوں کا چھجہ بناکے فضا میں اسے ڈھونڈ رہی ہوتی ہے، مسافر اسے یقین دلاتا ہے کہ وہ تصویر نہیں بلکہ تصور کی آنکھ سے دیکھے تو اسے اپنے اطراف میں ہی پا لے گی۔ بقول شاعر؎

تو ہی مرکز ہے میری زندگی کا

ترے اطراف مثل دائرہ ہوں

آج کے لیے اتنا ہی کہ اس سے زیادہ ایک مسافر کیا لکھ سکتا ہے۔ مونٹینز آر کالنگ۔ اس میں حیرانی کی کیا بات ہے فرزندِ پہاڑ کو پہاڑ ہی بلائیں گے ناں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ پرواز منسوخ ہوچکی ہے۔ شاید حسینہ کے آنسو کام کر گئے۔ ایک دن اور اس شہرِ نامراد میں۔ تمہیں اس مسافر کے بارے میں جاننا ہے تو اس مسافر کا آپ سے اتنا کہنا ہے؎

پہاڑی سلسلے چاروں طرف ہیں بیچ میں ہم ہیں

مثالِ گوہر نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں

فی امان اللہ!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button