قصہ تمام
رشید ارشد
لیڈر بننے کا شوق بھی عجب ہے ،سیاسی عجوبے لیڈر بنتے بنتے قوم کی کشتی ڈبو دیتے ہیں ۔
ہم تو پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ ارے بابا ،قوموں کی تقدیر کے فیصلے عدالتی احکامات سے نہیں سیاسی جدو جہد سے ہوتے ہیں ،لیکن وہ نہ مانے اور لیڈر بننے کے شوق میں قوم کی کشتی ایسی ڈبو دی کہ سمندر کی تہہ میں جاکر بھی غوطہ خور دریافت نہیں کر سکتے ۔میں نے گزشتہ دن کے کالم میں لکھاتھا کہ اس طرح کے سیاسی شاہ دولوں سے جب تک قوم کی جان نہیں چھوٹے گی حقوق تو دور کی بات ہے گندم کی بوری بھی نہیں مل سکتی ہے ،
گزشتہ کئی مہینوں سے سیاسی شاہ دولے صدائیں لگا رہے تھے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے قوم کی تقدیر بدلے گی ،آج جب فیصلہ آیا تو واقعی میں تقدیر ایسی بدلی کہ سیاسی جدو جہد کے تمام راستے ہمیشہ کے لئے بند کر دئے گئے ،گلگت بلتستان کا مقدمہ منزل بہ منزل رواں تھا وقت کے ساتھ ساتھ ہم حقیقی منزل کی طرف بڑھ رہے تھے ،پیپلز پارٹی نے 2009کا نظام دیا اگرچہ یہ کوئی صحیفہ نہیں تھا بہت ساری اچھائیوں کے ساتھ نقائص بھی تھے مسلم لیگ ن نے اس سے اچھا نظام 2018میں دیا اس میں بھی جو نقائص تھے وہ وقت کے ساتھ دور ہو سکتے تھے ،مستقبل قریب میں اس میں مزید بہتری لا کر ایکٹ بنایا جا سکتا تھا ،ہم نے کہا تھا خدا را قوم کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ سیاسی جدو جہد سے کرنے دو عدالتوں میں نہ جاو ،عدالت ایک دفعہ ٹھپہ لگائے گی تو ،منی کی بدنامی اور شیلا کی جوانی طرح قصہ تمام ہوگا لیکن تبدیلی کے پروانے اور بار کونسل کے دیوانوں نے کہا نا بابا نا،ہم تو دم دما دم مست قلندر کریں گے اور لیڈر بنیں گے ،،،اب کیا نکلا سپریم کورٹ سے وہی مسلم لیگ ن کابنایا گیا آرڈر 2018ہی جس میں سے گوشت نکال کر صرف ہڈیاں واپس کر دی گئیں ،مسلہ حقوق کا نہیں ،مسلہ صرف بغض کا تھا کہ یہ آرڈر مسلم لیگ ن نے کیوں بنایا تھا،جب مسلم لیگ ن کی حکومت کہہ رہی تھی کہ اس میں اٹھارویں ترمیم کے مطابق جو اختیارات صوبوں کو حاصل تھے وہ تمام گلگت بلتستان کو مل چکے ہیں تو نہ صرف بغض میں لوگ اندھے ہوئے بلکہ کوئی سپریم کورٹ کی طرف دوڑ لگا رہا تھا تو کوئی سڑکوں کی طرف مارچ کر رہا تھا ،سیاسی بونوں نے سوچا لگے ہاتھوں لیڈر بننے کا اس سے اچھا موقعہ نہیں ملے گا اس لئے لگاو نعرے ،،،لیکن انہیں شاید خبر نہیں تھی کہ لیڈر جذباتی ،تقریر ،نعرے لگانے اور سپریم کورٹ کی طرف دوڑیں لگانے سے نہیں یہ ایک مستقل ریاضت اور جہد مسلسل ہے۔لیڈر بننے کیلئے زولفقار علی بھٹو کی طرح سولی کو چومنا پڑتا ہے ،نواز شریف کی طرح آخری سانسیں لیتی شریک حیات کو بستر مرگ پر چھوڑ کر قوم کی آواز پر لبیک کہنا ہوتا ہے ،استاد محترم حسن شاد مرحوم کی روح سے معذرت کے ساتھ
سیاست میں قدم رکھنا بہت مشکل ہے اے صاحب
کہ ممبر بنتے بنتے آدمی دیوانہ ہوتا ہے
سیاسی شاہ دولے لیڈر بننے کیلئے بونگیاں ماریں گے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہوا ،وہ محاورہ یاد آرہاہے، دادا کی زمین لینے گئے تھے باپ کی زمین سے بھی چلی گئی ،آرڈر 2018جو مسلم لیگ ن نے بنایا تھا اس میں صوبوں کے تمام اختیارات گلگت
بلتستان کو مل چکے تھے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اہم اختیارات وفاق کو واپس ہو گئے۔میرا ایک شعر
سوچ لو تو ہم ترقی میں کہاں تک آئے
جس جگہ سے چل پڑے تھے پھر وہاں تک آگئے
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دل بہت اداس ہے ۔قارئین چلتے چلتے گلگت بلتستان کے مشہور شاعر عبد الحفیظ شاکر کی ایک غزل پڑھتے جائیے۔
آدمی کا شمار تین میں ہے
بد میں،بدتر میں ،بدترین میں ہے
سچ تو یہ ہے کہ سچ نہیں کچھ بھی
جھوٹ کا راج اب زمین میں ہے
چھوڑ کر حکمراں لٹیروں کو
عام لوگوں کی چھان بین میں ہے
پہلے تھا کوہ کاف میں لیکن
اب یہ آب حیات چین میں ہے
اس کو دنیا رفیق کہتی ہے
سانپ بن کر جو آستین میں ہے
پڑھ کے آیات پھونکنے والے
کیا خدا بھی ترے یقین میں ہے
دل میں کچھ ہے اگر زبان میں کچھ
تو سمجھ تو منافقین میں ہے