شمس الرحمن تاجک
عام آدمی کو احتساب تماشا کیوں لگتا ہے؟ اس کی وجہ وہی پرانی تھیوری ہے۔ نبی آخرالزمان ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں ان کا بھی ہاتھ کاٹنے میں دیر نہیں کروں گا‘‘ یہ ہوتی ہے احتساب، قانون کی بالادستی یا جو کچھ بھی آپ سمجھ لیں۔ اس تناظر میں ہم اپنے ملک میں احتساب کے نعرے لگانے والوں کو دیکھتے ہیں تو ان کے اردگرد کھڑے لوگوں کے اپنے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ رنگیں ہاتھوں سے احتساب کیسے ہوسکتا ہے؟ اس بات پر بھی ہم یقین کرنے کو تیار ہیں کہ احتساب ہورہا ہے مگر شرط وہی ہے کہ جن کی ذمہ داری بنتی ہے احتساب کرنے کی۔ وہ لوگ اپنے گھر میں موجود متفقہ اور سند یافتہ کرپٹ لوگوں کو اپنے آپ سے الگ نہیں کرسکتے۔ ایک چور دوسرے چور کا احتساب کیسے کرسکتا ہے۔ جس طرح آپ کو دور کھڑے ہر مخالف کا ہاتھ رنگیں نظر آتا ہے کبھی فرصت ملے تو اپنے ٹبر میں شامل سر تا پا رنگوں میں ڈوبے ہوئے اشخاص پر بھی توجہ دے کر دیکھ لیں، ہوسکتا ہے کوئی سرغنہ اپنے ہی گھر میں دستیاب ہو۔
دوسری رائے یہ ہے کہ احتساب کرنے والی صرف ایک ذات ہے جس کو کسی کا خوف نہیں اور وہ ہے خالق کی ذات۔ اگر یہ احتساب ان کی طرف سے شروع ہوا ہے تو ہم میں سے کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ کسی مجرم کو نہیں بخشتے، چاہے ان کے جہاز ہوں، ہیلی کاپٹر ہوں، لندن میں فلیٹ ہوں، امریکہ یا دبئی میں گھر ہوں،ٹینک ہوں یا ایٹم بم۔ وہ ڈھیل بہت دیتے ہیں، اتنا زیادہ ڈھیل کہ مجرم یقین کرلیتا ہے اب ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں رہا۔ حالانکہ اللہ کی چکی اس دوران اپنا کام شروع کرچکا ہوتا ہے مگر دھیرے دھیرے اور آرام سے۔ تو کیا ہم اس احتساب کو خالق کا احتساب سمجھیں۔؟
مذکورہ دونوں صورتوں میں عام آدمی کا کیا نقصان ہوگاکچھ بھی تو نہیں۔عام آدمی کے پاس کھونے کے لئے کیا کچھ ہے، جواب سیدھا سادہ ’’کچھ بھی نہیں‘‘۔ تعلیمی ادارے؟ صحت کے مراکز؟بنیادی انسانی حقوق جیسے مراعات؟ بینک بیلنس؟ ہوائی جہاز؟ دنیا بھر میں محلات؟خودساختہ جلاوطنی، مختلف ممالک کی شہریت، بچوں کا دنیا بھر میں کاروبار، کلاشنکوف، ٹینک یا ایٹم بم؟۔ یہ سب کچھ کب عوام کی ملکیت رہے ہیں۔یہ سب تین فیصد مراعات یافتہ طبقے کے پاس ہیں اگر کچھ چھین بھی گیا تو انہی کا چھین جائے گا۔ عام آدمی کے سرہانے آج بھی تکیے کی جگہ بڑا سا پتھر رکھا ہوا ہے ۔ وہ پتھر آپ سے کوئی نہیں چھینے گا۔ اطمینان رکھئے گا۔
پھر خسارہ کس کا ہے؟۔ اس میں دو آپشن بچتے ہیں۔ اگر یہ خالق کی باریک پیسنے والی چکی ہے تو صرف وہ افراد اس کی زد میں آئیں گے جو داغدار ہیں۔ جن لوگوں نے مخلوق کا حق کھایا ہے، جنہوں نے بے تحاشا کھایا ہے، بے دریغ کھایا ہے، اپنا حق سمجھ کر کھایا ہے۔ ان میں سے کوئی نہیں بچے گا چاہے جو بھی جتن کرلیں۔ اگر یہ 70 سالوں سے جاری تماشے کا حصہ ہے تو تماشہ گروں کو شاید اس بات کا احساس ابھی نہیں ہوا کہ احتساب کے نام پر عوام کے ذہنوں میں جو بات بٹھائی گئی ہے، متواتر ان کو کچھ ایسے حقوق کے بارے میں یقین دہانی کرائی گئی جن کے وہ عادی نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ عوام کو شعور دینے کے نام پر جس آتش فشان کا منہ کھول چکے ہیں۔ معلوم ہونا چاہئے کہ کھلے منہ والے آتش فشان اتنی آسانی سے بند نہیں ہوا کرتے۔یہ آتش فشان کم یا زیادہ اپنا خراج وصول کرکے ہی منظر سے ہٹے گا۔ کم از کم یہ مذاق آپ کو شروع نہیں کرنا چاہئے تھا۔