وزیر اعلی گلگت بلتستان نے وزیر امور کشمیر کو سپریم کورٹ فیصلہ پر تحفضات سے آگاہ کیا
اسلام آباد (پ ر) وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور کی دعوت پر وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن اور وزیر امور کشمیر کی ملاقات۔ ملاقات میں وزیر قانون گلگت بلتستان اورنگزیب ایڈوکیٹ اور سکیر ٹری کشمیر افئیرزبھی موجود تھے۔
وزیر اعلی نے وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان حکومت کی سفارشات جو عوامی امنگوں کے عین مطابق تھیں کو سپریم کورٹ میں پیش نہیں کیا جس کی وجہ سے ایک ایسا فیصلہ سامنے آگیا کہ عوام میں شدید بے چینی اور اضطراپ پایا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے عوام کو امیدیں دلائیں تھیں کہ پہلے سے بھی اچھا نظام دیا جائے گا لیکن ہوا اس کے برعکس۔ گلگت بلتستان کو مزید با اختیار بنانے کے بجائے پہلے سے جو اختیارات حاصل تھے وہ بھی وفاق کو واپس کر دئے گئے۔ ایسے میں ہم سمجھتے ہیں کہ اگر تحریک انصاف کی مرکزی حکومت گلگت بلتستان حکومت کی سفارشات سپریم کورٹ میں پیش کرتی تو اچھا اور گلگت بلتستان کے عوام کے حق میں فیصلہ آسکتا تھا لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں کیا گیا ، بہت سارے ایسے فیصلے سامنے آچکے ہیں کہ جن سے انتظامی سطح پر مشکلات کا سامنا ہے ،ہم نے اپنی سفارشات میں لکھا تھا کہ وفاقی آفیسران کا کوٹہ کم کیا جائے اس کے برعکس بڑھایا گیا ،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وفاق کے کوٹے سے دس سکیرٹری نے گلگت بلتستان آنا ہے جن میں سے گزشتہ دو سال سے چھہ پوسٹوں پر وفاق سے کوئی سکیر ٹری نہیں آرہا ہے اسی طرح سیکشن آفیسر کی پوسٹوں پر بھی ایک بھی نہیں آیا ،اس فیصلے سے گلگت بلتستان کے آفیسران کا حق مارا جا رہا ہے گلگت بلتستان کے آفیسران پیشہ ورانہ مہارت میں اس سطح پر ہیں کہ یہ ذمہ داریاں سنبھال سکتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ تمام صوبوں میں قانون ہے کہ ایڈوکیٹ جنرل کی تعنیاتی صوبائی حکومت کرتی ہے لیکن یہ عجب فیصلہ سامنے آیا کہ صرف گلگت بلتستان میں ایڈوکیٹ جنرل کی تعنیاتی کا اختیار گورنر کو دیا گیا ،اسی طرح نگران حکومت کے لئے حکومت اور اپوزیش کی مشاورت کا ایک نظام تمام صوبوں میں طے ہے اسے بھی ختم کر کے اس میں وزارت امور کشمیر کی مداخلت ڈالی گئی ،گلگت بلتستان کونسل کے کنسولٹیڈفنڈ کا فارمومولا طے ہو چکا تھا اسے بھی ختم کر کے اپنی مرضی کی ترامیم کی گئیں ،کونسل کے ملازمین میں ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ گلگت بلتستان کا کوٹہ بڑھایا جائے اسے بھی خاطر میں نہیں لایا گیا ، سپریم کورٹ کا اپنا فیصلہ ہے کہ گلگت بلتستان آئین پاکستان کے دائرے میں نہیں اگر نہیں تو گلگت بلتستان کے ہر قسم کے مقدمات کو سپریم کورٹ تک رسائی دے کر انصاف کے عمل کو مزید طویل کیوں کیا گیا، پہلے ہی عدالتی نظام میں طوالت سے عوام عاجز تھے اگر انصاف کی فراہمی میں تیزی لانی ہے تو گلگت بلتستان کی عدالتوں میں مزید اچھی اصلاحات لائیں جا سکتیں تھیں اب مزیدانصاف کے عمل کو طویل کیا گیا ،اسی طرح بہت سے اور ایسے فیصلے ہیں جن میں گلگت بلتستان سے اختیارت واپس وفاق کو دئے گئے ہیں انہی خدشات کے پیش نظر گلگت بلتستان حکومت سپریم کورٹ میں فریق بننا چاہتی تھی لیکن ہمیں فریق نہیں بنایا گیا ۔ان حالات میں گلگت بلتستان حکومت عوام کو اضطراب اور گوں مگوں کی صورتحال میں نہیں رکھ سکتی اس لئے ہم فیصلہ کر چکے ہیں کہ اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل کریں گے۔
وزیر اعلی نے وزیر امور کشمیر سے کہا ہم چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل لے کر سپریم کورٹ جائے اگر وہ ایسا نہیں کرتی ہے تو گلگت بلتستان حکومت نظر ثانی اپیل لے کر سپریم کورٹ جائے گی نظر ثانی اپیل تک ہم وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ گورننس آرڈر 2019کے اطلاق کی منظوری نہ دے اور سپریم کورٹ میں گلگت بلتستان کے موقف کی مخالفت بھی نہ کرے جس پر وفاقی وزیر امور کشمیر نے کہا کہ وفاقی حکومت اس حوالے سے کابینہ اجلاس میں مشاورت کے بعد فیصلہ کرے گی کہ وفاقی حکومت نظر ثانی اپیل کرے گی یا نہیں اور سپریم کورٹ میں کیا موقف دینا ہے اس حوالے سے وزارت قانون سے بھی مشاورت کی جائے گی ۔