گلگت بلتستان ہی پاکستان ہے
رشید ارشد
قوموں کی اجتماعی زندگی میں تاریخی غلطیوں کا بار بڑ ھ جائے تو اک نہ اک دن سزا کا اعلان ہو ہی جاتا ہے،سزا بگڑنے کے لئے نہیں سدھرنے کے لئے ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد گلگت بلتستان میں اک عجیب ہو ہو کا مچی ہے ،نام نہاد قوم پرست اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں تو ملک سے باہر مقیم مہرے اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں ،وفاق پرست جماعتیں اس حوالے سے ایک پیج پر آنے کی کوشش کرتی ہوئیں نظر نہیں آرہی ہیں۔
ستر برس کیا کم تھے کہ ہم اپنی غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے را ہ راست پر آجاتے ،اب مزید غلطیوں پر غلطیاں کرنے سے ہم تاریخ کی کسی گہری کھائی میں گر کر گم نامی کا ساماں تو بن سکتے ہیں لیکن اب غلطیوں اور کنفیوز قیادت سے روشن مستقبل سے آشنا نہیں ہو سکتے۔ سپریم کورٹ سے گلگت بلتستان کے حوالے سے فیصلہ بر آمد ہونے کے بعد ایک طرف ٹھکرائے ہوئے سیاسی اداکار بھانت بھانت کی ڈگڈگیاں بجا کر قوم کو مزید کنفیوز کر رہے ہیں تو دوسری طرف بہت ہی ہوشیاری سے ملک دشمن طاقتوں کے مہرے گلگت بلتستان کے نوجوانوں میں ریاست کے خلاف بغاوت کے لئے سوشل میڈیا میں ناپاک اور زہریلا پروپگنڈہ کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے ،واپسی کے تمام دروازے بند ہو چکے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے ،کچھ بھی ختم نہیں ہوا ہے ،قیادت دور اندیش اور مخلص ہو تو گلگت بلتستان کے روشن مستقبل کے تمام دروازے کھل چکے ہیں ۔
گلگت بلتستان کی قوم کی تقدیر کا تالہ گلگت بلتستان کے کچھ کچھ جلدی میں لیڈر بننے کے خواہاں سیاسی اداکار اورشہرت کے دلدادہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے عدالتی فیصلے سے بند نہیں ہوا ہے ،ہاں البتہ گلگت بلتستان کے ناکام سیاسی اداکاروں کی غلطی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی غلطیاں تاریخ کے صفحات میں محفوظ ضرور ہو چکی ہیں۔ قوموں کی تقدیر عدالتی فیصلے میں تحریر دو انگریزی کے الفاظ yesاور noسے بہت آگے کی ہوتی ہے ۔
جس تیزی سے ملک دشمن طاقتیں بہت ہی خاموشی اور چالاکی سے گلگت بلتستان کے نوجوان نسل کے ذہنوں میں مایوسی کا زہر اتار رہی ہیں وہ سب نظر آرہا ہے۔ دشمن کا یہ خواب خواب ہی رہے گا کہ گلگت بلتستان میں بلوچستان کی طرح کے حالات پیدا ہوں۔ گلگت بلتستان نہ تو بلوچستان ہے اور نہ ہی گلگت بلتستان کے عوام کے دلوں سے پاکستان کی محبت کوئی کم کر سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے ،،راِ،،کے زیر انتظام جو ایک اسپیشل ونگ بنایا ہے وہ اپنے کام میں وسعت دے کر گلگت بلتستان کے نوجوانوں میں مایوسی پھیلانے کے لئے متحرک ہوگا۔ لیکن یہ اس کا خواب ہے کیونکہ الحمد اللہ گلگت بلتستان کا بچہ بچہ اپنے ملک پاکستان کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔ 71کی جنگ ہو65 کی جنگ ہو یا معرکہ کارگل ہو گلگت بلتستان کے شیر جوانوں نے اپنے سینے پر گولیاں کھا کر بھارت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا ہے ۔
گلگت بلتستان ہی اصل پاکستان ہے ۔گلگت بلتستان پاکستان کے لئے سر کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی ایک فیصلے سے یا چند عاقبت نا اندیشوں کی حماقتوں سے گلگت بلتستان کا مستقبل نہ تو تاریک ہو سکتا ہے اور نہ ہی ریاست ان حالات سے غافل ہے۔ بس ذرا ہوش کے ناخن لیں تو سب کچھ درست ہوگا۔ اب ایسا نہیں کہ دنیا میں کہیں کوئی تبدیلی آئے تو باقی دنیا بے خبر ہو۔ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ ا س سکڑتی دنیا میں ہمیں اپنے ارد گرد رونما ہونے والے حالات اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے بدلتے بیانیوں کو بھی پرکھنا ہے۔ اب وہ دور گیا کہ جنگل میں مور کو ناچتے ہوئے کس نے دیکھا ہے ،اب مور کیا چیونٹی بھی حرکت کرتی ہے تو کیمروں سے نہیں بچ سکتی ہے ۔
ہمیں ریاست کی اندرونی اور بیرونی مجبوریوں کو مد نظر رکھتے ہوئےمسلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں ،پاکستان کے روز اول سے اپنائے موقف ،شہدا کشمیر کی قربانیوں اور بھارت کے بیانئے کو سامنے رکھتے ہوئے بیانیہ ترتیب دینا ہوگا۔ اب اگر گلگت بلتستان کے رہنما ریاست کے بیانیہ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بیانیہ ترتیب نہیں دیں گے اور اپنی اپنی سیاسی ڈگڈگیاں بجاتے ہوئے صرف اپنا قبلہ درست کرنے کی سعی کریں گے توتا ریخ انہیں معاف کرے یا نہ کرے گلگت بلتستان کی قوم تو معاف نہیں کرے گی۔ سپریم کورٹ کافیصلہ کیوں آیا اور سیاسی اداکاروں نے کب اور کہاں کیا غلطیاں کیں اب اس قوالی کو طول دے کر ملک دشمن عناصر کو نوجوانوں میں مایوسی کا زہر پھیلانے کا موقع دینے کے بجائے مسلہ کشمیر ،اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پاکستان کے موقف کے اندر رہتے ہوئے گلگت بلتستان کے تمام سٹیک ہولڈر کی مشاورت سے ایک بیانیہ ترتیب دینا ہوگا۔
تندور گرم ہے، ایک چپاتی ہم بھی لگائیں والا کام نہیں چلے گا۔ یہ وقت ذاتی مفادات اور اپنی اپنی ڈفلیاں بجانے کا نہیں دشمن طاقتوں کے عزائم کو دیکھتے ہوئے سیاسی انتشار سے نکل کر دانشمندانہ بیانیہ ترتیب دینے کا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو صاف نظر آرہا ہے کہ دشمن طاقتوں کے مہرے نوجوانوں کے زہنوں میں مایوسی ،نفرت اور بغاوت کے زہر بھرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ اس تمام تر غیر یقینی صورتحال کا حل یہ ہے جوش سے نہیں ہوش سے او رجذبات سے نہیں داشمندی سے مستقبل کے فیصلے ترتیب دئے جائیں۔ سیاسی جماعتوں اور رہنماوں کی ذمہ داری ہے کہ قوم کو اس غیر یقینی صورتحال سے نکال کر امید اور روشن مستقبل کی شمعیں روشن کریں ۔
گزشتہ کچھ دنوں سے شہر اقتدارمیں ہونے والی مختلف نشستوں کے احوال سے آگاہ ہوں۔ ان نشستوں میں چند چلے سیاسی کارتوس جن جذبات کا اظہار کر کے نوجوانوں کو آگ سے کھیلنے کے لئے جس طرح آمادہ کر رہے ہیں اس کے نتائج بہت بھیانک ہیں۔ خدا را اب گلگت بلتستان کی قوم کے ساتھ ذاتی مفادات کے لئے ڈرامے بند کرو اور سنجیدگی سے مستقبل کی راہوں کا تعین کرو۔
گلگت بلتستان ہی پاکستان ہے