کالمز

نئے اضلاع: غذر اور دیامر

غذر اس وقت رقبے اور آبادی کے لحاظ سے گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ضلع ہے اور یہی بات دیامر کے لیے بھی صیح ہے۔ یہ دونوں اضلاع جہاں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں وہی پر انتظامی لحاظ سے دوسرے اضلاع کی نسبت بہت پیچھے ہیں۔ غذر میں اگرچہ شرح خواندگی دمامر کی نسبت زیادہ ہے تاہم اتنے بڑے ضلع میں کوٹے کے لحاظ نوکریاں دینا آٹے میں نمک کے مصداق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں نوجوان بڑی بڑی ڈگریاں لے کر پھر رہے ہیں۔ وہی دیامر میں حکومت نے تعلیم کے میدان میں ہی کام کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔

پچھلے کچھ سالوں میں جی بی کے دوسرے اضلاع میں کافی بہتر انتظامی اصلاحات متعارف کروائے گئے ہیں۔ بڑے اضلاع کو دو دو ضلعوں میں تقسیم کرنے اور کچھ علاقوں کو ڈویژن اور سب ڈویژن بنانے سے معاملات کافی بہتر ہوئے ہیں۔ تاہم نامعلوم وجوہات کی بنا پر غذر اور دیامر میں یہ آصلاحات نافذ نہیں کیے گئے۔ اب اتنے بڑے بڑے علاقوں کو سنبھالنا حکومت اور بیوریوکریسی  دونوں کے لیے مشکل تو ہے ہی ساتھ ساتھ عوام کے لیے بھی بے انتہا مشکلات کا سامنا ہے۔ چھوٹے چھوٹے معمولی کام کروانے کے لیے لوگوں کو دنوں کی مسافت کرنی پڑتی ہے۔ دوسری طرف اتنے بڑے علاقوں کو ایک ضلعی نظام کے اندر رکھنے سے وہاں کے لوگوں کے ساتھ بھی انصاف نہیں ہورہا۔ نوکریوں سے لیکر ترقیاتی بجٹ تک ہر دوسرے معاملے میں بے انصافی اور غیر مناسب سلوک ہوتا ہے۔

غذر کے عوام اور منتخب ممبر اسمبلی  غذر کو کم از کم دو ضلعوں میں تقسیم کرنے کے حوالے سے آواز اٹھاتے رہے ہیں تاہم حکومتی زمہ داران ابھی تک  اس حوالے سے تعاون کرنے سے گریز پا ہیں۔

اب وقت اپہنچا ہے کہ غذر اور دیامر کو دو دو آضلاع میں تقسیم کردیا جائے۔ اس سے جہاں حکومتی معاملات چلانے میں اسانی ہوگی وہی ترقیاتی بجٹ میں ان علاقوں کو ان کا جائز حصہ بھی مل جائے گا اور لوگوں کو روزمرہ معاملات میں اسانی پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ نئی نوکریاں پیدا ہونے کے مواقع بھی ملیں گے۔ دوسری طرف اگرچہ غذر میں تعلیم کے میدان میں کوئی تسلی بخش کام نہیں ہورہا لیکن دیامر میں تعلیمی سرگرمیاں بہت مایوس کن ہیں۔ ان دونوں اضلاع میں قراقرم یونیورسٹی کے کیمپسز کا قیام ایک اچھا قدم ہے اور ان کو کامیاب بنانے کے لیے ہر کو بھر پور کوشش کرنی چاہئے۔ چلاس میں کیڈٹ کالج کا قیام بھی اہم کام ہے لیکن غذر میں تعلیم کو کلی طور پر این جی اوز کے حوالے کرکے ٹیک لگا کر بیٹھنا بھی مناسب نہیں۔ جبکہ دیامر بہت وسیع علاقہ ہے۔ داریل اور تانگیر میں کچھ بوائز سکولوں کے علاوہ گرلز سکول نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکومت کو ان علاقوں میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جدید تعلیم کے حوالے سے لوگوں میں شعور پیدا کرنا اور اس سلسلے میں ماحول کو بنانا بھی حکومت،  منتخب نمائیندوں، سیاستدانوں اور سوشیل ورکرز کی زمہ داری ہے۔ یہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے جب ان علاقوں کو چھوٹے چھوٹے انتظامی یونٹس میں تقسیم کردیا جائے۔

پچھلے سال ہم نے دیکھا کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے کچھ منتخب ممبران ان علاقوں کو نئے اضلاع میں تقسیم کرنے کی مخالفت کررہے ہیں۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ ان لوگوں کو کیا تکلیف ہے۔ کیا یہ غذر کو افغانستان کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ اپ گلگت بلتستانی ہیں ہر علاقے کو اپنا سمجھے وہاں کے لوگوں کو اپنا سمجھے دل بڑا رکھیں سوچ بڑی رکھیں۔ کسی اچھے کام کی مخالفت بڑے لوگوں کی شیان شان نہیں۔

حکومت اور منتخب نمائیندگان کو غذر اور دیامر کے نئے اضلاع میں تقسیم کے حوالے سے کام کرنا چاہئے۔ یہ عوام کی خواہش اور دیرینہ مطالبہ ہے۔ پھر ایسا نہ ہو کہ اس کے لیے عوام کو سڑکوں میں انا پڑے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button