کالمز

جشن کاغلشٹ اور حقوق نسوان کی پامالی

الہامی مذاہب کا مطالعہ کرنے اور ان کی نظریات کو بغور پڑھنے سے ایک بات واضح طور پر سمجھ میں آجاتی ہے کہ ان تمام مذاہب کا نظریہ آدمیت یعنی کہ آدم شناسی تقریباً ایک جیسی ہے ۔ گو کہ ان مذاہب کے نظریات اور شریعت کو الگ الگ انبیاؑ کے ذرئعے اتارا گیا مگر آدم شناسی پر سب ایک ہی نظریے کے پیرو کار ہیں۔ بائبل جوکہ مقدس الہامی کتاب انجیل اور تورات کا نچوڑ ہے یا پھر قرآن کریم جو کہ مسلمانون کی کتاب اور ایمان ہے ، کامطالعہ کرنے سے آدم شناسی کا جو تصور ملتا ہے وہ کچھ یوں ہے۔ کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم ؑ یعنی کہ پہلا انسان، کو تخلیق کیا اور فرشتون کو حکم دیا کہ وہ اسے سجدہ کریں ۔ ماسوائے ابلیس کے تمام فرشتے اسے سجدہ کئے اور آدم ؑ کو جنت میں رکھا گیا۔ چونکہ حضرت آدم ؑ جنت میں رہنے لگے جو کہ ہماری عقیدے کے حساب سے ایک ایسی جگہ ہے جہان پر انسانی زندگی کے لئے تمام ضروریات زندگی میسر ہوتی ہیں اور ہر مسلمان بلکہ تمام الہامی عقیدہ رکھنے یا حیات بعد الموت پر یقین رکھنے والوں کا یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ابدی زندگی جنت میں گزاریں ۔ مگر آدم ؑ کو جنت میں گمایا گیا جنت کی سیر کرائی گئی مگر اس کے چہرے پر مسکان نہیں آیا۔ اس کے بعد بارگاہ خداوندی میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ آدم ؑ اس وقت تک نہیں مسکرائے گا جب تک اس کے لئے اس کا مخالف جنس نہ پیدا کیا جائے اس کے بعد آدم ؑ کی پسلی سے حضرت بی بی حوا کی تخلیق ہوئی تو اسے دیکھ کر حضرت آدم ؑ مسکرایا ۔اور اسطرح ان الہامی مذہب کے مطابق انسانی زندگی میں جو پہلی مسکراہت تھی وہ عورت ہی کی وجہ سے تھی۔ وجود زن سے کائنات میں تصور رنگ۔۔۔

چونکہ ہم اسلام کے پیروکار ہیں۔ اسی لئے ضروری ہے کہ ہم اسلام میں عورت کے حقوق اور عورت کی مقام پر روشنی ڈلنے کی کوشش کریں۔ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے میں شریعت محمدی ﷺ کے پیروکار تمام علماء کرام سے گذارش کرتاچلوں کہ کم علمی کے سبب اگر کہیں غلطی سرزد ہوجائے تو برائے مہربانی توہین کا الزام لگانے سے بہتر ہے کہ میری رہنمائی فرمائیں۔ کیونکہ اسلام سے متعلق ہمارے پاس جتنا بھی علم ہے وہ انہی علماء سے سن کرحاصل کیا ہوا ہے اور اسلئے ضروری ہے کہ رہنمائی (جب ضرورت ہو ) بھی ان ہی سے لیا جائے۔

ظہور اسلام کے وقت عرب کے حالات عورتوں کے لئے انتہائی پیچیدہ تھے۔ معاشرتی اونچ نیچ انتہائی عروج پر تھی اور اسی اونچ نیچ کے سبب معاشرے میں موجود یہ رسم عام تھا کہ کمزور یعنی کے نیچ ذات کے گھر اگر کوئی لڑکی پیدا ہو تو اسے زندہ دفنایا جاتا تھا اور اسی انسانیت سوز واقعات پر کسی حد تک فخر بھی محسوس کیا جاتا تھا اور طلوع اسلام کے بعد سب سے پہلے عورت کے وجود کو بحال کیا گیا اور اس مذموم فعل پر سخت پابندی لگا کر بیٹیوں کواللہ تعالی کی رحمت کی نشانی قرار دیا گیا۔ چونکہ اسلام جو کہ مکمل ضابطہ حیات ہے اور اخوت، مساوات ، عدل و انصاف اس کے بنیادی نشانیان ہیں اسی لئے اسلام کے تمام فیصلے برابری کے بنیاد پر ہی ہوتے ہیں۔ اور حق تلافی کی کوئی کنجائش اسلام میں موجود نہیں ہے۔ اور جو لوگ انصاف کے تقا ضون کو پورا نہ کریں انہیں اسلام اور اسلامی تعلیمات سے غافل سمجھا جاتا ہے۔

چونکہ چترال ، جہان ہر فرد مہذب ہونے کا دعوی دار ہے اور معاشرتی آزادی کو سب کا حق سمجھا جاتا ہے۔ پچھلے دنون جشن کاغلشٹ چترال کے سیکورٹی اور دیگر انتظامات کے حوالے سے میٹنگ بلائے گئے اور اور اس میلے کے کمیٹی ممبران نے یہ فیصلہ کیا کہ جشن کاغلشٹ میں خواتین کی شرکت پر پابندی ہوگی۔ البتہ اپر کلاس (یعنی کہ برہمن ذات) کی خواتین شرکت کرسکیں گی اور لوئر کلاس ( یعنی اچوت / نیچ ذات ) کے خواتین شرکت نہیں کر سکیں گی کیونکہ یہ ہماری روایات کے خلاف ہے اور فحاشی بڑھنے کا بھی خطرہ ہے وغیرہ وغیرہ۔

حضور ہم ایسے روایات پر لعنت بھیجتے ہیں جسمیں انصاف کی دھجیان اڑا دی گئی ہوں اور جس کی رو سے معاشرے میں نفرت پھیلانے کوشش کی گئی ہو۔ کیا اسلام اور ہماری روایات ہمیں خواتین کے ساتھ ناانصافی کا درس دیتی ہیں کیا ہمارے معاشرے میں عورت کا کوئی مقام نہیں ہے؟؟ ۔۔۔۔ اس اقدام کی روشنی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس پابندی کو لگانے والے آج بھی اسلامی تعلیمات سے منکر ہیں کیونکہ اس کی سوچ سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خواتین کو گھرتک محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں اگر بس چلے تو یہ انہیں زندہ دفنانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے اور یہی نہیں بلکہ اگر باریکی سے دیکھا جائے تو یہ لوگ اونچ نیچ کے بھی پیروکار ہیں جسے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے اور ان کے فیصلے "جسکی رو سے جشن کاغلشٹ میں لوئر کلاس یعنی اچھوت ذات کی عورتین شرکت نہیں کرسکیتں جبکہ امیر و کبیر یعنی براہمن خواتین کے لئے کوئی پابندی نہیں ہوگی بلکہ تمام انتظامات موجود ہونگے” سے اونچ نیچ کی بو آتی ہے۔

ہم خوش تھے اور کافی پر امید تھے کہ ہمارا معاشرہ ترقی کی منزلین طے کرکے اگے بڑھ رہا ہے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے تمام فیصلے برابری کی بنیاد پر کرتے ہیں مگر افسوس !!! ۔۔۔۔۔ اس فیصلے کو دیکھ کر ہماری امیدوں پر پانی پھیر گیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں وہ عناصر اب بھی موجود ہیں جو ظہور اسلام سے پہلے عرب میں موجود تھے اور رہی بات روایات کی !! تو یہ کونسی روایت ہے جس کی رو سے انسان کو اس کے حق سے محرو م کیا جائے ؟؟ اور کونسا قانون ہے جس کی رو سے برابری کے بجائے ذات پات کی بنیادوں پر فیصلے کئے جائیں؟ ناظرین اس میں مذہب، روایات یا پھر قانون کی کوئی دوش نہیں ہے ۔ بلکہ ایسے فیصلے ایک فرسودہ سوچ، فرسودہ خیالات کی عکاسی کرتے ہیں جو ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں اور ان کی پہچان ظاہری طور پر ممکن نہیں کیونکہ یہ دیمک کی طرح ہمیشہ اندر ہی اندر وار کرتے ہیں۔ اور اسے سوچ والوں کو جب اختیارات ملتے ہیں تو فیصلے ہمیشہ انصاف اور قانون کے خلاف ہی آتے ہیں۔

اور رہی بات چترال کی بیٹیوں کی!!! ۔۔۔ چترال کی بیٹیاں زندگی کے ہر میدان میں اپنی لوہا منواچکی ہیں اور چترال کا ہر باپ اپنی بیٹیوں پر فخر کرتا ہے اور ان کے لئے تعلیمی دروازے کھلے رکھے ہوئے ہیں اور معاشرے میں اب تک چترال کی بیٹوں سے ایسی کوئی خطا بھی سرزد نہیں ہوئی ہے جو ہمارے لئے شرمندگی کا باعث بنے۔ بلکہ ہمیں اپنی بیٹیوں پر فخر ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹیاں اورہماری خواتین ہر اس جشن کا حصہ بن سکیں جسکا اسے قانون اجازت دے اور اس کے لئے انہیں فرسودہ خیالات رکھنے والے اور جہالون کی صحبت میں کئے گئے ایسے کسی فیصلے کی پرواہ نہیں کرنا ہے جو انہیں ان کی حق سے محروم کرے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button