کشمیرمیں جاری تحریک آزادی
تحریر۔رجب علی قمر
ہر سال بلتستان میں یوم یکجہتی کشمیر اس عہد پیما سے منایا جاتا ہے کہ بھارتی افواج ایک نہ ایک دن کشمیر کے مظلوم اور بے کس عوام پر ظلم سے باز آجائے اور کشمیر کے عوام کو ان کی مرضی کے مطابق جینے کا حق مل جائے ۔ گزشتہ ستر سال سے زیادہ عرصہ گزرا ہے کہ بھارتی قابض فوج کشمیر ی عوام کو طاقت سے دبانے کے لیے ہر قسم کی ریاستی مشینری کا بے دریخ استعمال کررہے ہیں اور تحریک آزادی کشمیر کو دبانے کے لیے بھارتی حکومت سات لاکھ سے زیادہ فوج وادی میں تعیناتی کررکھی ہے۔گھر گھر تلاشی کے نام پر بے گناہوں کو پکڑ پکڑ کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے اور متعدد افراد کو غائب کیا گیا ہے جن کا اب تک سراخ بھی نہیں مل رہا ہے ۔ کشمیر میں بھارتی ظلم اور بربریت کے باوجود بھارتی فوج تحریک آزادی کشمیری کو دبانے میں ناکام رہی ہے ۔ بھارت کی بزدل افواج معصوم اور لاچار کشمیریوں پر جتنا عرصہ اپنے ظلم اور بربریت کا نشانہ بناتے رہے ۔اسی طرح تحریک آزادی کشمیر میں تیزی بڑھتی گئی اور بڑھتی ہوئی تیزی رفتاری میں کشمیر کے حریت پسندوں کے حوصلے بھی بلند ہوتے گئے اور آزادی کشمیر اب کشمیر ی کی وادی تک محدود نہیں رہی بلکہ دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اس اہم ایشو کو اجاگر ہونے میں مدد ملی ۔ اس میں زیادہ تربھارتی فوج کے ان مظالم کی داستان سامنے ہے جس کے باعث دنیا بھر میں ان مظالم کی بھرپور مذمت کی جارہی ہے ۔یہ قابل توجہ امر ہے کہ تاریخ پہلی مرتبہ اقوام متحدہ بھی حرکت میں آئی ہے اور انہوں نے پاکستان کی موثر ڈپلومیسی کی بدولت ہندوستان سے کشمیر میں جاری جد وجہد آزاد ی کے حریت پسندوں کے خلاف بھارت کی انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیو ں کا نوٹس لیا ہے ۔خود بھارت کے اندر بھی ایسی کئی تحریکیں جنم لے چکی ہیں اور بھارت زیادہ دیر تک کشمیریوں کو آزادی سے محروم نہیں رک سکے گا۔بھارت کو ہر حال میں کشمیر سے اپنی افواج کو ہٹانا پڑے گا۔ کشمیر تاریخی حقائق کی روشنی میں پاکستان کا حصہ ہے اور مسلم اکثریتی صوبے کو ہندوؤں نے اپنے انگریڑ آقاؤں سے ساز باز کرکے وہاں پر فوج کشی کی گئی اور زبردستی کشمیر اور جموں پر قبضہ کیا گیا اور پارٹیشن پلان کی خود خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر کو انڈین یونین میں شامل کیا گیا۔ کشمیر جغرافیائی اور مسلم اکثریٹی صوبہ ہونے کے باعث ہندوستان کا حصہ ہی نہیں بن سکتا تھا کیونکہ برصغیر کے دونوں ممالک دو قومی نظریہ کی بنیاد پر الگ ہوئے تھے ۔پارٹیشن پلان کے مطابق آزاد ریاستوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے پسند کے ملک میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں اور ساتھ ہی اکثریتی مذہب کی بنیاد پر بھی کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا تھالیکن ایک گہری سازش کے تحت کشمیر پر قبضہ کیا گیا۔ گلگت بلتستان کی تاریخ ازادی گوہ کہ الگ تھلک تھی لیکن ہندوستاں کی اقوام متحدہ میں قراردار کے باعث گلگت بلتستان مسلہ کشمیر کا اہم فریق ہے اور کشمیعر کے تصفیہ سے گلگت بلتستان کا گہراہ تعلق ہے۔ کیونکہ آزادی سے قبل گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ رہے ہیں اور مہارجہ جموں کشمیر نے ان علاقوں میں حکومت کرچکے ہیں ۔مسلہ کشمیر کی وجہ سے گلگت بلتستان سب سے زیادہ متاثر رہا ہے اور کشمیریوں کی جد وجہد آزادی میں ہمیشہ ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے ۔گلگت بلتستان ہمیشہ کی طرح آج بھی مقبوضہ کشمیر کے ان مظلوم عوام کے ساتھ ہیں جو آج بھی اپنی بقا اور آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔گلگت بلتستان بلخصوص بلتستان کے عوام نے تحریک آزادی کی بھرپور ہمایت کی ہے اور ہمیشہ ان مظلوموں کے لیے آواز بلند کرتے رہے ہیں ۔ بلتستاں میں گزشتہ کئی سالوں سے یوم یکجہتی کشمیر جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے اور اس دن کے حوالے سے بلتستان سے ہمیشہ کشمیریوں کی آزادی کے لیے آواز بلند ہوتی رہی ہے۔ بھارتی حکومت نے ستر سالہ جہدو جہد آزادی کے دوران کشمیر میں اپنی افواج کے زرئعیے ظلم وستم جاری رکھا ہوا ہے اور مختلف کالے قوانین کے زرئعیے ان کشمیریوں کے حقوق کو دبانے کی کوشیش کی جارہی ہیں لیکن کشمیر کی جدو جہد آزادی اب اپنے منظقی انجام تک پہنچ رہی ہے اور کشمیریوں کو ان کی مرضی کے مطابق جینے کا حق مل سکے گا ۔جس کے لیے کشمیریوں نے بے پناہ قربانیاں دے رکھی ہیں اور قربانیوں کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔کشمیر میں ہندوستان کے قبضے کا مقصد وہاں پر موجود قدرتی وسائل پر ہے اور ہندوستان پانی کے مسلے پر بھی کشمیر میں اپنا تسلظ جاری رکھنے کا ارادہ ہے۔ اور دنیا کے مبصرین کو کشمیر جانے کی ہر گز اجازت نہیں دے ررہا ہے کیونکہ دنیا کے سمیت بھارت کا مکرو چہرہ نظر آئے گا۔ کشمیر کے اندر جاری جد وجہد آزادی سے کشمیر کے کٹھن مشکلات میں بتدریج کمی ہوگی اور بھارت کو بالاخر کشمیرسے الگ ہونے پڑے گا۔