کالمز
آزاد کشمیر سے گلگت بلتستان کیلئے محبتوں بھرا پیغام
رشید ارشد
قارئین۔دو دن کالم میں غیر حاضری کی وجہ یہ تھی کہ آزادی کشمیر کے بیس کیمپ آزاد خطہ آزاد کشمیر میں یوم یکجہتی کشمیر کے سلسلے میں تقریبات میں شریک تھے۔ان دو دنوں میں بہت کچھ دیکھا اور محسوس کیا مناسب تصور کرتا ہوں کہ اپنے محسوسات ،مشاہدات اور سفر کی روداد آپ کی نذر کروں،چار فروری کی صبح مجھے بتایا گیا کہ وزیر اعلی گلگت بلتستان ،حافظ حفیظ الرحمن ،سینئر وزیر حاجی اکبر تابان ،وزیر بلدیات رانا فرمان علی ،وزیر اعظم آزاد کشمیر کی خصوصی دعوت پر یوم یکجہتی کشمیر کی مرکزی تقریبات میں شریک ہوں گے ،میں بھی تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ میں یوم یکجہتی کشمیر کے لئے جانے والے اس قافلے کا حصہ بن گیا ، اس دورے کے دوران ایک چیز بہت شدت سے محسوس کی کہ ستر برسوں سے کشمیر اور گلگت بلتستان کے درمیان پھیلائی گئی غلط فہمیوں پر محبت اور اپنایت کا عنصر غالب آچکا تھا ،لمحہ بہ لمحہ محبت کی پرتیں کھل رہی تھی اورکشمیریوں کی آنکھوں میں گلگت بلتستان کے عوام کیلئے محبت کی چمک کو میں آسانی سے محسوس کر سکتا تھا ،یوم یکجہتی کشمیر کی تقریبات کے لئے اگرچہ پاکستان کے سربراہ مملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی آئے تھے اسی طرح اور کئی اعلی حکام و وفود بھی شریک تھے لیکن اس کے باوجود کشمیریوں کا مرکز نگاہ اور محبت کا سلسلہ گلگت بلتستان کے لئے یکتاتھا ہمارا قافلہ جیسے ہی مری کی حدود میں داخل ہوا آزاد کشمیرکی طرف سے استقبال کے لئے آنے والی کچھ گاڑیوں نے گھیر لیا ،جیسے ہی کوہالہ پل پر پہنچے تو وہاں بڑی تعداد میں ایک اور قافلہ استقبال کے لئے منتظر تھا یوں ایک بہت بڑا قافلہ جیسے ہی مظفر آباد کی حدود میں داخل ہوا تو رات کی سیاہی دن کے اجالوں کو شکست دے چکی تھی ،پرل کانٹینٹل ہوٹل میں قیام کا انتظام کیا گیا تھا ،کچھ دیر آرام کے بعد بتایا گیا کہ وزیرا عظم آزاد کشمیر کی طرف سے رات کا کھانا وزیر اعظم ہاوس میں ہے ،وزیر اعظم ہاوس پہنچے تو وزیر اعظم اور ان کی کابینہ اراکین نے وزیر اعلی اور ان کے وفد کا بھر پور استقبال کیا۔
کھانے کی میز پر گفتگو کا آغاز ہوا تو کہیں سے بھی یہ نہیں لگا کہ کشمیری قیادت گلگت بلتستان کو حقوق دینے کی مخالف ہے ،جب نعرہ ہی یہ کہ ،کشمیر بنے گا پاکستان ۔جب گلگت بلتستان اور کشمیر کی منزل پاکستان ہی ہے تو کیونکر کشمیری گلگت بلتستان کی الحاق پاکستان کی مخالفت کریں ،یہ بہت ہی حساس اور نازک مسلہ ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ،کشمیری بھی پاکستان اور گلگت بلتستان کے عوام بھی پاکستان کو اپنی منزل تصور کرتے ہیں ،منزل مشترک ہے ، اگر منزل مشترک ہے تو پھر غلط فہمیاں کیوں ،اس ،کیوں، کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، اس بات سے تو کسی کو انکار ممکن نہیں کہ گلگت بلتستان مسلہ کشمیر کا حصہ ہے،اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق گلگت بلتستان مسلہ کشمیر کے ساتھ جڑا ہے ،تاتصفیہ کشمیر ریاست پاکستان کے لئے اس لئے پاکستان کا آئینی حصہ بنانا ممکن نہیں ہے کہ اگر پاکستان ایسا کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلہ کشمیر پر ستر برسوں سے اپنائے موقف سے دستبرادار ہو رہا ہے،یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت نے بھی تو آئین کی شق 370کے تحت آئین کا حصہ بنایا ہے ،اس حوالے سے یہ سمجھنے کی کی ضرورت ہے کہ بھارت روز اول سے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے جبکہ پاکستان کا موقف مختلف ہے اور پاکستان کشمیر کو متنازعہ تصور کرتے ہوئے ستر برسوں سے آزادی کی تحریک کی اخلاقی اور سفارتی حمایت کرتا ہے۔
پاکستان کہتا ہے کہ یہ فیصلہ کشمیریوں نے کرنا ہے کہ انہوں نے اپنا مستقبل کس کے ساتھ وابستہ کرنا ہے ،اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو یہ اختیار حاصل ہے ۔اس سے واضح ہو گیا کہ بھارت کشمیر کو اٹوٹ انگ کہہ کر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے جس سے اس کا موقف اقوام عالم میں کمزور ہے جبکہ پاکستان کا موقف مظبوط ہے ۔یہ آواز کشمیر کی ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان،اس وضاحت کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کے لئے کشمیری رکاوٹ نہیں ،خیر یہ الگ اور سیر حاصل گفتگو والا موضوع ہے ،اب زرا پھر سے یوم یکجہتی کے حوالے تحریک آزادی کے بیس کیمپ آزادکشمیر میں گلگت بلتستان کے عوام کے لئے محبتوں کے سلسلے پر بات کرتے ہیں ،پانچ فروری کی صبح نو بجے آزاد کشمیر اسمبلی کا اجلاس تھا جس میں صدر پاکستان نے خطاب کرنا تھا ،اسمبلی اجلاس کے دوران وزیر اعلی گلگت بلتستان اور گلگت بلتستان کے وزرا جب اسمبلی کی گیلری میں داخل ہوئے تو تمام اراکین نے ڈیسک بجا کر شاندار استقبال کیا ،اسکے بعد اسمبلی کارروائی کا آغاز ہوا تو تمام پارلیمانی پارٹیوں کے لیڈران نے اپنے اپنے خطاب میں وزیر اعلی گلگت بلتستان اور ان کے وفد کو اس تاریخی موقعہ پر مظفر آباد آمد کو نیک شگون قرار دیتے ہوئے زبردست الفاظ میں خوش آمدید کہا ،صدر پاکستان عارف علوی نے بھی وزیر اعلی اور ان کے وفد کو خوش آمدید کہا،وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے اپنی تقریر میں جن الفاظ کے ساتھ گلگت بلتستان کے لئے آزاد کشمیر کی عوام کی طرف سے محبت کے جذبات کا اظہار کیا وہ تاریخی ہیں انہوں نے مظبوط انداز میں اپنی تقریر سے گلگت بلتستان کے ان رہنماوں کی غلط فہمیاں دور کر دی جو کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے حقوق میں کشمیری رکاوٹ ہیں انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام نے روز اول سے قربانیاں دی ہیں اور بہت دکھ جھیلے ہیں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق دئے جائیں مزید کہا کہ وزیر اعلی گلگت بلتستان نے مجھے کارگل سکردو بارڈر کے حوالے سے بیاتا ہے کہ ساڈھے چھ ہزار خاندان منقسم ہیں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کارگل بارڈر کھولا جائے ،فاروق حیدر اپنی تقریر میں چند لمحوں کے لئے گلگت بلتستان کے حوالے سے جذباتی بھی ہوئے اور کہنے لگے کہ حافظ حفیظ الرحمن صاحب، کاش میں آپ کو وزیر اعلی کی جگہ وزیر اعظم پکارتا،اسمبلی اجلاس کے بعد وزیر اعلی کے اعزاز میں گارڑ آف آنر پیش کیا گیا اس موقعہ پر اسمبلی کے تمام اراکین بھی موجود تھے ،اس کے بعد ظہرانے کا انتظام کیا گیا جس میں سابق وزیر اعظم چوھدری مجید سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور اسمبلی اراکین نے شرکت کی ،وزیر اعلی کو نئے وزیر اعظم ہاوس کا دورہ کرانے کے ساتھ ساتھ مختلف ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بریف کیا گیا ،اس دوران وزیر اعلی اور ان کے وفد کو تحائف بھی پیش کئے گئے ،وزیر اعلی اور وزیر اعظم نے مشترکہ پریس ٹاک بھی کی جو اخبارات میں رپورٹ ہو چکی ہے ،اس دورے کے دوران عام عوام کو یہ معلوم ہوا کہ گلگت بلتستان کا وفد یوم یکجہتی میں نمائند گی کے لئے آیا ہے تو بہت ہی زیادہ خوشی اور محبت کا اظہار کیا اور جہان سے بھی قافلہ گزرتا عوام محبت بھری نظروں سے ہاتھ ہلا کر استقبال کرتے ،یوں پانچ فروری کی شام آزاد کشمیر حکومت ،اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی زعما اور آزاد کشمیر کے معززین کی بڑی تعداد نے وزیر اعلی اور ان کے وفد کو بھر پور مہمان نوازی اور عزت افرازئی کے بعد تشکر بھرے جذبات کے ساتھ روانہ کیا
،اس دورے کے دوران وزیر اعظم کے پریس سکیر ٹری راجہ محمد وسیم اور دیگر سٹاف کا تعاون اورگلگت بلتستان کے لئے محبت بھرا انداز اور دلی جذبات کو بھی میں زندگی بھر فراموش نہیں کر سکوں گا ۔
،اس دورے کے دوران وزیر اعظم کے پریس سکیر ٹری راجہ محمد وسیم اور دیگر سٹاف کا تعاون اورگلگت بلتستان کے لئے محبت بھرا انداز اور دلی جذبات کو بھی میں زندگی بھر فراموش نہیں کر سکوں گا ۔
،اس دورے کا حاصل کلام یہ ہے کہ فاصلے ہمیشہ غلط فہمیاں اور مشکلیں جنم دیتے ہیں ملاقاتیں فاصلے اور غلط فہمیوں کو مٹا دیتی ہیں ،مجھے تو اس دورے کے دوران ایک لمحے کے لئے بھی احساس نہیں ہوا کہ کشمیری قیادت گلگت بلتستان کے حقوق کے لئے رکاوٹ ہے بلکہ اسمبلی اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں کا صدر پاکستان کی موجود گی میں گلگت بلتستان کے عوام کے لئے محبتوں کا پیغام اور آئینی حقوق دینے کا مطالبہ اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ کشمیری قیادت بھی چاہتی ہے کہ گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر کے برابر حقوق ملیں ۔آزاد کشمیر سے متفقہ طور پر گلگت بلتستان کے عوام کیلئے اسمبلی کے فورم سے اظہار یکجہتی اور محبتوں کا پیغام دیا گیا۔
Attachments area