دیدار حسین قتل کیس: عوامی نمائندوں نے متاثرہ خاندان کے ساتھ اظہار ہمدردی تک نہ کی
غذر (دردانہ شیر ) اشکومن میں درندہ صفت ملزمان کا کلاس ہفتم کے طالب علم کو جنسی تشدد کے بعد قتل کرنے کے واقعہ کو ایک ہفتے ہوگیا، تاحال کسی بھی عوامی نمائندے نے متاثرہ خاندان کے پاس جاکر اظہار ہمدردی کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ عوامی نمائندوں نے چھپ سادہ لی ہے اور مکمل خاموشی ہے۔
ملک کے دو سرے صوبوں کے کسی کونے میں اگر کوئی ایسا دردناک واقعہ پیش ہوتا تو وہاں صوبے کا وزیر اعلی ضرور پہنچ جاتا مگر ہمارے وزیر اعلی کی مصروفیات اتنی زیادہ ہیں کہ انھیں اشکومن جاکر متاثرہ خاندان سے اظہار ہمدردی کرنے کی بھی فرصت نہیں ملی۔ اگر مصروفیات اتنی زیادہ تھی تو کم از کم اپنے کسی وزیرکو ہی بھیج دیتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا معصوم دیدار حسین کی جان تو چلی گئی مگر ان کے خاندان پر کیا گزاری ہے وہ تو ہردرد دل رکھنے والا انسان ہی جان سکتا ہے۔
عوامی نمائندے خاموش رہے مگر اس متاثرہ خاندان کو انصاف دلانیکی اگر کسی نے بات کی ہے تو وہ فورس کمانڈر میجر جنرل احسان محمود خان تھا جو ناصرف ملک کی سر حدوں کی دفاع کرتے ہیں بلکہ جہاں کسی غریب کے ساتھ کوئی ظلم ہو تو اس کی آواز بھی ان تک پہنچ جاتی ہے۔
فورس کمانڈر گلگت بلتستان میجر جنرل احسان محمود خان نے اپنے دورہ غذر کے موقع پر طالب علم دیدار حسین کے والدین کو انصاف دلانے کا یقین دلایا تھااور کہا تھاکہ ہم دیدار حسین کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں اور دیدار حسین کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے ان ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے ہم حکومت گلگت بلتستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ فورس کمانڈر گلگت بلتستان میجر جنرل احسان محمود خان کی ان باتوں کو غذر میں خلتی کے مقام پر موجود ہزاروں لوگوں نے سنا اور شہید دیدار حسین کے والدین تک بھی یہ بات پہنچ گئی۔
یہاں بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عوامی نمائندوں نے تاحال اس غریب خاندان کے پاس جاکر اظہار تعزیت کرنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی۔ یہ سیاسی لیڈر جن کوووٹ دینے کے لئے ہم مختلف سیاسی پارٹیوں کے کارکن بن جاتے ہیں لیکن جب یہ لوگ الیکشن جیت جاتے ہے اس کے بعد ان کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں رہتی۔
دیدار حسین کو جنسی تشدد کرکے جس بے دردی سے قتل کیا گیا یہ غذر کی تاریخ کا ایک المناک واقعہ ہے۔ اس دردناک واقعہ کو ایک ہفتے سے زیادہ عرصہ ہوا ہے اب تک متاثرہ خاندان اپنے سیاسی لیڈروں کےا راہ تک رہا ہے۔ مگر سیاسی لیڈروں کے پاس ٹائم ہی کہاں کہ وہ اظہار ہمدردی کیلئے دیدارحسین کے والد کے پاس جاکر کم از کم اس کو تسلی ہی دے دیتے۔