کالمز

متفقہ بیانیہ اور مذہبی رنگ

تحریر: فہیم اختر

جنوری کے 17تاریخ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات رکنی لارجر بنچ نے گلگت بلتستان کے متعلق اپنا مشہور فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے اور گلگت بلتستان اپنے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کے قراردادوں کی روشنی میں استصواب روئے کے موقع پر بذریعہ ووٹ کرسکے گا ، تب تک گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کردئے جائیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے میں گوکہ نئی بات نہیں تھی مگر افواہوں اور افسانوی داستوں کی سخت الفاظ میں تردید تھی۔ حیلے بہانے بناکر قومی حقوق کا چیمپیئن بننے والوں کے تمام دلائل دریا ئے سندھ میں بہہ گئے تھے ۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ قوم کے سامنے وہ تمام حضرات آکر معافی مانگ لیتے جن کے موقف کی سپریم کورٹ نے تردید کردی تھی ، کہ ماضی میں ایسے موقف نے گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو شش و پنج میں مبتلا کرکے رکھ دیا تھا ،لیکن ایسا کرنے کی بجائے پھر وہی حیلے بہانے اپنائے گئے کہ جی ہم نے مجبوراً یہ فیصلہ تسلیم کرلیا ہے ۔ ہمارا اب بھی مطالبہ وہی ہے ، ہم ریاست کو پریشان کرنا نہیں چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد گلگت بلتستان کے 20لاکھ عوام کویک زباں بناکر کوئی حکمت عملی بنائی جاتی ، ایسی حکمت عملی جس میں تعصب نہ ہو ، جس میں بغض ضد، جذباتیت اور فرقہ واریت کی بو بھی قریب تک نہ آسکے ۔ لیکن نادر لکھنوی کے بقول

نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

کے مصداق یکایک تقسیم ہوگئے۔ اس بار گلگت بلتستان کو متفقہ بیانیہ دینے کا بیڑہ عوامی ایکشن کمیٹی نے اٹھایا تھا جس نے اپوزیشن ممبران اور قوم پرست جماعتوں سے مل کر کمیٹی قائم کرکے 17فروری کو بذریعہ جلسہ متفقہ بیانیہ دینے کا اعلان کرلیا ۔ جلسے کی تاریخ قریب آتے ہی قوم پرست جماعتوں نے بائیکاٹ کا اعلان کردیا جس کی قیادت جی بی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عباس کررہے تھے۔

حقوق کی تلاش میں گمراہ عوام نے ایک مرتبہ پھر اتحاد چوک پر ڈیرے جمالئے ، جلسہ منعقد ہوا ، جلسہ ناکام نہیں تھا لیکن غیر معمولی بھی نہیں تھا،معزز مقررین کو شاید ایجنڈے کا معلوم ہی نہیں تھا اگر سادہ الفاظ میں جلسے کا خلاصہ پیش کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام جلسے میں آئندہ ووٹ دیتے ہوئے ا حتیاط کرنے پر اتفاق کرلیا گیا۔یہ تھا وہ ایجنڈا جس پر سب نے اپنی تقاریر میں ’فوکس ‘ کیا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے گلگت بلتستان کی حیثیت پر بات کرتے ہوئے 90فیصد لوگ جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ انہیں ابھی بھی سمجھ نہیں آرہی ہے اس کی صاف ستھری وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں سیاسی سرگرمیاں محدود رہی ہیں، جدوجہد کی مشق یہاں پر نہیں رہی ہے ۔ ریٹائرڈ اے سی مشتاق احمد نے تمام اہم مقررین سے قبل خطاب کیا اور حوالہ جات کے ساتھ تاریخی حقائق پیش کئے جو قانونی بیانیہ ہے لیکن اس بیانیہ کو ’متفقہ ‘ کا تحفظ حاصل نہیں ہوسکا کیونکہ کسی نے بھی اس پر اتفاق نہیں کیا ۔

گلگت بلتستان کے عوام کا اگر حقیقی بیانیے کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ مراعات کا مطالبہ اور ٹیکس چھوٹ ہے۔ یہ عوام ،جن کی قیادت ’قائدین ‘کے پاس ہے، اب قومی اسمبلی میں نمائندگی سے خوف کھاتی ہے کیونکہ وہ اس نمائندگی کی بنیاد پر لگنے والے ٹیکسز سے ڈرتے ہیں۔ وہ کشمیر طرز کا سیٹ اپ چاہتے ہیں جس میں زیادہ سے زیادہ سبسڈیز دی جارہی ہیں۔ بہرحال صاف ستھرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ جلسہ ناکام بھی نہیں تھا غیر معمولی کامیاب بھی نہیں تھا لیکن متفقہ بیانیہ کا نعرہ ایک ڈھونگ تھا ۔

اشکومن میں طالبعلم دیدار حسین کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کیس میں محکمہ پولیس گلگت بلتستان نے انتہائی متحرک کردار ادا کیا ہے ، تمام نامزد ملزمان کو گرفتار کرکے تفتیش شروع کردی ہے۔ گلگت بلتستان سے باہر بیٹھے لوگوں کو آج کل گلگت بلتستان کے معاملات پر بولنا آسان لگتا ہے کیونکہ یہاں کے زمینی حقائق اور لوگوں کے رویوں سے باخبر نہیں ہیں۔ طالبعلم دیدار حسین کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بلاشبہ درندگی کی بدترین مثال ہے لیکن اس سے قبل ایسا ہی واقعہ گلگت میں بھی پیش آیا تھا ۔ دیدار حسین کے ورثاء کی جانب سے نامزدکردہ اور دوران تفتیش ملوث ہونے کا انکشاف پر تمام ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا لیکن انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس واقعہ کو مذہبی رنگ دینے کی سازش کی گئی ہے ۔بلاشبہ ظالموں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے ، جب انسانیت سے بھی لوگ نیچے گر جائیں تو اس میں مذہبی شلٹر کی تلاش اورشناخت کرنا نادانی کی بات ہے ۔ طالبعلم دیدار حسین کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لئے رابطہ کمیٹی اشکومن نے احتجاجی جلسے کا اعلان کرلیا ، جس کے روح رواں اشکومن سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے رہنماء ظفر محمد شادم خیل تھے جبکہ میر نوازمیر بھی اس معاملے میں انتہائی متحرک تھے، بقول حلقہ ممبر نواز خان ناجی اس جلسے کی بنیاد پر فورس کمانڈر نے نوٹس لیا تب تک حکومت کو خیال ہی نہیں آیا۔جلسے میں اہلسنت والجماعت کے مقامی خطیب نے اپنی رائے دی کہ اس معاملے میں دیت کی بنیاد پر صلح کرائی جائے ، جسے مقررین نے مسترد کرتے ہوئے سزا کا مطالبہ کیا ۔ دونوں طرف کے مقررین کی زاتی رائے تھی، بس معاملے کو مذہبی رنگ دیدیا گیا، یہاں تک کہ اتحاد بین المسلمین کے ایک نام نہاد داعی نے اس واقعہ کو وزیراعلیٰ جی بی سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ حفیظ الرحمن کو احساس ہونا چاہئے کہ وہ اپنے مسلک کا مولوی نہیں بلکہ وزیراعلیٰ ہے۔ دیدار حسین کے قتل کے بعد اگر سب سے زیادہ جس بات پر افسوس اور مذمت کیا جانا چاہئے وہ یہی ہے کہ اس واقعے کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اپوزیشن لیڈر کیپٹن شفیع صاحب نے بھی مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی مذمت کی لیکن معلوم نہیں کس زمرے میں ۔ یہ انتہادرجے کی گھٹیا معاشرتی سوچ ہے جہاں پر بدکاری جیسے بدترین افعال کو بھی مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

قانون ساز اسمبلی کا 35 واں اجلاس کا پہلا روز اپنی نوعیت کے مطابق انوکھا اجلاس تھا۔ جس میں بغیر ایجنڈے کے اسمبلی اجلاس شروع کیا گیا ۔ 22اراکین پر مشتمل حکومتی بنچ سے صرف 7ممبرحاضر تھے، اسمبلی اجلاس دو مہینے کے بعد طلب کرلیا گیا تھا، اسمبلی اجلاس میں بھی دیدار واقعے پر بحث ہوئی ۔ 14 اراکین میں سے صرف غذر کے ممبران اسمبلی تھے جو دیدار حسین کی تعزیت کے لئے لواحقین کے پاس گئے تھے ۔ مذمت کرنے کے لئے سارے کھڑے ضرور تھے مگر نہ کسی کو وہاں جانے کی توفیق ہوئی تھی اور نہ ہی کسی کو اس کیس کے بارے میں معلومات تھیں،صوبائی وزیر قانون اورنگزیب نے کچھ حد تک معلومات فراہم کی لیکن بعد میں کہا کہ میں کل ہی اسلام آباد سے آیا ہوں ایک دن مہلت دی جائے تمام معلومات لیکر آؤں گا۔ اراکین اسمبلی کی معلومات کے لئے پیش خدمت ہے کہ دیدار حسین واقعہ میں 10 ملزمان کی نشاندہی ہوچکی ہے جن میں سے آخری مرکزی ملزم بروز پیر گرفتار کیا جاچکا ہے ۔ان تمام ملزمان پر انسداد دہشتگردی ایکٹ لگایا گیا ہے ، انسداد دہشتگردی عدالت نے 10روزہ جسمانی ریمانڈ دیا ہے ۔ 23فروری کو تمام تفتیش مکمل کرکے دوبارہ پیش کئے جائیں گے۔

آپ کی رائے

comments

فہیم اختر

فہیم اختر پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ گلگت بلتستان کے صدر ہیں اور مقامی اخبارات میں صدائے گلگت کے نام سے کالم لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ پامیر ٹائمز کے مستقل کالم نگار ہیں۔

متعلقہ

Back to top button