ٹیکسیلا عجائب گھر
تحریر: جاوید احمد
تعارف: ٹکسیلا شہر اسلام آباد سے ۳۵ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جو کی تیس سے چالیس منٹ میں بڑے آرام سے کسی بھی پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے۔ جہاں گندھارا تہذیب کے باقیات محفوظ کئے گئے ہیں جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہوئے راولپنڈی صدرسے ۴۰ منٹ کے فاصلے پر ٹکسیلا بائی پاس پر اتر کر خان پور روڈ پر ۵ منٹ کے بعد ٹکسیلا کا مشہور عجائب گھر پہنچا جاسکتا ہے جہا ایک چھت کے نیچے آپ کو بہت کچھ دیکھنے کو ملے گا جو کہ ۶۰۰ سے ۷۰۰ قبل مسیح کے آثارمحفوظ ہیں۔ میوزیم سے ملحقہ دو باغات ہیں جہاں سیاح آرام کرسکتے ہیں اورتصویریں اتار سکتے ہیں ٹکسیلا کو تکساشیلہ بھی کہا جاتا تھا۔ٹکسیلا پوری دنیا میں مشہور ہے یہ بدھ مت کا سنٹر رہاہے جہاں بہت سے ستوپے مختلف کھنڈرات میں دیکھے جاسکتے ہیں، ٹکسیلا کی تاریخ کے مطابق ٹکسیلا میں دنیا کی قدیم ترین عالمی سطح کی یونیورسٹی تھی جس میں مختلف زبانیں، ویدا، فلسفہ، علم طب، سیاسیات، فنون حرب، کامرس ، موسیقی اور ناچ کے علاوہ مختلف حساب کتاب بھی سکھایا جاتا تھا، کہا جاتاہے کہ اس یونیورسٹی میں پڑھنے کے لئے بائبل، یونان، اور چین سے بھی طلباء آتے تھے اور یہ یونیورسٹی گندھارا دور میں تھا۔ ٹکسیلا ایک بہترین شہر اور فن تعمیر کا ایک شاہکار تھا۔ اس شہر کی کھدائی سے مختلف قسم کے زیوارات، سکے، مختلف قسم کے بت، بتوں کے اجسام کے مختلف حصے بھی ملے ہیں جن کو نہایت خوبصورتی سے اس عجائب گھر میں سجایا گیا ہے، مختلف ادوار کو الگ الگ بلاک میں رکھا گیاہے میوزیم میں داخل ہوتے ہی داہنے ہاتھ پر تکسیلا کی سب سے قدیم شہر کی اشیاء جن میں ظروف، سکے، اوزار، ضروریات زندگی سے مطلق ہر قسم کی چیزیں رکھی گئی ہیں اسی طرح ہر دور کی اشیاء اور نوادرات کو الگ الگ رکھے گئے ہین ۔ کہا جاتا ہے کہ قدیم ٹکسیلا تین دفعہ آباد ہوا اور قدرت کی تباہ کاریوں کا شکار ہوا۔یہی وجہ ہے کہ اس کے کھنڈرات کو مختلف جگہوں سے مختلف اوقات میں کھدائی سے دریافت کیے گئے ہیں۔ موجودہ زمانے میں بھی ٹکسیلا مختلف دستکاریوں کے لئے مشہور ہے۔ ٹکسیلا چلے جائیں تو آپ کو سڑک کے اطراف میں مختلف کارگروں کو مختلف دستکاریوں میں مصروٖف پائیں گے اس کے علاوہ ٹکسیلا ایک صنعتی شہر بھی ہے ۔ جس میں پاک آرمی کے ہیوی انڈسٹری ٹکسیلا کے علاوہ، آرڈننس فیکٹری، جس میں اسلحہ اور ٹنک وغیرہ بنائے جاتے ہیں ۔ چھوٹے ہتھیار میں پاکستان خود کفیل ہے، اس کے علاوہ بہت سے سمنٹ بنانے کے کار خانے بھی ہیں ،یہا ں کی کرش باجری پورے ملک میں مشہور ہے، ٹکسیلا انجنیرنگ اینڈ ٹکنالوجی یونیورسٹی کے علاوہ ہیوی انڈسٹری ایجوکیشن سٹی ایک بہترین اضافہ ہے اس کے علاوہ بہت سے اسکول اور کالجیں ہیں، ٹکسیلا کے کھنڈرات کو مختلف ناموں سے جانا جاتاہے، بھر مندو، سرکپ، جندیال، اور پپالا کے ٹمپل، گری کے جنگلات، مہرا مرادو، جولیاں کے خانقاہ، دھرماراجیکا ، مالار، کنانہ سٹوپو ( مدفن گردوں) ۔قدیم شہر کے باقیات بھر مندو کے باقیات ہیں۔ اس میں محل، بدھوں کے پوجا پاٹ، گردوارے، بہت سے چھوٹے چھوٹے مزار، بہت سے رہائشی مکانات کے کھنڈرات دریافت ہوے ہیں۔ایک جگہ دو سرِوں والا عقاب کے مجسمہ والا مندر دلچسپی کا باعث ہے۔ اس کے علاوہ پارتھیان اور کشن بادشاہوں کے زمانے کے سکے بھی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔
حسرت : سناتھا کہ ٹکسیلا میں گندھارا تہذیب کے مدفون اثارا ت اور اس دور کے نوادرات کو محفوظ کیا گیا ہے۔بدھا کے بہت سے نمونے یا سٹوپے ،بت کے اقسام اورکھندرات وہاں کے مختلف ادوار کے مختلف کھنڈرات کھدائی کے بعدمحفوظ کئے گئے ہیں،دل تو بہت چاہتا تھا بلکہایک حسرت تھی کہ جاکر دیکھوں کہ یہ عجائبات عالم میں ہے کیا جو پوری دنیا کو اپنی طرف کچھا کچھا کھینچتی ہے مجھے بھی کھینچتی تھی لیکن سستی ہزار نعمت کے تحت یا وقت کی کمی یا ارادے کی کمی ،کوئی نہ کوئی ایسی رکاوٹ تھی کہ حسرت کے باوجود نہ جاسکا تھا ، لیکن اس سال سردیوں کی چھٹیوں میں میری چھوٹی بہن اور بہنوئی اور میری بڑی صاحبزادی اور ان کے بچے راولپنڈی آئے تھے تو ان کو اسلام آباد کے لوک ورثہ، سائنٹفک میوزیم، شکر پڑیاں، اور سمپوزیم کوصرف دو دنوں میں دکھایا تو سوچا کہ کیوں نہ ان کے بہانے ٹکسیلا کی سیر کی جائے اور اپنے گھر والوں اور پیارے پیارے پوتوں کو بھی لے جایا جائے۔ہم نے صبح کی نماز کے بعد ہی تیاری پکڑنا شروع کیا تب جا کر مشکل سے نو بجے گھر سے نکل سکے پہلے تو ہم نے ایک سوزوکی ڈبہ کرایہ پر حاصل کر نے کے لئے ایک چترالی سے بات کی تھی لیکن عین وقت پر اس نے جواب دیا کہ وہ مر ی میں پھنس گئے ہیں تو پھر ہم نے پبلک ٹرانسپورٹ پر جانے کا ارادہ کیا اور رحمان آباد سے میٹرو بس میں سوار ہو کر صدر گئے اور پھر پیدل ہی آہستہ آہستہ ریلوے سٹیشن کی طرف مارچ کیا سٹاپ پر پہنچتے ہی ایک کوسٹر کا کنڈیکٹر ہماری طرف دوڑ پڑا گویا کہ اس کو ہماری ہی انتظار تھی، سیٹیں کوئی بہتر تو نہ تھیں لیکن وقت کی نزاکت کی وجہ سے اس میں دھنس دُھنس کربیٹھ گئے اور ۴۵ منٹ میں ٹکسیلا بائی پاس پہنچ گئے بس سے اتر کرسڑک پار کیا اور ایک سوزوکی کے ذریعے اگلے دس منٹ میں ہم عجائب گھر کے سامنے تھے ۔اور صرف بیس روپیہ فی کس کے حساب سے داخلے کی ٹکٹ حاصل کیا اورٹکسیلا کے مشہور و معروف عجائب گھر میں داخل ہوگئے، ٹکسیلاکی قدیم تہذیب ، ثقافت ، ظروف ، رسم و رواج اور مختلف اوزار ،کو ان کے ادوار کے لحاظ محفوظ کر کے دکھایا گیا ہے۔ انسان جب تک سانس لیتا ہے تو وہ اکڑ میں ہوتا ہے لیکن جب ایسے جگہوں کو دیکھتا ہے تو پھر اپنی اصلیت اور اکڑ کااحساس ہوتا ہے پتے جڑ کے پتوں کی طرح ہے جو کسی بھی وقت ہوا ایک جونکے سے گر جائیگا۔ سانس اندر گیا اور واپس نہ آیا تو کسی زمانے میں ہمارے باقیات کا بھی یہی حشر ہوگا جو یہاں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ٹکسیلا کے کھنڈرا ت دیکھنے کے قابل ہیں اتنے قدیم دور میں بھی کیسے خوبصورت شہر بسائے گئے تھے اور کیسا تہذیب تھا، یونیورسٹیاں ۔ عبادت گاہیں،سٹوپے،معلوم نہیں کیا کیا دیکھنے کو ملتی ہیں۔
مختصر تاریخ: سر جان مارشل سر براہ آثار قدیمہ کی سر کردگی میں۱۹۱۳ء سے ۱۹۳۴ء تکسیلا ، ٹکسیلا یا تکشہ شلا کی کھدائی کے دوران تین قدیم شہر اور درجن سے زیادہ بدھ مت کی عبادت گاہیں اور خانقاہیں دریافت ہوئی ہیں، سب سے قدیم شہر بھڑمونڈ کے نام سے مشہور ہے، جو کہ عجائب گھر سے جنوب مشرق کی طرف چند فرلانگ کے فاصلے پر و اقع ہے۔ یہ شہر ساتویں صدی قبل مسیح تک آباد رہا۔ ابتدائی طور پر اس شہر کو ہخا منشیوں نے فتح کیا، اور حکومت کرتے رہے یہ وہ جگہ ہے جہاں ۳۲۶ قبل مسیح میں راجہ امبھی والی ٹکسیلا نے سکندرعظم کی نہایت دریا دلی سے خاطر مدارت کی، چار سال بعد چندر گپت موریہ نے یونانی افواج کو دریائے اٹک سے پار نکال کر ٹکسیلا اور پنجاب کے دیگر ریاستوں کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا ۔ ۲۳۲ قبل مسیح میں اشوک کی وفات کے بعد موریہ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیااور ۱۹۰ قبل مسیح کے قریب باختری یونانیوں نے وادی کابل ، پنجاب اور سندھ کے علاقے فتح کر کے ٹکسیلا کو اپنا دارلحکومت بنایا کچھ عرصے بعد باختری یونانیوں نے اس شہر کو چھوڑ کر شمال مشرق میں تمرہ نالہ کے بلمقابل ایک دوسرے شہر کی بنیاد رکھی جسے سرکپ کے نام سے پکارا گیا، جو دوسرے صدی بعد مسیح تک یکے بعد دیگرے باختری یونانیوں کی حکومت کشان بادشاہوں کی زیر اثر رہا، ویم کیڈ فامیشن نے جو کہ سلطنت کشان کا دوسرا بادشاہ تھا سرکپ شہر چھوڑ کر ایک تیسرا شہر شمال مشرق میں دو میل دور لُنڈی نالے کے پار بسایا جسے سر سکھ کا نام دیا گیا۔ یہ شہر شاہان کشان کے زیر اثر پانچویں صدی عسوی تک آباد رہااور بلآخر سفید سہن ۴۵۵ء کے آواخر میں ایک بڑے لاو لشکر کے ساتھ ہندوستان پر حملہ آور ہوے اور دوسرے شہروں کی طرح ٹکسیلا کو بھی تاخت و تاراج کر دیا، اس حملہ کے بعد ٹکسیلا کبھی پنپ نہ سکا۔چینی سیاح ہیون سانگ جب ساتویں صدی عیسوی میں یہاں آیا تو اس نے دیکھا کہ ٹکسیلا سلطنت کشمیر کا ایک صوبہ بن چکا ہے ،اورعبادت گاہیں وغیرہ تباہ و بر باد ہو چکی ہیں ، مندرجہ بالا تین شہروں کے علاوہ مندرجہ ذیل عبادت گاہیں اور خانقاہیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
(۱) دھرماراجیکا سٹوپ: پہلی صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک یہ سٹوپ عجائب گھر کے جنوب مشرق میں تقریباََ دو میل کے فاصلے پر ایک میدان مرتفع پر واقع کے کھدائی کے دران ، پتھر ، چونے کے بت اور قدیم تحریریں بر آمد ہوئی ہیں،
(۲) جندپال مندر:یہ مندر سرکپ شہر کی شمال کی طرف سے اور غالباََ اس کو یونانیوں نے تعمیر کروایایا تھاجو یہاں آنے سے پہلے آتش پرست تھے۔
(۳) موہڑہ مرادو: یہ عبادت گاہ اورخانقاہ دوسرے صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک ، موہڑا مرادو کی عمارات آثارسرسکھ سے تقریباََایک میل کے فاصلے پر جنوب مشرق کو موضع پوہڑہ مرادو کے عقب میں ایک چھوٹے سے درے میں واقع ہے، کھدائی کے دوران بے شمار گوتم بدھ کے مجسمے برآمد ہوے ہیں۔
(۴) آثار جولیاں: دوسری صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک ،جولیاں کی عمارت نسبتاََ زیادہ آراستہ اور بہتر حالت میں ہیں۔ یہ عجائب گھر سے شمال مشرق میں ساڑھے چار میل کے فاصلے پر ایک اونچی پہاڑی پر جس کی بلندی تقریباََ ۴۰۰ فٹ ہے واقع ہیں۔
(۵) آثار خلدوان : پہلی صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک کا یہ دھرماراجیکا اسٹوپ سے شمال کی طرف تقریباََ پونے پانچ میل کے فاصلہ پر واقع ہیں۔ ان کے علاوہ مندرجہ ذیل آثار بھی قابل ذکر ہیں گری پھا مالا، پپیلا یا دل پور، رتہ پنڈ، لال چک، ھاجراں، پھلڑا سٹوپ، کنالا اسٹوپ، خانقاہ فادر موہڑہ اور اخوری وغیرہ، جو زیادہ تر دوسری صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی کے درمیان تعمیر کئے گئے ہیں۔
جین استوپ: قدیم زمانے میں ٹکسیلا جین مت کا ایک اہم مرکز تھا اور اُس مذہب کے عبادت گاہوں کے آثار جا بجا پھیلے ہوےہیںآثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران سرکپ سے جین مت کے کئی مندر ملے ہیں، اس طرح بھڑ مانڈو جو کہ ٹکسیلاکا سب سے قدیم شہرہے کی کھدائی میں جین مت سے مطعلق پوجا پاٹ کی اشیاء دریافت ہوئی ہیں شہر کی شمالی دروازے اور گول مندر کے درمیان جتنی بھی عمارتیں تھیں ان میں سے سب سے بڑی اور پر شکوہ عمارت یہ جین مت اسٹوپ تھا، یہ اسٹوپ ایک کشادہ صحن کے وسط میں تعمیر کیا گیا تھا ا س صحن کے چاروں طرف رہائش کے لئے چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوے تھے، غالباََ اس اسٹوپ کے خدمت گاران ، ان کمروں میں رہتے ہوں گے۔ اس اسٹوپ کے تبر کات ۱۹۱۸ ء کی کھدائی سے پہلے ہی دست برد کا شکار ہو گئے تھے۔ ، البتہ تبر کات کے خانے میں ایک بہت ہی خوبصورت پکھراج کی بنی ہوئی تبرکات کی ڈبیا کے ٹکڑے اور قیمتی پتھر کے چند موتی دستیاب ہوے تھے۔ ڈبیا کے بناوٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا تعلق موریا دور سے تھا اس استوپ سے ملنے والی ڈبیا اور دیگر تبرکات غالباََ کسی قدیم استوپ سے نکال کردبارہ یہاں دفن کئے گئے تھے ، اس دوران یہ ڈبیا ٹوٹ گئی۔ لیکن اس ڈبیا کا تعلق بھی تبرکات سے تھا۔ لہٰذا احتراماََ بھی تبرکات کے ساتھ دفن کئے گئے تھے۔ بدھ مت میں ایسی مثال پہلے بھی موجود ہیں۔ برہمن درونا ، نے مہاتما بدھ کی راکھ کو آٹھ قبائل میں تقسیم کی تو جس برتن میں مالا قبائل نے مہاتما بدھ کی راکھ ڈالی تھی وہ برتن برہمن درونا کو ہدیہ کیا گیا تھا۔ اس استوپ سے مٹی کے بنے ہوے دو منتی تالاب بھی بر آمد ہوے ، اس طرح کے تالاب جین مت کی مذہبی رسوم میں استعمال ہوے ہیں ۔
سرکپ ٹکسیلا : ۱۹۸۰ ء سے عا لمی ورثہ کی فرست میں شامل ہے جسے یونیسکو کے تحت عالمی ثقافتی اور قدرتی ورثہ کے تحفظ سے متعلقہ کنوینشن نے تیا ر کیا، اس فرست میں شامل ہو نا ہی صرف ان آثار کی عالمی ثقافت میں خصوصی اہمیت کی تصدیق ہے بلکہ نوع انسانی کی فائدے کے لئے اپنی مستقل تحفظ کی ضمانت ہے۔ٹکسیلا کا یہ دوسرا قدیم شہر دیو مالائی لوک کہانی راجہ رسالو اور سات رکھشاََ کے کردار کی نسبت سے سر کپ کہلاتا ہے اس شہر کی کھدائی ایچ اے ہر گریو نے ۱۹۱۲ء سے ۱۹۳۰ء تک سر جان مارشل کے تحت او ر ۱۹۴۴ء اور ۱۹۴۵ء میں سر مارٹیمر وہیلر اور دیگر نے کی۔ یہاں پر اوپر تلے تعمیر شدہ یونانی ساکا اور پارتھی ادوار کے آثار ملے ہیں.شہر کی بنیاد دوسری صدی ق م میں باختری یونانیوں کے بادشاہ منیندر نے رکھی ۔ فصیل دار شہر باقائدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر ہوا اور معماروں نے یہاں آئیون اور کورنتھ طرز کے ستون متعارف کئے۔ یونانی طرز معاشرت نے ساکا اور پارتھی اد وار میں مزید فروغ پایا ۔ پارتھی بادشاہ گندوفارس نے نو شہر کی از سر نو تعمیر یونانی منصوبہ بندی کے تحت کروائی، وسطی شاہراہ کے دونوں اطراف میں دکانیں اور عبادت گاہیں تعمیر کیں جن میں گول مندرو سورج دیوتا کا مندر اور دو سروں والے عقاپ کا سٹوپہ شامل ہیں۔ شاہی محل شہر کے مشرقی دروازے کے قریب اور وسطی شاہراہ کے بائیں جانب واقع ہے۔ ۴۰ء میں حضرت عسٰی علیہ السلام کی مواری سنٹ تھامس کا سر کپ (ٹکسیلا) ورود ہوا، جنھیں بادشاہ نے اپنے شاہی محل میں خوش آمدید کہا ۔ ٹیانا کا مشہور زمانہ سیاح اپورینس ۴۴ ء ٹکسیلا آیا اپنے سفر نامے میں کہتا ہے ٹکسیلا نینوا کے شہر کے برابر ہے اور یونانی شہروں کی طرح فصیل دار ہے یہاں کی تنگ گلیاں ایتھنز کی طرح کی ہیں، پارتھ دور میں کئی یونانی طرز اور مقامی نشانیوں کے تحت گندھارا آرٹ نے جنم لیا۔ یہا ں سے ملنے والی تیسر ی صدی ق ۔م کے آرمی کتبے ، سکوں اور دیگر گھریلو اشیاء سے ٹکسیلا کا مغربی دنیا سے قریبی روابط کا پتا چلتا ہے۔ تقریباََ ۶۰ء میں کشان حکمرانوں نے پارتھی حکومت کو نیست و نابود کردیااور ایک بڑی سلطنت کی بنیاد ڈالی جو دریائے گنگا تک پھیلی ہوئی تھی۔ کشان حکمرانوں نے ٹکسیلا کا تیسرا شہر ۸۰ء میں آباد کیا، جو آج کل سر سکھ کے نام سے منسوب ہے۔ اس لئے اس شہر کے آثار تقریباََ ڈیڑھ کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہیں ۔
سر کپ ( ٹکسیلا) کے آثار اپنی تاریخی اور عمارتی اہمیت کے پیش نظر نوادرات کے ایکٹ مجریہ ۱۹۷۵ء کے تحت محفوظ نوادرات قرار دیا گیا ہے اور جو کوئی بھی ان اثار قدیمہ کو تباہ کرے یا توڑے یا نقصان پہنچائے یا تبدیل کرے یا ان پر کسی قسم کی تحریر ثبت کرے وہ مجوزہ ایکٹ کے سکشن ۱۹ کے تحت تین سال قید با مشقت یا دو لاکھ روپیہ جرمانہ یا دونوں سزاوں کا مستحق ہو گا
مند ر آر: اس چھوٹے سے مندر کی دیواروں پربدھ مت اور مہاتمابدھ کی زندگی سے متعلق واقعات کی منظر کشی چونے کی بتوں کی صورت میں کی گئی ہے۔ یہ مندر پہلی صدی عیسوی میں تعمیر ہوا اور مجسمے دوسری صدی کے اوائل میں اس مندر کے دیواروں پر لگائے گئے تھے۔ ان مجسموں کاتعلق گندھارا دور کے ابتدائی دبستان مجسمہ سازی سے ہے اور اس دور سے تعلق رکھنے والے مجسموں کی یہ واحد مثال ہے جو اب تک باقی ہے ان میں سے کچھ مجسمے قدرے بہتر حالت میں ہیں جنوبی سمت بنے ہوے مجسموں میں بودہی ستوا سدھارتھ کی کپل وستو سے روانگی کا منظر دکھایا گیا ہے ، اس منظر میں سدھارتھ کا مستقل ساتھی اور محافظ و جرا پانی بھی دکھایا گیا ہے، شمالی سمت کے مجسموں میں کنتھک گھوڑے کا سدھارتھ کو الوداع کہنے کا منظر دکھایا گیا ہے۔ گھوڑا اگلی ٹانگے دوہری کر کے اپنے مالک کے پاوں چو م رہا ہے جبکہ چندا کا اور وجرا پانی اس کو دیکھ رہے ہیں ، ان مجسموں کے علاوہ کھدائی کے دوران ایک بڑی تعداد میں چونے اور پکی مٹی کے بنے ہوے مجسموں کے سر بھی اسی مندر کے ارد گرد سے ملے ہیں۔
گول مندر : مرکزی استوپ کے مغرب میں واقع گول مندر پرانے وقتوں میں غالباََ سب سے شاندار اور نمایاں عبادت گاہ تھی۔ جہاں پر عقیدت مند نذر و نیاز اور منتیں ماننے کے جوق در جوق آتے ہوں گے۔ اس مندر کی تعمیر کشان دور حکومت کے اوائل یعنی پہلی صدی عیسوی کے آخر میں ہوئی اور اس کی تعمیر ترتیب وار لگے ہوے بڑے بڑے پتھروں سے ہوئی ہے۔یہ مندر وسطی اور مغربی ہند میں پائے جانے والاکرلی و ایجنتا اور الوڑا کے مندروں سے مماثلت رکھتا ہے لیکن اس کی امتیاز اور خصوصیت یہ ہے اس کا اندرونی حصہ ہشت پہلو ہے نہ کہ گول مندر کے گول حصے کے اندر ایک ہشت پہلو استوپ ہے جو کہ کنجور کے پتھروں سے بنایا گیا ہے استوپ کی بنیادوں سے اڈھائی فٹ نیچے ایک فرش ہے جو کہ یقیناََاس مندر سے پہلے وہاں بنایاگیا تھا مندرکے مرکزی حصے میں ایک تنگ سی گذر گاہ کے علاوہ اور کچھ نہیں اور اس گذر گاہ کے دونوں طرف موٹی موٹی دیواریں بنائی گئی ہیںیہ مندر اس لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مندر ہے جو کہ بر صغیر کے اس شمال مغربی علاقے میں دریافت ہوا ، اسکے علاوہ اس کی طرح ایک اور شاندار مندر سر کپ کے شہر میں بھی دریافت ہوا،
دھرماراجیکا : دھر ماراجیکا بھی باقی آثار قدیمہ کی طرح ۱۹۸۰ء میں عالمی ورثہ میں شامل ہوا ہے اور اس کو بھی وہی قانونی حثیت اور اہمیت حاصل ہے جو دوسرے عالمی ورثہ کو حاصل ہیں، دھر مارا جیکا ٹکسیلا میں بدھ مت کی بہت سی نئی اور بڑی خانقاہ ملے۔ جو دریائے دھرما کے کنارے واقع ہے، یہ خانقاہ مہاتما بدھ کی متبرک راکھ پر موریہ خاندان کے مہاراجہ اشوک نے تعمیر کروایا، مہاراجہ اشوک بدھ مت کی بے بہا خدمت کی وجہ سے دھرماراجہ کہلاتاہے۔ اسی وجوہ کی بنا پر اس کانام دھرماراجیکا پڑا۔
یہاں پر جناب غلام قادر نے ۱۹۱۲ء سے ۱۹۱۴ء تک سر جان مرشل کے تحت کھدائی کی، نیز خان صاحب احمد دین صدیقی نے ۱۹۳۴ء سے ۱۹۳۶ء تک کام جاری رکھا، بڑے گول ستوپہ کا قطر ۱۳۱ فٹ اور گنبد کی اونچائی ۴۵ فٹ ہے جو اندرونی طور پر چنائی کیا ہوا ہے ۔ ستوپہ کے گرد عبادتی راستہ پتھر کی سلوں سے مزین ہے۔ ستوپہ کو ۴۰ ء میں زلزلے سے شدید نقصان پہنچا اور کشان دور حکومت میں اسے دو دفعہ تعمیر اور مرمت کیا گیا اور پتھروں کو تراش کر مہاتما بدھ اور اس کی زندگی کے مختلف اوار کے منا ظر ستوپہ کے ارد گرد نصب کئے گئے تھے، ستوپہ کے ارد گرد صحن کے متعدد چھوٹے گول ستوپوں پر پہلی صدی عیسوی کی اور مربع اشکال کی عبادت گاہیں اور مہا تما بدھ کے بڑے بڑے بتوں کے کمروں سے بھرا پڑا ہے۔ منتی ستوپوں سے سونے پتھر اور ہاتھی دانت سے بنی ہوئی تبرکات کی ٹوپیوں کے علاوہ ساکا حکمرانو ں معزز اور عزیز اول کے سکے بھی ملے ہیں ۔عبادت گاہیں چونے کے انسانی اور جانوروں کے مختلف اشکال کے مجسموں سے آراستہ ہیں چند ایک میں سے مٹی کی مہریں ملی ہیں جن پر بدھ مت عقائد در ج تھے۔
عبادت گاہ جی ۔۵ سے چاندی کا گول خروشی میں کندہ پتھر ملا جس سے اس خانقاہ کے خام دھرماراجیکا کی تصدیق ہوتی ہے مستطیل کمرے نما عمارتیں چونے اورمٹی سے بنے ہوے مہا تما بدھ اور بدھ ستوا کے بڑے بڑے بتوں کے لئے تھے ۔ خانقاہ ستوپہ کے شمال اور شمال مغرب میں واقع ہے۔ یہاں کی عمارت سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح بتدریج ترقی او ر رد و بدل کے بعد خاصی گندھارا طرز کی خانقاہ بنی۔
پانچویں صدی کے آخر میں کپدار کشان اپنی عظیم سلطنت سفید سہن کے ہاتھوں کھو بیٹھے جس کی وجہ سے نہ صرف تجارت اور تجارتی راستے اجڑ گئے بلکہ معاشی خوشحالی اختتام پذیر ہوئی اور ساتھ ہی دھر ما راجیکا جیسی بڑی خانقاہ ہیں شاہی سرپر ستی سے محروم ہو گیءں اور اس معاشی بد حالی کی وجہ سے دھرماراجیکا کے رکھوالے اتنی بڑی خانقاہ کو محض لوگوں کے قلیل عطیات کے سہارے نہ چلا سکے اور گندھارا کی دوسری بے شمار خانقاہوں کی طرح دھرماراجیکا کو بھی زمانے کی رحم و کرم پر چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہو گئے ۔
دھرماراجیکا ستوپہ اور اس کی خانقاہ اپنی تاریخی اور عمارتی اہمیت کے پیش نظر نوادرات کے ایکٹ مجریہ ۱۹۷۵ کے تحت محفوظ نوادرات قرار دیا گیا ہے۔ اور اس پر بھی سارے ورثہ قانون اسی طرح نافذالعمل ہو ں گے جس طرح دوسرے عالمی ورثہ پر ہیں،
نوٹ: ( یہ ساری معلومات ٹکسیلا کے کھندرات میں لگے معلوماتی سائن بورڈ، مختلف معلوماتی بروشرز، اور گائڈز کے فراہم کردہ معلومات کی بنا پر لکھے گئے ہیں)