قیادت کا بحران اور ہم سب
تحریر۔اشفاق احمد ایڈووکیٹ
مسئلہ کشمیر کی کوکھ سے جنم لینے والے مسئلہ گلگت بلتستان کے باشندوں کو گزشتہ سات دہائیوں سے بہت سارے مسائل درپیش ہیں ، جن میں سب سے اھم مسئلہ آئینی حیثیت کا تعین نہ ھونا ھے جس کی بنیادی وجہ قیادت کا بحران ھے جس پر آج تک کسی نے توجہ نہیں دیا ، چونکہ سیاسی قیادت کی بحران نے ھی دیگر مسائل کو جنم دیا ھے۔اسلیے اس جدید دور میں سیاسی قیادت کے تصور اور اس کی اھمیت کو سمجھنا ضروری ھے.
جیسے کہ جان سی میکس ویل لیڈرشپ پر اپنی شہرہ آفاق کتاب Five Levels of Leadershipمیں لکھتے ہیں کہ لیڈر آسمان سے نہیں اترتے ہیں، نہ ھی ماں کے پیٹ سے جنم لیتے ہیں،یہ ایک دن ایک ماہ یا ایک سال کا کام نہیں ھے بلکہ ایک اچھا لیڈر بننے کے لیے ایک طویل عرصے تک سیاسی و فکری جدوجھد کرنی پڑی ھے، چونکہ بقول لینن فکری انقلاب کے بغیر سماجی انقلاب ممکن نہیں , اسلیئے ایک اچھا لیڈر حقیقت پسند ھوتا ھے وہ خیالی لوگوں کی طرح اپنے علاقے اور قوم کے مستقبل کا عکس اپنی خواہش اور آرزوؤں کے آئینے میں نہیں دیکھتا ھے بلکہ اسکو پتہ ھوتا ھے کہ مستقبل افراد کی خواہشوں سے نہیں بلکہ حال کے تقاضوں کے بطن سے پیدا ھوتا ھے۔ ایک دن میں کوئی خواب پورا ھوتا ھےنہ ھی ایک دن میں قوموں کی تقدیر بدل جاتی ھے، اس لیے ایک اچھے رھنما کو روزانہ کی بنیاد پر اپنی سیاسی و فکری نشوونما کیلئے محنت کرنی پڑتی ھے، یہی بات لیڈر اور کارکنوں میں تمیز کرتی ھے۔ لیڈرشپ کے لیے لازم ھے کہ وہ نہ صرف اپنے علاقے و ملک کی سیاست کے داؤ پیچ سے آگاہ ھو بلکہ دنیا میں رایج الوقت ملکی و بین الاقوامی قوانین سے بھی آگاہ ھو اور اپنے اردگرد کے ملکوں کی سیاسی حالات کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل سیاست پر بھی گہری نظر رکھتا ہو، کیونکہ بقول اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان کے،۔There is a saying that all politics is localBut increasingly, all local politics has global consequences ,in turn, affect the quality of life everywhere.
چونکہ دنیا اب ایک گلوبل ویلیج بن چکی ھے اسلیےکوئی لیڈر مینڈک کے کنویں کی طرح کنویں میں رہ کر اپنے آپ کو رھنما نہیں کہلوا سکتا ھے، بلکہ دنیا کے بہترین لیڈرز کے تجربات سے سیکھنے کا عمل جاری رکھتا ھے۔کہا جاتا ھے کہ کشتی تو کوئی بھی شخص چلا سکتا ھے لیکن منزل تک صرف ایک لیڈر ھی پہنچاتا ھے۔لیڈر اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ھے اسلیے کسی بھی معاشرے میں موجود سیاسی شعور کے لیول کا اندازہ وہاں کی لیڈر شپ کی قابلیت اور صلاحیت سے لگایا جاسکتا ھے ،جیسا لیڈر ھوتا ھے ویسے ھی لوگ اس کے اردگرد منڈلاتے نظر آتے ہیں،عام طور پر عوام کی ترجمانی و رھنمائی کے دعویدار تو بہت سارے لوگ ھوتے ھیں لیکن درحقیقت ان میں اکثریت ھمیشہ ایسے لوگوں کی ھوتی ھے جن کو خود بھی یہ معلوم نہیں ہوتا ھے کہ لیڈرشپ سے کیا مراد ھے اور عوام کے مسائل کیا ہیں اور ان کا حل کیا ھے ، اس طرح کے نام نہاد لیڈرشپ کا واحد مقصد صرف ذاتی مفادات کا حصول یا پھر الیکشن یا سیلیکشن کے ذریعے اقتدار تک رسائی حاصل کرنا ھوتا ھے۔ ایسے نمائندے یا تو الیکشن ہارنے یا ایک آدھا دفعہ کسی کی مدد سے الیکشن جیتنے کے بعد ھمیشہ کے لئے سیاسی منظر نامے سے اس طرح سے غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ اور چند سالوں بعد ان نام نہاد رہنماؤں کو خور بھی مشکل سے یاد پڑتا ھے کہ وہ بھی کھبی سیاسی تھے ۔ جبکہ عوام کے حقیقی لیڈر کے مقابلے میں بہت سارے لوگوں کو وقتاً فوقتاً میدان میں اتارا جاتا ھے ، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چہرے بدل بدل کر عوام کے سامنے آتے رہتے ہیں،اور قومی وسائل کی بےدرردی کساتھ استحصال کرتے ہیں نتیجتاً چہرے تو بدل جاتے ہیں مگر سماج میں مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوتی ھے، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ قومی وقار بھی مجروح ھوتی ھے۔
عوام کی حقیقی ترجمانی کرتے ھوئے عوام کو منزل تک پہنچانے کیلئے غیر متزلزل عزم و حوصلے کے حامل لیڈرشپ کی ضرورت ھوتی ھے،اور ایکاچھا لیڈر ہی ایک منظم اور مضبوط سیاسی تنظیم کی تعمیر کرتا ھے ، اور کارکنوں کی نظریاتی تربیت کرتا ھے، اس کو پتہ ھوتا ھے کہ عہدے کا مطلب لیڈرشپ نہیں ھوتا ھے چونکہ عہدہ تھوڈی دیر کے لیے مدد ضرور کرتا ھے، لیکن وقت کیساتھ عہدے ختم ھو جاتے ھیں لیکن لیڈرشپ نہیں چونکہ لیڈرشپ ساری زندگی کا کام ھوتا ھے، اور قوم کو درپیش ھر مسئلے کے ممکنہ حل پر غور کرنا ، اورایک ھی چیز کے حل کے لیئے کہی طریقے سے سوچنا، معروضی حالات کو سمجھتے ھوئے اھم قومی مسائلِ کے حل کے لیئے طریقہ کار وضع کرنے اور ممکنہ حل کے جدوجھد کرنا ایک اچھا لیڈر کی پہچان ہوتی ھےاس لیے نہ صرف وہ اپنی قوم کی مزاج اور تاریخ سے واقف ھوتا ھےبلکہ اس کو پتہ ھوتا ھے کہ لیڈرشپ کی خصوصیات میں سے ایک اھم عنصر Courage بھی ھے ، اسکو علم ھوتا ھے کہ کبھی غبار سیاست میں زندگی اور موت جیسی صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور منزل کی تلاش میں قوموں کی زندگی میں اچھے حالات یا پھر طوفان بھی آسکتے ہیں،اسلیے ایک اچھا لیڈر وھی ھوتا ھے جو آنے والے طوفان اور مشکلات کا بھی سامنا کرنے کی صلاحیت و ادراک رکھتا ھو اور اسے اپنے لوگوں پر یقین ھوتا ھے اور بدلے میں لوگ بھی اس پر یقین کرتے ہیں۔ایک اچھا لیڈر مشکل حالات میں درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے، اور اس کو پتہ ھوتا ھے کہ کون اسکا حامی اور ساتھی ھے کون موقع پرست اور مخالف ھے ، کون پیچھے سے اس کے پیٹھ میں خنجر گھونپ سکتا ھے اس لئے کہا جاتا ھے کہ لیڈر اپنے ساتھیوں کے انتخاب میں غلطی کرنے کا متحمل نہیں ھو سکتا ھے۔لیڈر کرپٹ نہیں ھوتا ھے اسں کا کردار صاف ھوتا ھے دشمن بھی اسکی کردار کی تعریف کرتے ھیں۔اس میں عوام کی خدمت کرنے کا جذبہ ھوتا ھے اور وہ جھوٹ بولنے سے پرھیز کرتا ھے اور جھوٹے وعدے نہیں کرتا ھے، چونکہ عوام کو گمراہ کرنے والا اس وقت تک سیاسی میدان میں رھتا ھے جب تک عوام کو جھوٹ فریب اور دھوکہ کا علم نہیں ھوتا ھے ۔ ایک اچھا رھنما روایتی سوچ کا حامل نہیں ھوتا ھے بلکہ جدت پسند ھوتا ھے چونکہ وقت بدلنے کساتھ چیز یں بھی بدلتی ہیں معروضی حالات بھی بدلتے رہتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچ اور خیالات بھی بدل جاتے ہیں،چونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ھے کہ حالات اور تاریخ کا دھارا الٹی سمت اختیار نہیں کرتا بلکہ یہ دھارا ھمیشہ آگے کی طرف بڑھتا ھے۔اسلیے عوامی رھنما بھی وقت اور حالات کے ساتھ مسلسل سیکھتا رھتا ھے اور کسی بھی صورت اپنی قوم کو تقسیم نہیں کرتا ھے نہ ھی جان بوجھ کر اسے تکلیف و آزمائش میں ڈالتا ھے، نہ ہی قوم کے سامنے غلط بیانی کرتا ھے چونکہ اسطرح عوام کا اعتماد ٹوٹ جاتا ھے، اور وہ ایک کے بعد ایک غلط فیصلہ کرے تو عوام اس پر مزید بھروسہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو عوام کے شعوری لیول سے کم شعور رکھنے والے لیڈر کو عوام یکسر مسترد کرتے ھیں، اور ایسے نام نہاد لیڈر بہت جلد تاریخ کے اندھیروں میں گم ہو جاتے ہیں۔
اھم بات یہ ھے کہ اگر ھم اپنے معاشرے میں یونین کونسل سے لیکر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی تک نظر ڈالتے ہیں تو اس تلخ حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں ھے کہ ھمارے پاس لیڈرشپ کا فقدان ھے جبکہ ھمارا قومی سوال مسئلہ کشمیر کی طرح پیچیدہ ھے جسے حل کرنے کیلئے ھمیں نہ صرف اچھے سیاست دانوں کی بلکہ ریاست کاروں کی ضرورت ھے جو اس قوم کی ڈوبتی کشتی کو کسی منزل تک پہنچا سکے۔