سیاسی طور پر یتیم ضلع ہنزہ کے مسائل
غلام الدین [جی ڈی]
کہا جاتا ہے اگر کسی معاشرے کو سیاسی اور معاشی طور پر پسماندہ رکھنا ہو تواُسے حق حکمرانی یا حق نمائندگی سے محروم رکھیں، تاکہ وہا ں کی عوام پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کے عمل سے دور رہے اور عوام ہر سطح پر بے بسی کی تصویر بنی رہے۔ اپریل 2018 میں سپریم اپیلٹ کورٹ نے میرسلیم خان کوبینک سے لیے جانے والے قرضوں کی نادہندگی پر بے بطور رکن گلگت بلتستان اسمبلی نااہل قرار دیتے ہوئے خالی نشست پر 2 ماہ میں انتخاب کرانے کے احکامات جاری کئے تھے۔ تاہم میر سلیم خان نے ڈویژنل بینچ کے فیصلے پر نظرثانی اپیل دائر کررکھی ہے جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی اسی حوالے سے ایک پٹیشن دائر کی ہے جو تاحال سماعت کے لیے مقرر نہ ہوسکی ۔ اس کے علاوہ سابق چیف جج رانا شمیم کی سبکدوشی کے بعد نئے چیف جج کی تعیناتی کاعمل بھی تعطل کا شکار ہے اورنظرثانی اپیلیں بند فائلوں کی نذرہو چکی ہیں، جس کے باعث گلگت بلتستان اسمبلی میں ضلع ہنزہ کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے کوئی رکن موجود ہی نہیں اور نہ ہی قانون سازی، پالیسی سازی اور فیصلہ ساز ی کے عمل میں شراکت داری نظر آرہی ہے۔محل کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے میر غضنفر علی خان نے صدیوں پر محیط اپنی بادشاہت کے خمار کو تازہ کیا اور گورنرکی سیٹ کو بھی گلے لگایا، اہلیہ کو مخصوص نشست دلا دی جبکہ خالی نشست پر اپنے فرزند میر سلیم خان کو جی بی ایل اے 6 پر منتخب کروا کر سیاسی طور پر پسماندہ ضلع کی غریب عوام کے ساتھ کھلاواڈ کیا۔ یاد رہے کہ اس حلقے کی نشست پر ضمنی انتخاب کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرکے الیکشن کو تین مرتبہ موخر کروایا کیا گیا اور پولیٹکل انجینئرنگ کے ذریعے ایک ہی خاندان کو نوازا گیا جو کہ حلقے کے ووٹرز کے لیے باعث تشویش ہی نہیں بلکہ محل کے اندر کی چپقلشیں بھی میر فیملی کی سیاسی ناکامیوں کو آشکار کررہی ہیں۔
راقم نے جب ششپر نالے میں گلیشر کے سرکنے کے عمل کے بعد بجلی اور پانی کے حوالے سے پیدا ہونے والے بحران پر ن لیگ ضلع ہنزہ کے سینئر رہنما جان عالم سے بات کی تو موصوف نے ضلع ہنزہ کا نقشہ کچھ یو ں پیش کیا ،”ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے کسی بھی قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے حسن آباد میں سروے جاری ہے، عارضی طور پر تھرمل جنریٹر کے ذریعے سینٹرل اور لور ہنزہ کو 4 گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے، حسن آباد، مرتضی آباد، حیدر آباد، گنشن، کریم آباد اور التت میں پینےکے صاف پانی کا پہلے سے انتظام موجود ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ بحران سے علی آباد اور ڈورکھن گاوں زیادہ متاثر ہوسکتے ہے، جس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر چھوس نالے سے پانی کا انتظام کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ التر نالے سے ملحقہ واٹرچینلز کی اپ گریڈیشن کے لیے ساڑھے تین کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ رواں مالی سال میں واٹرچینلز کی اپ گریڈیشن کے لیے خرچ ہونگے۔ جان عالم سے جب تھرمل پاور کے ذریعے سینٹرل اور لور ہنزہ کے لیے صرف 4 گھنٹے بجلی کی فراہمی پر یومیہ اور ماہانہ لاگت کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جنوری کے مہینے میں 1 کروڑ 70 لاکھ تیل پر خرچ ہوئے ہیں جبکہ جنریٹرز یومیہ 5 لاکھ کا تیل پھونک رہے ہیں۔ انھوں نے ایک خوشخبری یہ بھی دی کہ بہت جلد عطاآباد جھیل کے پانی سے 4 میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی جس سے ہنزہ میں بجلی کی ضرورت پوری ہوگی۔” اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ن لیگ کی حکومت کم از کم ضلع ہنزہ کی حد تک افسر شاہی پر مکمل طور پر انحصار کر رہی ہے جو کہ ایک سیاسی حکومت کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اُدھر میر سلیم بھی بضد ہیں کہ کہیں سیٹ ان کے ہاتھ سے نکل کر کسی عام سیاسی کارکن کے پاس نہ چلی جائے، اس لیے وہ نظرثانی اپیلوں کے پیچھے چھپ کراپنا ٹائم پاس کررہے ہیں۔
ضلع ہنزہ میں پیپلز پارٹی کے بزرگ سیاستدان وزیر بیگ سیاسی منظر نامے سے غائب ہیں ان کی جگہ پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر اور نوجوان سیاستدان ایڈوکیٹ ظہور آج کل سرگرم نظر آرہے ہیں اور ہنزہ میں جاری ترقیاتی منصوبوں کا کریڈٹ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کو دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میر فیملی کی سیاست محل تک ہی محدود ہے، انھوں نے ہنزہ کی عوام کو محرومیوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا ہے۔ ایڈوکیٹ ظہور 2020 کے انتخابات میں میدان مارنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں اوراقتدار میں آکر مقامی حکومتوں کے ذریعے تمام اختیارات افسرشاہی سے اٹھا کرعوام کو منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں” ۔ کاش کہ پیپلز پارٹی اپنے دور حکومت میں گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات کراتی اور عوام کو بااختیار بناتی تو آج حالات یکسر مختلف ہوتے ۔ سیاسی جماعتوں کی ایک اور بڑی ناکامی یہ بھی ہے کہ وہ گاوں، یونین، تحصیل اور ضلعی سطح پر لوگوں کو سیاسی عمل کا حصہ نہیں بناتے جس کے باعث لوگ سیاست بیزاری کے شکار ہوجاتے ہیں۔
ضلع ہنزہ سے پاکستان تحریک انصاف کے سابق امیدوار عزیز احمد سے حلقے کی سیاسی صورت حال کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ "میرفیملی ہنزہ کی سیاست پر قابض ہے، لیکن فیملی کے اندرونی اختلافات اور چپقلشوں کے باعث آج ہنزہ کی عوام حق حکمرانی سے محروم ہے، بجلی ناپید ہے، پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں، صحت عامہ کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اوربڑھتی ہوئی بے روزگاری کے باعث پڑھا لکھا طبقہ مایوس ہے۔ عزیز جان کہتے ہیں کہ ہنزہ کے عوام کی فلاح و بہبود صوبائی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ ہنزہ کے لوگوں میں سیاست میں عدم دلچسپی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہنزہ تعلیمی اعتبار سے گلگت بلتستان میں سب سے آگے ہے لیکن والدین نوجوان طبقےکی سیاست میں شمولیت کو اچھا نہیں سمجھتے اور وہ سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں بننے والے مقدمات کے خوف سے بھی محتاط رہنا پسند کرتے ہیں۔ عزیز کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف ہی گلگت بلتستان کے مسائل حل کرسکتی ہے، تحریک انصاف اقتدار میں آنے کے 6 ماہ کے اندر منشور پر عمل کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے مقامی حکومتوں کے نظام کو متعارف کرائے گی، جس سے شراکتی جمہوریت کے عمل کو فروغ ملے گا۔ عزیز کہتے ہیں کہ 2015 کے انتخابات سے قبل عمران خان نے گلمت اور علی آباد میں 2 بڑے عوامی جلسوں سے خطاب کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ ہنزہ کے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔” سیاسی جماعتوں کی قیادت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد منشور کو ردی کو ٹوکری کی نذر کرتے ہیں اور آرڈر آف دی ڈے کی غلامی کو اپنی شعار بناتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں شیڈو کابینہ کا تصور نہیں پایا جاتا، اور اقتدار میں آتے ہی گورننس کے حوالے کنفیوژن کا شکار ہوجاتے ہیں، اس کی زندہ مثال ہمارے پاس پاکستان تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت ہے، جو تاحال محکموں کے کام کرنے کے طریقہ کار کو سمجھنے کی کوشش کررہی ہے، جس کے باعث ہر سمت سے پی ٹی آئی کی گورننس پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی ہنزہ کے رہنما اکرام اللہ بیگ جمال زمانہ طالب علمی سے ترقی پسند سیاسی تحریکوں کا حصہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرفیملی کی جانب سے عوام پر عدم اعتماد کا یہ حال ہے کہ سلیم خان کی نااہلی کے بعد خالی ہونے والی سیٹ پر ضمنی انتخاب کے لیے کسی کار کن کو نامزد کرنے کے بجائے نظرثانی اپیل کا سہارا لے کر ہنزہ کے عوام کی حق نمائندگی پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ روز بروز ہنزہ کی عوام کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے، عوام کو افسرشاہی کے رحم وکرم پر چھوڑا گیا ہے، ہر طرف مایوسی اور بے اعتمادی بڑھ رہی ہے، ہنزہ سی پیک کا گیٹ ہے لیکن سی پیک کے ثمرات عوام کو ملتے ہوئے نظر نہیں آتے، سوست ڈرائی پورٹ بڑے پیمانے پر کرپشن اور بندر بانٹ جاری ہے، عوام کے پیسے کس مد میں خرچ ہورہے ہیں کوئی احتساب نہیں؟، ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر، صحت ، تعلیم، روزگار، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نیز گورننس نام کی چیز کہیں نظر نہیں آتی ۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عوامی فلاح ریاست و حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ اکرام اللہ بیگ جمال کہتے ہیں کہ بلتت اور التت فورٹ علاقے کے عوام نے تعمیر کیا ہے اور وہ ان کا اثاثہ ہے، یہ دونوں اثاثے عوام کی ملکیت ہیں اور انہیں عجائب گھر میں تبدیل کرکے فیس کی مد میں حاصل ہونے والی رقم عوامی فلاح پر خرچ ہونی چاہیے۔
راقم نے ہنزہ کی موجودہ صورت حال کے بارے میں غیرجانبدار تبصرہ اور زمینی حقائق کی کھوج لگانے کے لیے سیاسیات کے پروفیسر شیر علی سے ان کی رائے جاننے کوشش کی تو ان کا کہنا تھا کہ ہنزہ میں سیاسی کلچر پروان چڑھانے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی، لوگوں کو ایشوز کے حوالے سے کوئی ادارک نہیں، عوام سیاسی عمل میں براہ راست شریک ہونے سے گھبراتے ہے ، نوجوان بکھرے ہوئے ہیں،مایوسی کے عالم میں پڑھا لکھا طبقہ سوشل میڈیا پر دل کی بڑاس نکالتا دکھائی دیتا ہے۔ ہنزہ کی 3 سیٹوں پر ایک ہی خاندان کی اجارہ داری سے عوام میں محرومی پائی جاتی ہے ، یوتھ کے لیے کوئی پولیٹکل اسپیس موجود نہیں ، جس کے باعث نوجوان طبقہ مایوس ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کا گلگت بلتستان کے حوالے سے کوئی پولیٹکل پروگرام سرے سے موجود نہیں، علاقے کی آئینی و سیاسی حیثیت کے حوالے سے ہرطرف کنفیوژن ہے۔ گورننس اور عوامی فلاح سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ انتخابات سے قبل غیر سیاسی لوگوں کا ایک ہجوم اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے عارضی طور سیاسی خلا پُر کرتا ہے اور دھاندلی کے ذریعے عوامی توقعات کے برعکس ایسے افراد کو اقتدار میں لایا جاتا ہے جن کے پاس علاقے کے مسائل کا کوئی دیرپا حل موجود نہیں ہوتا۔ ایسے میں سیاست میں غیرسیاسی عناصر کا رول سیاسی جمود کا موجب بن جاتا ہے۔ پروفیسر شیرعلی کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں مقامی حکومتوں کا نظام نہ ہونے کے باعث عوام کا بے پناہ نقصان ہورہا ہے۔ علاقے میں عوام کی حکمرانی کے بجائے ہر سطح پر افسرشاہی براجمان ہے۔ ترقیاتی فنڈز افسرشاہی کے پاس ہوتے ہیں، احتساب کا کوئی نظام رائج نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان موسمیاتی تبدیلی کے عمل سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ کسی بھی منصوبے کے آغاز سے قبل سائنسی بنیادوں پر اسٹڈی نہیں کی جاتی، نالوں میں پن بجلی کے ٹربائن لگائے جاتے ہیں، متعلقہ شعبے کے پاس قدرتی آفات کا کوئی سائنٹفک ڈیٹا موجود نہیں ہوتا، منصوبہ ناکام ہونے کی صورت میں متعلقہ افراد سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی بلکہ ایسے افراد کو مزید ترقی دی جاتی ہے۔ ہمیں روایتی طریقوں سے بجلی پیدا کرنے کے بجائے رن آف دی ریور منصوبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس سے صارفین کو مستقل بنیادوں پر ریلیف مل سکتا ہے۔
پروفیسر شیرعلی نے ایک اہم معاملے کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ قراقرم یونیورسٹی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے آج تک کو ریسرچ پیپر شائع نہ کرسکی۔ جب متعلقہ محکموں کے پاس سائنٹفک ڈیٹا نہیں ہوگا تو منصوبے ناکام ہونگے اور خزانے کو نقصان پہنچے گا۔
"پیپلزپارٹی، نواز لیگ اور تحریک انصاف کے رہنماوں کا دعوی ہے کہ اُن کی جماعت ہی ہنزہ کے مسائل حل کرسکتی ہے لیکن ضلع ہنزہ کی موجودہ صورت حال کو دیکھ کر پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی قیادت کو اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے حلقے کے عوام سے معافی مانگنی چاہیے۔ چونکہ تحریک انصاف گلگت بلتستان میں اقتدار میں نہیں اور تنظیمی ڈھانچہ گاوں، یونین، تحصیل اور صوبائی سطح پر موثر نظر نہیں آتا، لہذ اُن سے سوال بنتا نہیں۔
حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے پارٹی کی تنظیمی امور کی نگرانی کے لیے اپنے کزن سیف اللہ نیازی کی ذمہ داری لگائی ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کیا گلگت بلتستان بھی پارٹی کی ترجیحات شامل ہوگا کہ نہیں۔عوامی ورکرز پارٹی گزشتہ ایک عشرے سے ضلع ہنزہ کی سیاست میں کافی حد تک سرگرم ہے اور عوام میں سیاسی شعور پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ نیز پارٹی کا انتظامی ڈھانچہ کم و بیش ہر گاوں میں موجود ہے اور اُن کے کارکن دیگر سیاسی جماعتوں کے بنسبت حلقے کے ایشوز کے حوالے سے زیادہ کلیئر نظر آتے ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی رہنما باباجان اور اُن کے ساتھی عوام کو سیاسی شعور دلانے کی پاداش میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔پارٹی کوئی بھی ہو اگر وہ خطے میں جمہوری عمل کو پروان چڑھانے میں دلچسپی رکھتی ہے تو قائدین کو چاہیے کہ گاوں، یونین، تحصیل اور ضلع کی سطح پر پارٹی کی ممبر سازی یقینی بنائے اور ہر گاوں کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے الیکشن پروگرام مرتب کرے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کی ایک بنیادی ناکامی یہ بھی ہے کہ وہ کارکنوں کو سیاسی تعلیم دینے کے بجائے جذباتی نعروں کا نشہ دیتی ہیں جس کے اثرات عارضی ہوتے ہیں۔ عوام کو بھی چاہیے کہ جوسیاسی جماعت عوام کے حالات زندگی بہتر بنانے کا وعدہ نہیں کرتی، عوام کو بھی اُن سے منہ پھیرنا چاہیے۔
یہ بات غور طلب ہے کہ ہر چھوٹے بڑے مسئلے کا حل سیاست میں پنہاں ہے۔ عوام کی سیاسی عمل میں شمولیت سے جمہوری رویوں کو فروغ ملتا ہے، معاشرے میں برداشت اور رواداری کی فضا پیدا ہونے کے ساتھ عوام میں دوریاں ختم ہوجاتی ہیں، سیاسی عمل میں عدم شراکت سے سیاسی خلا پیدا ہوتا ہے اور انتخابات سے قبل غیر سیاسی اور غیرجمہوری عناصر سیاسی عمل کو ہائی جیک کرتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہنزہ سمیت گلگت بلتستان کی عوام 2020 کے انتخابات میں غیرسیاسی اور غیر جمہوری قوتوں کا سیاست میں راستہ روک لیں، تاکہ عوام براہ راست فیصلہ سازی، پالیسی سازی اور قانون سازی میں حصہ لے سکیں۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان کے طول و عرض پر عوام اور خصوصا یوتھ کو سیاسی عمل میں شریک ہوکر جمہوری روایات کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔