کالمز

دیامر میں سود خور ی عروج پر

تحریر: اسلم چلاسی

موت بر حق ہے خدا کے سامنے جانا ہے اچھے برے ہر فعل کا حساب دینا ہے حقوق العباد کی معافی کسی بھی صورت میں نہیں ہے وعظ نصیحت کرنے والوں نے کبھی بھی کوئی کمی نہیں کی عوامی اجتماعوں میں مسجدوں میں جنازوں پر ہر جگہ اصلاح کی کوشش کی برے کاموں سے روکنے اور اچھائی کی طرف راغب کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر جن کے دلوں پر مہرے لگی ہو وہ کہاں راہ راست پر آتے ہیں ان کو یہ ظاہری دنیاں چمک دہمک اور چار دن کی زندگی کا فکر لاحق ہے

کسی بھی طرح سے زر حاصل کرنا ان کا مقصد ہے چاہیے اس میں کسی بھی حد تک جانا ہو یہاں ظلم کا بھی کوئی حد مقرر نہیں ہے جہاں تک ہوسکیں ظلم و بربریت کے بازار کو گرم رکھنا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں سرکار قانون تحفظ نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں سودی کاروبار کو لین دین کا نام دیکر حکومت کے کھاتے سے باہر کیا جاتا ہے اور ساتھ میں باروبار نمٹنے کی تلقین کر کے آئندہ سرکار کی قیمتی وقت ضائع نہ کرنے کی یقین دہانی اور تاکید کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے حالانکہ اس سودخوری پر باقاعدہ قانون بنا ہے سزا و جزا کا حد مقرر ہے قانون کے رو سے انتہائی قابل گرفت عمل ہے مگر بد قسمتی سے یہ قانون محض چند سطور کی حد تک محدود ہے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں جب سے یہ قانون باقاعدہ طو پر اسمبلی سے اکثیریت رائے کے ساتھ منظور ہوکر قابل عمل قرار دیا گیاہے تب سے اب تک دیامر میں کوئی ایک کیس بھی رکارڈ کا حصہ نہیں بنا۔

یہی وجہ ہے کہ دیامر سودخوروں کیلے جنت بنا ہوا ہے بغیر کسی رکاوٹ کے آزادانہ طور پر بھرے بازار سرے عام سودی لعنت جاری ہیں ان ظالم انسان نما سودخور درندو ں نے خاندانوں کے خاندان اجاڑ دیے اچھے خاصے سرمایہ والے لوگ فٹ پاتھ پر آگئے زمینیں کھینچ لی مال مویشیاں چھین لی کچھ لوگ تو اس ظلم و جبر سے تنگ آکر علاقہ بدر ہوگئے جو بچ گئے ان سے سب کچھ ہتھیانے کے بعد کسی کے پاس دینے کیلے کچھ نہیں بچا تو ان کو دوسروں کے ہاتھوں لاکھوں روپے میں فروخت کر کے زندگی بھر کیلے دہقان یا چرواہا بنا دیا بے شمار بالائی علاقوں کے ایک گھر کے کئی افراد مقامی وڈیروں کے ہاتھوں فروخت ہوکر بکریاں چراتے ہیں ۔گویا کہ اس سودی دہندے میں پیسہ اور املاک کے لین دین کے علاوہ انسانوں کی خرید و فروخت بھی ہوتا ہے ۔ اور عموما ان سود خورں کے حدف غریب اور عام طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں ان لوگوں سے ایک سود خور اپنی رقم حاصل کر کے دوسرے سود خور کے حوالے کرتا ہے دوسرا تیسرے کو موقع دیتا ہے اس طرح بے بس لوگ ایک کے بعد ایک کے ہاں خرید و فروخت ہوتے رہتے ہیں ۔سود کا یہ منافع بخش کاروبار کسی ایک مخصوص شے پر نہیں بلکہ تمام روز مرہ کے اشیا پر کیا جاتا ہے مثلہ دس ہزار قرض حسنہ کے نام پر دیکر مختلف حلہ بہانوں سے دو لاکھ اصول کیا یا پانچ لاکھ کی گاڑی پندرہ لاکھ میں چھے مہنے بعد ادائے گی پر فروخت کی مقررہ وقت پر اداے گی نہ کرنے کی صورت میں اگلے دو مہینوں کا وقت دیکر رقم دگنی کردی یعنی پانچ لاکھ مالیت کی گاڑی کا تیس لاکھ اصول کردیا۔

یا پانچ ٹریکٹر لکڑی اگلے سال سردیوں کے آغاز میں دینے کیلے فی ٹریکٹر دس ہزار کے حساب سے جس میں ایک ٹریکٹر لکڑی کا وزن کم ازکم ایک سو من ہوتاہے یعنی پانچ سو من کا پچاس ہزار کے حساب سے ادائے گی چار سے چھے مہینے قبل ہوتی ہے اگر خدانخواستہ موسم کی خرابی کی صورت میں یا علاقائی سطح پر لکڑی کی ترسیل پر پابندی ہو یا کسی اور وجہ سے لکڑی نہ دینے کی صورت میں پہنچ ریٹ یعنی فی ٹرک ایک لاکھ کے حساب سے کل پانچ لاکھ رقم کی ادائے گی کی جاتی ہے یوں پچاس ہزار میں پانچ لاکھ کا ٹیکہ لگتا ہے۔

اس طرح جلغوزوں کے آغاز سے تین مہینے قبل تمام سودخور متحرک ہو جاتے ہیں اور متفقہ طور پر فی کلو ایک سو سے دو سو روپے تک ریٹ مقرر کرکے غریب لوگوں میں ایک بڑی رقم تقسیم کرتے ہیں اور جلغوزہ کے تیاری کے ساتھ گھر گھر جا کر اصولی کیا جاتا ہے صرف دو یا تین مہینوں کے وقفہ میں ایک سے دو سو روپے میں اٹھارا سو سے دو ہزار روپے پر کلو کے پیچھے سود کی مد میں حاصل کرتے ہیں اور یہاں بھی وہی طریقہ ہے کہ پیداوار کی کمی یا دوسری صورت میں مارکیٹ ریٹ کی ادائے گی ہوتی ہے۔ گاؤں دہاتوں میں اخروٹ لوبیہ گھی اور دیگر اشیاء بھی تین سے چھے مہینے قبل رقم دیکر معمولی قیمت پر حاصل کیا جاتا ہے

ایسی طرح مال مویشیوں گھاس پھوس تک سود کے زریعے حاصل کیا جاتا ہے بھیڑ بکریاں بھی سود سے محفوظ نہیں ہیں سردیوں کے موسم میں سودی رقم لیکر گھومتے ہیں اور معمولی رقم کی ادائے گی کر کے گرمیوں میں بھیڑ بکریاں اٹھالیتے ہیں۔ڈیم کے پیسوں سے قبل مقامی سود خور وں نے ڈیم کی ضدمیں آنے والے زمین کو فی کنال ایک سے چار لاکھ تک میں متاثرین سے اٹھایا اور آٹھ سے پندرا لاکھ فی کنال کے حساب سے سرکار سے حاصل کی سیکڑوں غریب خاندانوں کے لوگوں سے ڈیم کا پورا پورا معاوضہ سود کی شکل پر اٹھایا گیا اور آج وہ لوگ در در کی ٹھوکر ے کھانے پر مجبور ہیں زمین جائداد ڈیم کی ضد میں آکر چلے گئے اور پیسہ سود خوروں نے اٹھایا بعض غریب لوگوں کے نام پر چک تو بن گیا مگر چک حاصل کر کے کلکٹر آفس کے دروازے تک پہنچتے ہی سود خوروں نے پورا چک چھین لیا اور بعض لوگوں کو تو چکس ملنے سے تین دن قبل سودخوروں نے ان کے گھروں سے اٹھایا اور اپنے تحویل میں رکھ کر معاوضہ وصول کرایا اور پوری رقم چھیننے کے بعد خالی ہاتھ گھر بھیجدیا۔بے شمار ایسے لوگ ہیں جو زمین جائداد کی رقم لٹانے کے بعد بھی سود کے دھلدل سے باہر نہیں آسکے ہیں اور اب غضب پر غضب دیکھیں معاضوں کا رقم چھیننے کے بعد بھی ان سود خوروں کو چین نہیں آیا سیکڑوں غریب متاثرین کا چولہا بھی اٹھا یا جا چکا ہے یعنی متاثرین کے نام پر ملنے والی سرکاری مراعات بھی چند ہزار یا ایک سے چار لاکھ میں اٹھایا جا چکا ہے اب اگر کہیں پر متاثرین ڈیم کی صورت میں کوئی پلاٹ ملے گا تو وہ بھی متاثرہ شخص کو نصیب نہیں ہوگا اس کی ملکیت بھی کسی سود خور کی ہوگی۔اس سودی کاروبار میں کوئی مخصوص گروہ علاقہ یا قبیلہ ملوث نہیں بلکہ ابادی کا نصف سے زیادہ حصہ برائے راست یا بلواسطہ ملوث ہے سرکاری ملازمین تک اس لعنت میں شامل ہیں حکومت وقت کو اس حوالے سے قانون سازی سے آگے بڑہ کر عملدر امد بھی کرانا چاہیے کیونکہ محض حکمرانی کرنا رعب دیکھانا اور آفیسری جمانے کا نام حکومت نہیں ہے بلکہ کمزور طبقات کو تحفظ فراہم کر کے سر کش اور ظالموں کونشان عبرت بنانے کو حکومت کہتے ہیں امید ہے کہ دیامر میں جاری سودی لعنت کو ختم کرکے غریب اور بے بس لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button