بھاشا ڈیم اور معذور افراد
تحریر۔۔۔۔ضیا ٕاللہ گلگتی
معزور آفراد انسانی معاشرے کا وہ حصہ ہیں جو عام آفراد کی نسبت زیادہ توجہ کے مستحق ہیں۔کوٸی مہذب معاشرہ معزروں کو نظرانداز کرنے یا انہیں معاشرے میں قابل احترام مقام سے محروم رکھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتاہے۔اسلام تکریم انسانیت کا علمبردار دین ہے۔چونکہ معزور افراد معاشرے میں اپنی شناخت اور وقار کےلیے توجہ کے مستحق ہوتےہیں،اس لیے اسلام نے اس بارے میں خصوصی تعلیمات عطا کی ہیں۔یہاں یہ امر واضع رہےکہ وہ تمام حقوق جو عام افراد کو معاشرے میں میسر ہیں معزور افراد بھی وہ سارے حقوق میں برابر مستحق ہیں.اور جن معاشروں میں معزورں کے ساتھ انسانی ہمدردی حکومتی سرپرستی ہوتی ہیں تو وہ ملک وقوم کے نام بھی روشن کرتےہیں،ایسی ہی ایک معزور کی کہانی پیش کرتاہوں۔
اسفین ہاکنگ عہد حاضر کے ایک مایہ ناز ساٸنسدان ہیں،وہ 8جنوری 1942 کو انگلینڈ میں پیدا ہوٸے۔انہیں آٸن اسٹاٸن کے بعد گزشتہ صدی کا دوسرا بڑا ساٸنسدان قرار دیا جاتاہے۔اسٹفین ہاکنگ کو اپنی عمر کے انتداٸی سالوں میں ہی ساٸنس اور آسمان میں خاصی دلچسپی تھی۔سال 1962 میں جب وہ کیمبرج یونیورسٹی میں علم کاٸنات پڑھ رہےتھے، تب ان پر انکشاف ہوا کہ وہ ”موٹر نیوران ڈزیز“ جیسے ناقابل علاج مرض کا شکار ہوچکے ہیں،جو دھیرے دھیرے اُن کے اعصابی نظام کو مکمل طور پر مفلوج کردےگا۔مفلوج زندگی کا سفر انتہاٸی تکلیف دہ ہوتاہے لکین اگر ارادے امید اور حوصلے سے لبریز ہوں،اور انسان کے اپنے اندر ایک عزم ہوتو ناممکنات سے ممکنات کے صحرا کو عبور کرنا بالکل بھی دشوار نہیں۔اسٹفین ہاکنگ کی بیماری نے آہستہ آہستہ اُن کی ٹانگیں،بازو،ہاتھوں اور پھر زبان کو مفلوج کردیا۔خوش قسمتی سے اسٹفین ہاکنگ ایک ایسے معاشرے میں رہتےہیں جہاں معزروں کو کسی گناہ کی سزا نہیں سمجھا جاتا، وہاں معزور آفراد کو لاچار اور متحاج سمجھ کر گھروں میں قید نہیں رکھا جاتاہے اور نہ ہی ثواب کمانے کی خاطر انہیں صرف زکواة اور صدقات کا مستحق سمجھا جاتاہے۔اسفین ہاکنگ کا تعلق ایک ایسے معاشرے سے تھا جہاں جہاں معزور افراد کی زہنی صلاحیتوں سے فاٸدہ اٹھایا جاتاہے اور ان کی معاشرے میں بھرپور شراکت کو قاٸم رکھنے کےلیے خاصی تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔وہاں معاشرے معزور افراد کو بھی اپنی ہی طرح خدا کے مخلوق سمجھتے ہوٸے اپنے رویوں میں تبدیلی لےآتےہیں۔ہمارے سامنے اس ایک بڑی مثال اسٹفین ہاکنگ ہیں۔انہوں نے شدید ترین معزوری کا شکار ہونے کے باوجود اپنی زندگی میں حیرت انگیز سنگ میل عبور کرنے میں کامیاب ہوٸے۔لکین ہمارے ہاں حقوق مانگنے پہ گولیاں چلاتے یا زندگی بھر کےلیے معزور کردیتےہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دیامر کا خطہ قدرتی وساٸل سےمالامال ہے۔دفاعی حوالے سے حساس،جغرافیاٸی اعتبار سے انتہاٸی اہم اور سیاحتی حوالے سے نہایت خوب صورت ،دلچسپ،دلربا اور جاذب النظر ہے229 مربع میل پر محیط یہ علاقہ 1947 ٕ تک ڈوگرہ راج کے زیر تسلط تھا۔پاکستان کے آزادی کے بعد یکم نومبر 1947 کو دیامر کےغیور مسلمانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یہاں کے ڈوگرہ راج کو نکال دیا اور بغیر کسی شراط کہ پاکستان کے الحاق کردیا۔یہ اس بات کی واضع ثبوت ہےکہ دیامر کے لوگ باسیان پاکستان سے زیادہ پاکستان سے محبت کرتےہیں۔اگر اس جزبے وہ محبت میں صداقت نہ ہوتی تو کھبی بھی اس طرح الحاق نہ کرتے،مگر اے دیامر کے باسیو کاش۔۔۔۔۔۔!بدلے اور صلے میں مملکت خداداد کے ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے اہل علاقہ کو اپنا سمجھ کر گلے سے لگاکر ان کے تحفظات اور خدشات دور کرنے کےبجاٸے ان پر اندھا دھند گولیاں چلاکر دو باسیوں کو ابدی نیند سلادیا اور ایک کو(مولانا جہان شیر) زندگی بھر کےلیے معزور کردیا،اور درجنوں کے حساب سے زخمی ہوگٸ تھے۔
19 فروری وہ بدقسمت دن تھا۔اس دن پاکستان کے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پہ یہ خبر چل رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!گلگت بلتستان کے علاقے چلاس میں بروز جمعرات 19 فروری 2010 کے روز دیامر بھاشا ڈیم کے ممکنہ متاثرین کے مظاہرے پر پولیس کی مبینہ فائرنگ کے نتیجے میں دو مظاہرین ہلاک جبکہ چار زخمی ہوگئے ہیں۔دیامر بھاشا ڈیم کے ممکنہ متاثرین کے رہنما عطااللہ کا کہنا ہے کہ وہ پانی و بجلی کے ادارے واپڈا کے ہاسٹل کے سامنے اپنے مطالبات کے حق میں پر امن احتجاج کر رہے تھے کہ پولیس نے ان پر فائرنگ کی۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے کہا کہ دو مظاہرین موقع پر ہی ہلاک جبکہ چار زخمی ہوگئے۔لیکن گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ مہدی شاہ کے تعلقات عامہ کے افسر صفدر علی کہنا ہے کہ پولیس نے مشتعل مظاہرین کو منشتر کرنے کے لئے پہلے آنسوں گیس پھینکی اور مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور بعد میں پولیس نے مظاہرین کی پھتراو کے جواب میں گولیاں چلائیں۔انہوں نے کہا کہ یک طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں دو مظاہرین ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے۔تاہم اس واقعہ میں پولیس یا فرنٹیر کانسٹیبلری کے کسی اہلکار کے زخمی یا ہلاک ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔پاکستان کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے جمعرات کی شام کو قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ مظاہرین پر مبینہ فائرنگ کی عدالتی تحقیقات جاری ہے اور اس کی رپورٹ آنے کے بعد ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔انھوں نے فائرنگ کے نتیجے میں مرنے والوں کے لواخقین کو پانچ پانچ لاکھ جبکہ زخمیوں کو ایک ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔دیامر بھاشا ڈیم کے ممکنہ متاثرین کے کئی مطالبات میں سے ایک بڑا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان کے پانی و بجلی کے ادارے واپڈا ، گلگت بلتستان کی حکومت اور ان کے درمیان جو معاوضے کی رقم طے ہوئی تھی اس کے مطابق ان کو ادائیگی کی جائے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو پھر اس پابندی کو ختم کیا جائے جس کے تحت مقامی لوگوں کو چار برسوں سے تعمیرات کرنے سے روکا گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے مقامی لوگوں کی معاشی اور سماجی زندگی متاثر ہورہی ہے۔پاکستان کے وزیر برائے امور کشمیر و شمالی علاقہ جات میاں منظور احمد وٹو نے جمعرات کے روز قومی اسمبلی کو بتایا کہ معاوضے کی رقم کا حجم ابھی طے نہیں کیا گیا اور جونہی اس کا تعین کیا جائے گا متاثرین کو معاوضے کی رقم کی ادائیگی شروع کر دی جائے گی۔انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے نتیجے مییں امکانی طور پر متاثر ہونے والے افراد کی رائے کو بھی مد نظر رکھا جائے گا۔اس سے پہلے متحدہ قومی موومنٹ کے رکن پارلیمنٹ عباس حیدر رضوی نے مظاہرین پر مبینہ پولیس فائرنگ کے واقعہ کو ایوان میں اٹھایا اور مطالبہ کیا کہ اس کی تحقیقات کے لئے کمیٹی تشکیل دی جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ جمہوری حکومت کے دور میں پر امن مظاہرین پر فائرنگ کے واقعات افسوسناک ہیں۔مسلم لیگ کی رکن پارلیمنٹ ماروی میمن نے کہا کہ پرامن مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ قابل تشویش اور قابل مذمت ہے۔
اب آتے جس جگہ ڈیم بن رہی ہے اس کی مختصر ساتعارف کرتےہیں۔دیامر بھاشا ڈیم کےلیے جس جگہ کا انتخاب کیاگیا ہے۔وہ ضلع دیامر کا ہیڈکوارٹر چلاس سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ”تھور گاوں“ میں واقع ہے۔دریا سندہ کے باٸیں طرف داریل و تانگیر جو کہ سب ڈویژن چلاس علاقہ ہے اور داٸیں طرف شاہراہ قراقرم بھاشا نالہ تک چلاس کا علاقہ ہے۔پاکستان کے چلاس میں دریاٸے سندہ کے مقام پر بنایا جانے والا یہ ڈیم چلاس ٹاون بہاو کا رخ 40 کلومیٹر صوبہ خیبر پختون خواہ اور گلگت بلتستان کی سرحد پر تعمیر کیاجاٸےگا۔ذخیرے کے 98 فیصد حصہ گلگت بلتستان میں واقع ہوگا جبکہ پاور ہاوس صوبہ خیبر پختون خواہ میں واقع ہونگے۔ 12.6 بلین امریکی ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والا یہ ہاٸیڈرو پاور منصوبہ 4500 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔اس ڈیم کی لمباٸی 3500 فٹ،اونچاٸی 660 فٹ اور سطح سمندر سے اس کی بلندی 3500 فٹ ہوگی اور 6.4 ملین ایکڑ فٹ پانی زخیرہ کیا جاسکے گا۔ڈیم کی دیوار کی انچاٸی 270 میٹر ہوگی،دریاٸے سندہ کے پانی کے سال بھر کا بہاو 15 فیصد اس میں زخیرہ ہوگا۔ دنیا میں سب سے زیادہ بلندی پر بناٸے جانے والے اس ڈیم کی عمر 100 سال ہوگی اور اس ڈیم کی تعمیر 2030 تک مکمل کرلی جاٸیگی۔۔ڈیم کے منصوبے میں دو موڑ یا سرنگیں اور منصوبے کے مقام پر پانی کے بہاو کا رخ دو حاٸطہ بند بناٸے جاٸگے۔منصوبے میں دو پاور ہاوس ہونگے جسمیں 375 میگاواٹ صلاحیت کے 12 یونٹ ہونگے اور دو پاور ہاوس سے سالانہ اوسطاً Gwh 1800 کی پیداوار کا تخمینہ لگایاگیاہے۔اور یہ سارا ذخیرہ بالعموم گلگت بلتستان بالخصوص ضلع دیامر میں واقع ہوگا۔حکومت وقت کو چاہیے کہ معزورں کے تحفظات اور خدشات کو دور کر کے ان کے جاٸز حقوق دینا زمہ داری ہے۔معذور افراد معاشرے کے Disable افراد نہیں ہوتے بلکہ انہیں ہمارے رویے Disable کردیتے ہیں۔معذور افراد کی دیکھ بھال ،تعلیم وتربیت،بہتر نگہدشت ہم سب کی اجتماعی زمہ داری ہے۔جس کےلیے بحثیت قوم ہمیں اپناکردار ادا کرنا ہوگا۔فلاحی ریاست میں حاکم وقت پر معذروں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنانا بھی ایک فلاحی ریاست کا اہم ترین فریضہ شمار ہوتاہے۔مگر بدقسمتی سے ایک تو ہمارے ملک میں معذور افرادکے حقوق کی پاسداری کے حوالے سے کوٸی قانون موجودنہیں ہے،اور دوسرا اگر کوٸی قانون موجود ہے تو بھی اس پر کسی طور عمل درآمد نہیں ہورہا۔اسلام معزور آفراد کو معاشر کا قابل احترام اور باوقار حصہ بنانے کی تلقین کرتاہے۔اسلام اس امر کی تعلیم دیتاہے کہ معزور أفراد کو خصوصی توجہ دی جاٸے اور انہیں یہ احساس قطعاً نہ ہونے دیاجاٸے کہ انہیں زندگی کے کسی بھی شعبے میں نظر انداز کیا جارہاہے۔معاشرتی اور قومی زندگی میں ان پر کسی بھی ایسی زمہ داری کا بوجھ نہ ڈالا جاٸےجو ان کےلیے قابل برداشت ہو۔اسلام کے عطاکردہ حقوق کی عطاٸے گی میں معذروں کو ترجیحی مقام دیا جاٸے تاکہ معاشرے میں ان کے استحصال یا محرومی کی ہر راہ محدود ہوجاٸے۔