تخم ریزی یاسین میں منائی جانے والی اپنے نوعیت کا ایک اسیا منفرد قدیم ثقافتی میلہ ہے ۔جوکہ گزشتہ نو سوسالوں سے اج بھی اپنے قدیم رویایت کے ساتھ بلا تعطل کے جاری ہے ۔ہرسال مارچ کے پہلے ہفتے میں شروغ ہونے والے اس منفرد ثقافتی میلے میں 25سے 30ہزار لوگ شرک ہوتے ہیں ۔یاسین میں منائی جانے والی اس منفرد ثقافتی میلے کا آغاز ہر سال سات مارچ کے دن دو بجے دیسی بینڈکے علاقائی دھن سے ہوتا ہے ۔ امسال موسمی خرابی کے باعث گزشتہ روز19مارچ سے شروغ ہوکر 20 مارچ کے شام کو اختتام ہوا۔میلے میں ہرسال اعلیٰ سرکاری عہداروں کے علاوگلگت بلتستان بھر سے لوک شرکت کرتے ہیں ۔الغرض جشن تخم ریزی یاسین جشن شندور کے بعد پہلا بڑا عوامی جشن ہے جس کو سینکڑوں سالوں سے منایاجاتا ہے ۔جشن کے پہلے دن مہمانوں کی خاطرتواضع چائے اور علاقائی روایاتیے کھانوں سے کی جاتی ہے۔لوک صبح سے جشن تخم ریزی کے منتظم راجہ جہانذیب کے رہائش گاہ پر جمع ہوتے ہیں اور دن دوبجے تک دیسی بینڈکے دھنوں پرعلاقائی رقص پیش کرتے ہیں اور دن ٹھک چار بجے میلے کے شرکاء راجہ جہانذیب کے رہائش گاہ سے یاسین میں موجودایک ہزار سال پرانا قدیم دیسی گھرجسے مقامی زبان میں (تخت کے گھر)کہتے کے جانب روانہ ہوتے ہیں چند مہمان گھوڑے پرسوارہوتے ہیں اور باقی پیدل روانہ ہوتے ہیں ۔ہجوم کے آگے دیسی بینڈ کی ٹیم تخم ریزی کے مخصوص دھن بجاتے ہے ۔
راجہ کے گھر سے( تخت کے گھر)تک راستے میں خواتین ،بچے اور بوڑھے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے علاقائی رسم کے مطابق( اشپری )لیکرکھڑے ہوجاتے ہیں ۔مہمان( اشپری )سے چند لقمے کھاتے ہے اور (اشپری )کے تھالی میں پیسے ڈالتے ہیں ۔اس طر ح ہزاروں لوگوں کا یہ قافلہ تخت کے گھر پہنچتا ہے ۔(تخت کے گھر)کے مالک مقامی رسم کے مطابق (پھتک )کے زریعے خوش آمدید کہتا ہے ۔تخت کے گھر جوکہ ایک ہزار سال سے بھی پرانا ہے جس میں پانچ سولوگوں کے لیے بیٹھنے کی گنجائش ہے ۔جب سارے لوک اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ جاتے ہیں تو راجہ صاحب( تخت کے گھر )کے مالک کو رسم کے مطابق (زار چپن)(دیسی چوغہ) پہناتاہے ۔اور نئے پگڑی اس کے سر پراپنے ہاتھوں سے باندھ لیتا ہے ۔تخت کے گھرکے مالک راجہ صاحب کا شکریہ ادا کرنے کے بعد مہمانوں کے سامنے( اشپری )کا تھال پیش کرتاہے اس کے ساتھ ہی گھر کے مالک کے لیے مخصوص دھن بجایا جاتاہے ۔
سفیدکبڑئے زری چوغہ اور سر پر خوبصورت پگڑی پہنے اپنے مخصوص دھن میں رقص شروغ کرتاہے تو لوگوں کا جوش وخورش دیکھنے کے لائق ہوتا ہے ۔گھر میں چند ایک خاص مہمانوں کے رقص کے بعد (ہیماس ) کی رسم ادا کیا جاتا ہے ۔(ہیماس) ایک قدیم رسم ہے گھرکے عین سنیٹرمیں آگ جلانے کی جگہ موجود ہے ۔جس میں خشک لکڑی اور رسم( ہیماس) کے لیے جنگل سے لائے ہوے مخصوص درخت کی شاخیں رکھ آگ جلایا جاتا ہے۔گھرکے مالک ایک تھال میں آٹالیکرآگ کے بلند ہوتے شعلوں میں مخصوص قدیم شعرپڑھتے ہوئے پھینگتا ہے ۔گھرکے سامنے کے (نیری ٹون )یعنی گھرکے پانچویں ستون تک پہنچ جاتاہے۔یہ عمل تین مرتبہ دھرنے کے تمام لوگ گھرکے باہرگھیت میں جمع ہوجاتے ہیں ۔گھیت میں آگ کا ایک بڑا الاوء روشن کیا جاتاہے۔اس دوران راجہ صاحب اپنے دامن میں گندم کے بیج ڈال کرعوام کی طرٖف پھیکتاہے۔جسے تمام لوگ اپنے دامن جمع کرتے ہیں ۔جس کے دامن میں جتنے بھی گندم کے دانے آجاتے ہیں ان دانوں کو تبرک کے طور پرلوگ اپنے امسال کے کاشت کے بیج کے ساتھ ملاکربوتے ہیں ۔اس دوران دو بیلوں کو قدیم ہل جوتنے کے سامان کے ساتھ آگ کے الاو کے پاس پہچادیاجاتا ہے ۔راجہ صاحب آگ کے الاو کے ورشنی میں کھیت میں ہل چلاتا ہے ۔اس کے بعد تمام شائقین راجہ صاحب کے رہایش گاہ کے جانب روانہ ہوتے ہیں۔راجہ کے گھر اور تخت کے گھر کے درمیان ایک کلومیٹرکا فاصلہ ہے ۔تخت کے گھرسے راجہ کے گھرتک شعمابردار ریلی ہوتی ہے ۔آس پاس کے محلوں سے لوگ آگ کا آلاو لیکرشمعابردار ریلی میں شامل ہوتے ہیں ۔دیسی بینڈ کے دھون آگ کا آلاو اور (اجاروں ) کے مخصوص گیتوں سے ایک سماء بن جاتا ہے ۔جو کہ ایک اعظیم الشان نظارہ پیش کرتاہے ۔اسی طرح لوگ ایک بار پھرراجہ کے گھرپہنچ جاتے ہیں ۔جب تمام لوگ جمع ہوتے ہیں تو دیسی بینڈ کے مخصوص دھن پرمیزبان اپنے خاندان کے دیگرافراد کے ساتھ علاقائی رقص پیش کرتا ہے ۔اس کے دوسرے نمبرپرہمسائے اور تیسرے نمبرپر (اجاروں ) گروپ کے ٹیم رقص کرتے ہیں ۔پھرہرگاوں کے مخصوص فنکاراور مہمان رقص کرتے ہیں ۔یہ پروگرام رات کے آخری پہر تک جاری رہتاہے۔جشن تخم ریزی کے دوسرے دن صبح نو بجے سے ہی گہماگہمی شروغ ہوجاتی ہے ۔دیسی بینڈ کے تھاپ پر نوجوان رقص کا مظاہرہ کرتے ہیں۔مہمانوں کوگرام گرام چائے اور یاسین کے علاقائی کھانے پیش کیا جاتاہے ۔ رقص ،چائے اور مزدار علاقائی فوڈ کھانے اور کھیلانے کا سلسلہ دن گیارہ بجائے تک جاری رہتا ہیں ۔دن گیارہ بجاے جشن کا قافلہ راجہ کے گھرسے ایک بار پھر تخت کے گھر کے جانب روانہ ہوتاہے ۔راجہ کے گھرسے تخت کے گھرکے لیے روانگی کا منظردیدنی ہوتی ہے ۔راجہ کے گھرکے باہر گھوڑا سوار اپنی شہسواری کا مظاہرکرتے ہیں ۔ہزاروں لوگوں پر مشتمل جشن کا قافلہ تخت کے گھرکے جانب روانہ ہوتے ہیں ۔
تخت کے گھرسے پہلے راستے میں نمبردار اعلی یاسین کے گھرراجہ صاحب کے جانب سے تمام مہمانوں کو کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔جہاں پردیسی بینڈ پررقص اور موسیقی بھی جاری رہتی ہے۔نمبردار اعلیٰ کے گھرسے راجہ مخصوص مہمانوں کے ہمراہ ایک بار پھرتخت کے گھرجاتاہے۔راجہ کے ساتھ گھوڑا سوار اور دیسی بینڈ والے راجہ کے ہم قافلہ ہوتے ہیں ۔(تخت کے گھر)سے گھوڑسوار اپنے گھوڑوں کو لے کرگھوڑا ہائی جمپ کے مقابلے کے لیے مقابلے کے مخصوص جگہ پرجاتے ہیں ۔راجہ صاحب تمام مہمانوں کے ہمراہ گھورا ہائی جمپ کے مقابلے کے میدان میں آتے ہیں ۔گھوڑا سوار دیسی بینڈ کے دھن اور لوگوں کے بلند بانگ نعروں کی گونچ میں تقریبا چار فٹ اونچا رکاوٹ کے اپرسے چھلانگ لگاتے ہیں ۔اس دلفریب مقابلے کے بعد جشن کا قافلہ یاسین کے شاہی پولوگرونڈ پہنچ جاتے ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس منفرد ثقافتی میلے میں 25سے 30ہزار لوگوں کا اجتماع ہوتاہیں ۔حسب سابق اس سال بھی 30ہزار سے زیادہ کا اجتماع ہوا ۔الغرض یاسین کے شاہی پولو گرونڈ میں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی ۔گرونڈ کے دونوں سروں میں خواتین اپنے مخصوص نشتیوں میں بیٹھ جاتی ہیں ۔گرونڈ میں پہنچ کر راجہ یاسین کے نمبردار اعلیٰ کو سفیدکبڑے اور زری چپن کے ساتھ پگڑی پہناتاہے ۔یاسین کے نمبردار اعلیٰ ایک گھوڑے پر سوار ہوتا ہے ۔یہ ایک قدیم ثقافتی رسم ہے ۔نمبردار اعلیٰ گھوڑے پرسوار ہوتا ہے گھوڑے کے چابک کو ہوا میں لہراتے ہوئے قدیم رسم کے مطابق جن بھوتوں پراپنے چابک سے وار کرتاہے۔ گھوڑئے کو گرونڈ کے درمیان سے دوڑتے گرونڈ کے اگلے سرے تک جاتا ہے ا س دوران گرونڈ میں موجود شائقین تالیاں بجاتے ہوئے خوب داد دیتے ہیں ۔اس رسم کو مقامی زبان میں ،جنالی ترچک ،کا رسم کہا جاتاہے ۔نمبردار کی پوشاک اور گھوڑے کے خوبصورتی دیدنی ہوتی ۔اس رسم کے بعد راجہ نمبردار اعلیٰ یاسین اور دیگرمہمانوں کے ساتھ سٹج پراتا ہیں ۔اس کے ساتھ ہی راجہ صاحب گیند پیھنگ کر پولو میچ کا آغاز کرتا ہے۔پولو میچ کے ہاف ٹایم ہونے پررسہ کشی کا مقابلہ ہوتا ہے۔آخر میں راجہ صاحب عوام کو ایک جگہ جمع کرتا ہے ۔اور سال نو کے لیے دعائے خیرکے ساتھ دوروزہ جشن تخم ریزی کا یہ منفرد میلہ اختتام پزیرہوتا ہے ۔