میری ڈائری کے اوراق سے ——– مرحوم ذین العابدین کی شخصیت اُن کے قدردانوں کی نظر میں
31 مارچ ذین العابدین ( مرحوم ) کی برسی کا دن ہے ۔ ذین العابدین (مرحوم )اپنے خاندان کے علاوہ دوستوں کے حلقے میں بھی ” ابا جی ” کے نام سے ہی مشہور تھے ۔ ہماری ایک سوچ تھی کہ آپ کی حیات میں آپ کی زندگی کے مختلف ادوار پر طویل گفتگو ہو اور ہم اُ س گفتگو کو زیب قرطاس کر سکیں لیکن زمانے نے اپنے تیور بدل ڈالے ۔ بعد میں آپ کے کوچ کر جانے کے بعد ہم نے آپ کے دوست احباب سے ملاقاتوں کاسلسلہ جاری رکھا۔ ذین العابدین مرحوم کی زندگی سے متعلق معلومات اکھٹے کرنے کےلئے محترم شمس الدین صاحب بونی نے اباجی کے دوستوں کے تاثرات حرکی کیمرے کی آنکھ میں قید کئے ۔ ان انٹر ویوز کو اُردو میں ترجمہ کرنے کا بار گراں محترم سعادت حسین مخفی نے اپنے شانوں پر اٹھائے رکھا اور احس طریقے سے تمام انٹرویوز کا اُردو زبان میں ترجمہ کرکے ایک مصودہ تیار کیا اور اِس وقت ترجمہ شدہ مواد کو کتاب کے سانچے میں ڈھالنے کی سعی کر رہے ہیں ۔ مخفی صاحب کی اجازت سے اسی مصودے سے ماخوذ ایک اقتباس پیش خدمت ہے ۔
سعد رومی صاحب آپ کے چھوٹے بھائی ہیں جوکہ ماسٹر رومی کے نام سے مشہور ہیں، علم و ادب میں خوب دست رس رکھتے ہیں اپنی دور اندیشی اور معاملہ فہمی کے حوالے سے نابغہ روزگار شخصیت ہیں ۔ مرحوم ذین العابدین اپنے بھائی سعد رومی سے جنون کی حد تک محبت کرتے تھے اور رومی صاحب کے تمام مشوروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ۔ سعد رومی صاحب اپنے بھائی ذین العابدین کی چند ایک خصوصیا ت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
” ابا جی ہم سب کے لئے ایک مثالی کردار تھے،وہ ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ ہمارے خاندانی حصار میں اُن کا ثانی نہیں ملتا ،آپ انسانیت کے ساتھ محبت،دوسروں کے لئے قربانی کے جذبے، بڑوں کے احترام اور چھوٹوں سے پیار کا مکمل پیکر تھے ۔
والدین کے ساتھ زندگی گزارنے کا طریقہ بھی نبی پاک کی تعلمات کے عین مطابق تھا ۔ والدین کے سامنے اپنے خیالات کا آزادانہ اظہار کرنے میں ہمیشہ محتاظ رہا کرتے ۔اس کے اس احتیاظ برتنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ خاندان میں سب سے بڑے تھے اور آنے والی نسل کے لئے ایک مثال بننا چاہتے تھے ۔بعض اوقات اگر والدین غیر ضروری بھی ڈاٹتے تو جواب احترام آمیز خاموشی ہی اختیار کرتے – چھوٹوں کو ہمیشہ یہ نصیحت کرتے کہ والدین صرف ایک بار ملنے والی نعمّتیں ہیں لہذا ان کے احترام میں کوئی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کی جائے ۔ اس کے علاوہ ہم نے اپنی زندگی میں کبھی اکیلا کھانہ کھاتے ہوے اُنہیں نہیں دیکھا
مہمان یا رشتے دار اگر نہ ہوتے تو غریب ہمسایوں کو بلوا کر اپنے دسترخوان پر بٹھاتے۔غریب ہمسایوں پر بہت ترس کھاتے،ان کی بیماری میں مقروض ہو کر بھی ان کی اعانت کرتے۔ اچھی کتابوں کا مطالعہ اُن کی سرشت میں شامل تھا ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ اُس کے معاملات کو مثبت تنقیدی نگاہوں سے دیکھتے اور جب کسی حوالے سے گفتگو کرتے تو کوئی کسر باقی نہیں رہتی ۔ جعرافیہ اُن کا دلچسپ ترین مضمون تھا۔
ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد دو سال تک والدین کی خدمت میں گزارے،دو سال بعد والد صاحب کی اجازت سے کارزار سیاست میں اُترے۔ خود اُن کی خواہش این۔ اے ۔پی یعنی موجودہ اے۔ این ۔پی میں شامل ہونے کی تھی مگر اُ س زمانے میں پیپلز پارٹی کا ڈنکا ہر سو بج رہا تھا ۔ میں نے اُنہیں مشورہ دیا کہ اگر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی جائے تو بہتر ہوگا ۔ چونکہ وہ ہر بات اور ہر مشورے کو نظر تدقیق سے دیکھتے لہذا مجھے بڑی جاندار دلائل کے ساتھ اُنہیں قائل کرنا پڑا ، میں ان کا ممنونِ احسان ہوں کہ میرا مشورہ مان لیا اور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور آخری دم تک پارٹی کے وفادار رہے ۔ "
چونکہ ذین العابدین ( مرحوم ) راقم الحروف کی والدہ ماجدہ کے بڑے بھائے تھے ۔ میں نے اپنی زندگی میں اگر کسی کا احترام کیا ہے تو یہ اُنہی کی مرہون منت ہے ۔ آپ بلا تفریق محبت بانٹتے ۔ اُن کے ساتھ چلتے ہوئے اُن کے مشفقانہ انداز ملاقات سے حیرت ہوتی کہ وہ ہر ملنے والے سے پرتپاک اندز سے ملتے ۔ خاص کر اُن لوگوں سے بطور خاص معانقے کےساتھ مصافحہ کرتے جنہیں لوگ پاگل، دیوانہ یا گونگا سمجھ کر راستہ بدلا کرتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ ہم بونی کروئی جنالی سے گزر رہے تھے تو راستہ چلتے ہوئے ایک بے زبان ملنگ در آئے ا ُن کی آنکھوں کے ارد گرد اآنسو آلود دھول جمی ہوئی تھی۔ ابا جی نے پہلے ملنگ کو اپنے باہوں میں لیکر معانقہ کیا پھر اپنی قمیض کے آستین سے اُن کے چہرے کو صاف کیا اور پھر میری طرف متوجہ ہو کو بولے ” بیٹا یہ اللہ کے بہت قریبی دوست ہیں اِن سے محبت خدا کی خوشنودی کا حامل بنا دیتی ہے ” عجیب انسان تھے ابا جی فطرت کے عاشق تھے ۔ ایک مرتبہ آپ اپنے بھائی علی احمد صاحب کے گھر میں سبزہ زار میں کھڑے ایک پھول کے قریب منہمک انداز سے پھول کو ملاحظہ کر رہے تھے ۔ میں نے سلام کیا، مصافحہ کرتے ہوئے میرے ہاتھ کو مظبوطی سے پکڑے رکھا اور فرمانے لگے کہ میں اس پھول کو دیکھ رہا تھا کہ قدرت نے کتنے کمال سے اسے بنایا ہے ۔ آج صبح یہ کھِلا ہے اور میں نے اِ سے کھِلتے ہوئے بھی دیکھا ۔ پھر انہوں نے فطرت کی خوب صورتی اور دلکشی پر ہی گفتگو کرتے رہے ۔ اُ ن کا خیال تھا کہ فطرت کو قریب سے دیکھنے سے انسان پر بہت سارے راز کھلتے ہیں اور انسان اللہ تعالی کی تخلیق کردہ ہر شے سے محبت کرنے لگتا ہے ۔ محبت کا یہ پیکر 31 مارچ 2016 کو ہمیں داغ فرقت دے کر راہی عدم ہوئے ۔ اللہ تعالی ٰ اُنہیں اُس دنیا میں بھی خوش خرم اور آباد رکھے ۔ آمین ۔
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں