صوبائی حکومت یارخون بالا اور بروغل میں سنٹرل ایشیاء انسٹیٹیوٹ کے تحت چلنے والے سکولوں اور کالج کا انتظام سنبھالے۔سلطان وزیر
چترال(بشیر حسین آزاد)سابق کمشنر لینڈ اینڈ ریونیو اور سابق صدر اے پی ایم ایل چترال سلطان وزیر نے حکومت خیبر پختونخوا سے مطالبہ کیا ہے کہ بالائی یارخون اور بروغل میں سنٹرل ایشیاء انسٹیٹیوٹ گلگت وبلتستان کے تحت چلنے والے سکولوں اور انٹر میڈیٹ کالج یارخون لشٹ کا فوری طورپر انتظام سنبھالے اور اس پسماندہ علاقے کے بچوں اور بچیوں کی زندگی تباہ ہونے سے بچائے۔ایک اخباری بیان میں سلطان وزیر نے ان سکولوں اور کالج کے بارے میں تفصیل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سنٹرل ایشیاء انسٹیٹیوٹ کے تحت ایک انٹر میڈیٹ کالج ایک ہائی سکول اور آٹھ پرائیمری سکول2015-16سے کام کررہے تھے۔انٹر کالج یارخون لشٹ اور ہائی سکول چلمر آباد بروغل میں قائم تھے۔ان کے علاوہ رُکوت،غیرارُوم،کان خون،کشمانجہ بروغل،گرم چشمہ بروغل،گاریل بروغل اورلشکرگاز بروغل میں پرائمیری سکول قائم تھے جن میں544طالبعلم زیر تعلیم تھے۔انٹر کالج یارخون لشٹ میں75اور ہائی سکول چلمر آبادبروغل میں112بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ان اداروں میں46ٹیچنگ وغیرہ سٹاف موجودہے جبکہ مارچ2019سے سنٹرل ایشیاء انسٹیٹیوٹ کے اکاؤنٹ منجمد ہونے کی وجہ سے سٹاف کی تنخواہ اور بچوں کو ملنے والی کتابیں اور اسٹیشنری کی ادائیگی نہیں ہورہی ہے۔اُنہوں نے کہا کہ تمام سکولوں اور کالج کی پختہ عمارتیں اور ان کے اندر فرنیچر اور لیبارٹری کی سہولتیں موجودہیں اور صوبائی حکومت کو یہ ادارے چلانے میں کوئی بھی مشکل درپیش نہیں ہوگی۔صرف سٹاف کی تنخواہیں اور بچوں کی کتابوں وغیرہ کا انتظام کرنا چاہیئے۔سابق کمشنر سلطان وزیر نے مطالبہ کیا ہے کہ سنٹرل ایشیاء انسٹیٹیوٹ کے خلاف قانونی کاروائی کو جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔تب تک ان سکولوں اور کالج کا انتظام سنبھالا جائے جس کا سالانہ خرچہ صرف چوراسی لاکھ روپے ہے۔