کالمز

درکوت کے پشتنی قبائل اور انکے سلگتے مسائل

نپولین نے کہا تھا کہ کسی ملک کی خارجہ پالیسی اُس کا جغرافیہ مرتب کرتی ہے گویا کسی ملک کی اہمیت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب وہ دنیا کے ایسے خطے میں اپنا وجود رکھتا ہو جہاں یا تو تجارتی گزر گاہیں موجود  ہو ،یا پھر سمندری گزر گاہوں کا مرکز ہو۔

یقیناً کرہ ارض پر ایسے ممالک موجود ہیں جن کا جغرافیہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپنی منفرد جغرافیائی حدود کے سبب ان ممالک نے  ترقی کے منازل تیزی سے عبور کرتے ائے ہیں۔

پاکستان کا شمار  جنوبی ایشیا کے اہم ترین ممالک میں  ہوتا ہے ۔اس کی اہمیت کی  ایک وجہ تو وہ قدیمی اقوام ہیں جو دریائے سندھ کے کنارے آباد  تھیں۔

موہنجودوڈو ،ہڑپہ ،اور ٹیکسلہ دور قدیم کی مہذب تہذبیں تھیں۔گویا پاکستان کرہ عرض کے ایک ایسے حصے میں اپنا وجود رکھتا ہے ،جو قدیم مہذب تہذیبوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔

بات اگر گلگت بلتستان کی ہو جائے تو یقیناً اس خطے کا جغرافیہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ماضی میں بھی اس خطے کی اہمیت اتنی ہی زیادہ  تھی جتنی آج کے دور میں ہے۔

اس خطے کی سرحدیں دنیا کے اہم ممالک سے ملی ہوئی ہیں ،جن میں پاکستان ،افغانستان ،ہندوستان ،چین اور تاجکستان شامل ہیں۔

آج ہم گلگت بلتستان کی شمالی سرحد پر گفتگو کرینگے،جس میں افغانستان اور تاجکستان شامل ہیں۔

شمال کی جانب گلگت بلتستان کی آخری حد درکوت ہے۔ درکوت سے دریائے اوکزس دو دن کی پیدل مسافت پر واقعہ ہے۔

یہی وہ تاریخی دریا ہے جس کی تلاش ،اور اس کے منبع کا پتہ لگانے کے لئے انگریزوں نے کئی اہم شخصیات کو بیجھتں رہیں ہیں۔

ضلعی ہیڈکوارٹر گاہکوچ سے درکوت  تقریباً 84 کلومیٹر کی دوری پر اور  سطح سمندر سے  8878 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔سال کے چھے مہنے یہ علاقہ شدید سردی کی لپیٹ میں ہوتا ہے۔ زمستان میں چار سے چھ فٹ تک برف پڑتی ہے۔

مین ٹاؤن طاوس سے ایک بیم پختہ روڈ ہندور تک موجود ہے ،تاہم اس روڈ کی پختگی کا خاکہ کھنچنا قدرے مشکل ہے،کیونکہ ایک صحت مند شخص ایک دفعہ اس روڈ پر سفر کرنے کے بعد اگلے دو تک دن بستر پر پڑا رہتا ہے۔

ایک  کچی سڑک ہندور کو درکوت سے ملاتی ہے۔ یہ پُر خطر راستہ فروری اور مارچ کے مہینوں  میں مسافروں  کے لئے خطرے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ان دو مہینوں میں اِس خونی شاہراہ پر  سفر کرنے والے مسافروں کے سروں پر ہمیشہ خوف و دہشت کے بادل منڈلانے رہتے ہیں، کیونکہ اُوملست سے آگے ایک کلومیٹر تک کے علاقے میں ہر سال ایوالانچ(دوہٹ) وادی کے دونوں اطراف سے  اتے رہتے ہیں ، جس کے زد میں اکر اب تک کم و بیش دس افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں،  معلوم نہیں آنے والے وقتوں میں اور کتنی قیمتی جانیں اس آفت کا شکار ہوتے رہنگے۔

درکوت کو تاریخ میں منفرد حیثیت حاصل رہی ہے،کیونکہ وسطی ایشیائی ممالک ، بشمول واخان اور  تاجکستان کے، لوگ صدیوں سے درکوت پاس کو متبادل راستے کے طور پر اپناتے ائے ہیں۔

کرنل شمبرک کے مطابق وسطی ایشیائی حاجی حج پر جانے اور انے  کے لئے بعض اوقات درکوت پاس سے آر پار ہوتے رہیں ہیں، یہی نہیں بلکہ اسی گزرگاہ کا استعمال کرتے ہوئے تاجکستان ،واخان اور دیگر وسطی ایشیائی حملہ آورں نے یٰسن سمت گلگت بلتستان پر کئی دفعہ شب خون مارا ہے۔تواتر سے ہونے والے ان حملوں کو روکنے کی غرض سے یٰسن والوں نے درکوت دربند کے مقام پر دیوار چین کی طرز پر ایک دیوار تعمیر کی تھی تاکہ حملہ آورں کی رسائی یٰسن اور گلگت تک نہ ہو سکے۔ میں نے دربند کی تاریخی دیوار دیکھی ہے، یہ دیوار ایک ایسے مقام پر بنائی گئی تھی جہاں دریا ایک تنگ جگے سے گزرتا ہے اور یقیناً گرمیوں میں دریا کا بہاو تیز ہونے کی وجہ سے اس جگہیں کو پھلانگنا آسان کام  نہیں تھا۔ راوت سے آگے پیش قدمی کرنے کے لئے دربند سے ہی گزرنا پڑتا تھا ،جہاں یٰسن والوں نے حملوں کو روکنے کے لئے تاریخی دیوار تعمیر کی تھی جس کے بقایا جات اور دیوار کے آثار آج بھی موجود ہیں۔

مئی کے آغاز سے ہی درکوت پاس کھول جاتا تھا۔  اس اہم درے کے کھولتے ہی درکوت پر حملوں کے امکانات بھی بڑھ جاتے تھے۔

اس لئے مئی کے آغاز سے ہی درکوت سے تمام عورتوں سمت بچوں کو قرقلتی نالے میں رکھا جاتا تھا ، کیونکہ قرقلتی درکوت کے مقابلے میں زیادہ محفوظ جگہ تصور کی جاتی تھی۔

مئی سے اکتوبر تک درکوت میں پانچ یا دس افراد کھیتوں کو پانی دینے کی غرض سے قیام کرتے تھے۔ ان افراد میں سے بھی ایک فرد باری باری مخصوص جگے میں بیٹھ جاتا تھا۔ دشمن کے اچانک حملے کی صورت میں آگ جلائی جاتی تھی ،آگ صرف خطرے کی علامت کے طور پر جلائی جاتی تھی۔

زمانہ قدیم میں درکوت گھنے  جنگلات میں گھیرا ہوا تھا، ہر طرف گھاس اور جھاڑ جھنکاڑ موجود تھے ،اور یہ جنگل ،جنگلی جانوروں کا آماجگاہ تھا۔جہاں ہر طرح کے جنگلی جانور جن میں بھیڑیے ،برفانی چیتے وغیرہ ہر وقت دھندناتے پھرتے تھے۔

بدقسمتی سے ماضی کے راجواڑوں نے ان جنگلات کو بے دردی سے کاٹ ڈالا۔

جنگل کے مکمل خاتمے کے بعد موسمیاتی تغیرات نے بھی اپنا کام دیکھانا شروع کیا ۔2010 میں درکوت میں تاریخ کا بدترین سیلاب ایا ۔اس سیلابی ریلے نے درکوت کا حلیہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا،زرخیز زمین اور بچے کچے جنگلات سیلابی ریلے میں بہہ کر تباہ و برباد ہوئے۔

اس  سانحے کے بعد لوگوں نے بڑے پیمانے پے نقل مکانی کی۔

درکوت کے باسیوں کی زندگی ہمیشہ مصائب و آلام سے دوچار رہی ہے۔ یہ علاقہ ہمیشہ حکومتی ترجیحات سے اُوجھل رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج تک یہ علاقہ بنیادی ضروریات سے محروم چلا آ رہا ہے۔

بہرکیف جو حکومت محکموں اور نوکریوں کی تقسیم  بھی فرقہ پرستی کی بنیادوں پر کریں تو وہاں جائز حقوق کا ملنا درکنار ہے۔

حالیہ دنوں درکوت کے ایک نالے سے Antimony دریافت ہوا ہے ،حکومت نے عوام کو اعتماد میں لئے بغیر اُس پہاڑ کو لیز پر دیا ہوا ہے مزکورہ مقام تک بھاری مشینری کے زریعے سڑک تعمیر کی جارہی ہے اور چینی انجنیئرز درکوت میں کام کی نگرانی کے لئے موجود ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی لوگوں کو اعتماد میں لے کر ان کے ساتھ معاہدہ کر کے معدنیات کو نکلا جائے تاکہ اس سے مقامی آبادی کو بھی فائده ہو۔

درکوت کے لوگوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی میں اے کے ڈی این اہم کردار ادا کر رہی ہے۔عرصہ دراز تک لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں تھا، لیکن حالیہ دنوں اے کے ڈی این کے ایک زیلی ادارے نے اس اہم مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرتے ہوئے لوگوں کے گھروں تک صاف پانی کی ترسیل کو ممکن بنا دیا۔اس عمل سے مقامی لوگ بہت خوش نظر اتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ تعلیمی میدان میں بھی اے کے ڈی این کا اہم رول رہا ہے ،1947میں پہلی دفعہ درکوت میں ڈی جے سکول کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

ایک طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد آج درکوت میں بین الاقوامی سٹنڑر کا ہائی سکول موجود ہے جس کو کچھ دن قبل کالج کا درجہ بھی دیا گیا ہے۔مستقبل قریب میں درکوت کے باسیوں کی زندگیوں میں بڑی تبدیلیاں نظر ارہیں ہیں۔اے کے ڈی این کے ترجیحات درکوت کے باسیوں کے لئے نیک شگون ثابت ہونگے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button