چترال(گل حماد فاروقی) برف پوش پہاڑوں میں گھر ے ہوئے، محصوص ثقافت کے حامل، رنگین لباس میں ملبوس کیلاش ثقافت کودیکھنے کیلئے امسال لاکھوں کی تعداد میں سیاحوں نے وادی کا رح کیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریبا چار لاکھ گاڑیاں چترال میں داحل ہوئے جن میں زیادہ تر وادی کیلاش چلے گئے۔
اس کے علاوہ سیاحوں نے گرم چشمہ، بونی، مستوج اور دیگر سیاحتی مقامات کا بھی سیر کیا۔ تاہم سب سے زیادہ سیاح وادی کیلاش کے تینوں وادیوں میں چلے گئے جن میں بمبوریت کو پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں سیاح آئے کہ وادی میں کسی ہوٹل میں سیاحوں کیلئے جگہہ نہیں بچی اور اکثر لوگ فٹ پاتھ پر، کھیتوں میں، باغوں اور کھیتوں میں کھلے آسمان تلے لیٹ گئے۔
تاہم لاکھوں کی تعداد میں آنے والے ان سیاحوں میں سے زیادہ تر کی منہ پر ایک ہی شکایت تھی کہ سڑک کی حالت اتنی حراب ہے کہ وہ موت کا کنواں لگتا ہے۔ دوسری طرف سیاحوں نے یہ بھی شکایت کی کہ آیون سے لیکر دوباش چیک پوسٹ تک کوئی ٹریفک پولیس کا سپاہی نظر نہیں آیا یہی وجہ تھی کہ بد نظمی کی وجہ سے اکثر ٹریفک جام ہوکر سیاح آٹھ گھنٹے انتظار کی مشکل گھڑی سے گزرتے۔ ہمارے نمائندے نے جب سیاحوں کا یہ شکایت ایکٹنگ ڈی پی او معین الدین کے نوٹس میں لایا تو انہوں نے فوری ایکشن لیا مگر آگے جاکر چند ٹریفک پولیس اہلکاروں نے ہمارے نمائندے کو دھمکی بھی دی کہ اس نے کیوں ان کی شکایت کی۔
ان سیاحوں میں ہر قسم کے لوگ شامل ہیں ابھی تک سیاحوں کا تانتا بندھا ہوا ہے اور اب بھی سیاح ان وادیوں میں آرہے ہیں حالانکہ عید کب کا گزر چکا ہے مگر یہاں اب بھی عید کا سماں ہے۔ بعض سیاح اپنے فیملی کے ساتھ آئے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے ساتھ ضروریات زندگی بھی لائے ہیں اور وہ رات کو بار بی کیو کرکے بھنگڑا ڈال کر خوب ہلا گلا کرر ہے ہیں۔
ارم فاطمہ لاہور سے اپنے اہل حانہ کے ساتھ کیلاش آئی ہوئی ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم نے کیلاش وادی اور یہاں کے لوگوں کے بارے میں جتنا سنا اور پڑھا تھا یہاں آکر ہمارے سوچ سے بھی زیادہ یہ لوگ اور یہ علاقہ اچھا ہے مگر سڑک کی اتنی حراب حالت ہے کہ جب سیاح ایک دفعہ یہاں آتا ہے وہ پھر مڑ کر یہا کا رح نہیں کرتا۔
مسز ادیبہ خاور بھی اپنے اہل حانہ کے ساتھ لاہور سے آئی ہوئی ہے اس کا کہنا ہے کہ وادی کیلاش کی قدرتی مناظر، یہاں کا محصوص ثقافت، کیلاش خواتین کا خوبصورت رنگین لباس اور ارد گرد برف پوش پہاڑ سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لانے پر مجبور کرتے ہیں مگر جب یہاں کے سڑکوں سے گزرکر یہاں آنا پڑتا ہے تو اتنی مایوسی ہوتی ہے کہ واپس جانے کو دل کرتا ہے انہوں نے کہا کہ جس طرح نواز شریف نے لاہور میں انتہائی معیاری اور بہترین سڑکیں بنائی ہیں تو خیبر پحتون خواہ کے نا اہل حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ بھی نواز شریف کا مقابلہ صرف گالیوں سے نہ کرے بلکہ ان کی ترقیاتی کاموں سے کرے۔ یہاں پہلے بھی پاکستان تحریک انصاف کی پانچ سال حکومت رہی مگر انہوں نے پانچ سال میں کوئی کام نہیں کیا او ر اب دوبارہ ان کی حکومت ہے مگر ہمیں کوئی کام نظر نہیں آتا اگر تبدیلی سرکار گالیاں دینے کی بجائے وادی کیلاش کی سڑکوں پر توجہ دے اور اس کی حالت بہتر کرے تو اس کی وجہ سے دنیابھر سے اتنے غیر ملکی سیاح آئیں گے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں پڑ ے گی بلکہ ان سیاحوں کی آمد سے جو ذر مبادلہ ہمیں ملے گا ہم اس سے ملک کا قرضہ بھی چکا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد عدنان بھی لاہورسے آیا ہوا ہے ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف صوبائی اور مرکزی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ ہم سیاحت کو فروغ دیں گے مگر ان کی دعویٰ صرف زبانی لگتا ہے عملی کام کچھ بھی نظر نہیں آتا یہاں کے ڈپٹی کمشنر کو چاہئے کہ ان سڑکوں کی بہتری پر توجہ دے دوسری طرف انتظامیہ اور صوبائی حکومت یہاں ہوٹل بنانے پر پابندیاں لگارہے ہیں حالانکہ یہاں مزید سو ہوٹلوں کی ضرورت ہے کیونکہ ہزاروں کی تعداد میں سیاح واپس اسلئے چلے گئے کہ ان کو ہوٹل میں جگہہ نہیں ملی۔
حیدرآباد سے بھی چند من چلے آئے ہوئے ہیں ان میں اقلیت کے لوگ بھی ہیں او ر مسلم بھی انہوں نے بھی یہ شکایت کی کہ سڑکوں کی حالت بہت حراب ہیں اور حکومت کو چاہئے کہ ان سڑکوں پر توجہ دے کم ازکم ان کو کشادہ کرکے دریا کی جانب سڑک کے کنارے حفاظتی دیوار تعمیر کرے تاکہ گاڑیاں دریا میں گرنے بچ جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم میڈیا میں سنتے اور پڑھتے ہیں کہ حکومت نے کیلاش وادی میں سیاحت کیلئے پچاس کروڑ روپے محتص کئے ہیں مگر یہاں آکر پچاس روپے کا کام نظر نہیں آتا یا تو یہ فنڈ مافیا کے جیبوں میں جاتا ہے یا حکومتی وزراء پھر جھوٹ بولتے ہیں۔
وادی کیلاش کے علاوہ گرم چشمہ، بونی، مستوج، مڈگلشٹ، بیر موغ لشٹ، گولین اور دیگر سیاحتی مقامات میں اب بھی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے اور یہ سیا ح جگہہ جگہہ قیام کرکے کچھ دیر کیلئے ثقافتی شو کا بھی مظاہر ہ کرکے خود کو خوش کرتے ہیں۔ اگر حکومتی ادارے وادی کیلاش کی سڑکوں پر توجہ دے ان کی حالت بہتر کرے اور جو پچاس کروڑ روپے کا جو اعلان کیا تھا اس میں کوئی بھی کام نہیں ہوا ہے۔ سیاحوں کا کہنا ہے کہ سڑک کی حراب حالت کی وجہ سے اکثر گاڑیاں کئی کلومیٹر پیچھے ریورس گیر میں جاتے اور گاڑیاں کراس کرنے کی جگہہ بھی نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ بہت بڑی تعداد میں سیاح واپس چلے گئے۔