آصف علی زرداری کی گرفتاری اور چند تاریخی حقاٸق
تحریر:ایڈوکیٹ حیدر سلطان
پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں ہمیشہ حکومت وقت کی طرف سے مخالف گروپس کو بلیک میل کرنے اور اپنے ہر جاٸز ناجاٸز فیصلوں پہ اپوزیشن کا منہ بند کرانے کے لیے کرپشن کے الزامات لگاٸے جاتے رہے ہیں۔ مگر مسلم لیگ ن کے گزشتہ دور حکومت میں کچھ ایسے واقعات دیکھنے کو ملے جن کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔ ن لیگ کی حکومت میں ہی اس وقت کے وزیر اعظم جناب میاں محمد نواز شریف کو کرپشن اور دیگر الزامات میں وزات عظمی سے نہ صرف بےدخل کیا گیا بلکہ داماد صفدر اور بیٹی مریم سمیت جیل بیجھا گیا ۔ مسلم لیگ ن اپنے ہی دور حکومت میں اپوزیشن کا بھی کردار ادا کرتی ہوٸی نظر آٸی اور میڈیا کے زریعے احتساب کے سارے پروسز کو کبھی اسٹبلشمنٹ کی چال تو کبھی عدلیہ کی باٸیسنس کے طور پر متعارف کراتی رہی ۔ محاز پہ کھیلنے کیلیے مسلم لیگ نے دو ٹیمیں تشکیل دیںں پہلی ٹیم میاں نواز شریف اور مریم نواز کی تھی جو اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ لیکر جارحانہ موڈ اپناتے رہے جبکہ دوسری ٹیم میاں شہباز شریف کی تھی جس نے نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں نرم گوشہ اختیار کٸے رکھا بلکہ ایک موقعے پہ الل اعلان اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرتے ہوٸے عمرانی معاہدہ کرنے کی آفر کی ۔
جب میاں صاحب عدالتی پیشیاں بھگت رہے تھے اور الیکشنز بھی سر پہ تھے تو آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی عمران خان کے ہم پلہ میاں صاحب کے خلاف عدالتی کارواٸیوں کا حصہ بنتے نظر آٸے مگر جوں ہی الیکشنز ختم ہوٸے تو نیب نے جناب آصف علی زرداری کے کے گرد بھی گھیرا تنگ کرنا شروع کیا ۔ تمام تر صورتحال کو دیکھتے ہوۓ مفاہمت کے بادشاہ نے بھی پیپلز پارٹی کی دو ٹیمیں تشکیل دیں۔ ایک ٹیم کی سربراہی خود سنبھالی جسے مفاہمتی ٹیم کہا جاٸے تو غلط نہ ہوگا اور دوسری ٹیم کی زمہ بلاول بٹھو کو دی گٸ جس نے جارہانہ رویہ اپناٸے رکھا۔ نتیجہ وہی مسلم لیگ کی ٹیموں والا نکلا ۔ کہتے ہیں دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے شاید اسی فارمولے کو اپناتے ہوٸے ماضی کے حریف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نیب کی مخالفت میں ایک پیچ پر نظر آنے لگے جس کا باقاٸدہ اعلان مریم نواز اور بلاول بٹھو نے ماہ رمضان میں ایک افطار پارٹی پہ اکھٹے ہو کر کیا ۔ یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ آصف زرداری کے خلاف چلنے والے موجودہ تمام نیب ریفرنسز خود میاں صاحب کے بناٸے ہوٸے ہیں۔ آصف زرداری نے گرفتاری سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ۔ کبھی عدلیہ مخالف تو کبھی عدلیہ کے حق میں بیانات دیتے نظر آٸے اور کبھی اسٹیبلشمنٹ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی تو کبھی ہاتھ ملانے کی آفر کرتے رہے اور ایک بار تو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوٸے پی ٹی آٸی کی حکومت سے مخاطب ہو کر یہاں تک کہا کہ اگر آپ گرین سگنل دکھادیں تو ہم آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں مگر دال نہ گلی ۔
ایک جانب زرداری صاحب کے تمام تر حربے کام نہیں آرہے تھے اور دوسری جانب میاں شہباز شریف کی ساری محنت بھی راٸیگاں ہوتی نظر آرہی آرہی تھی ایسے میں میاں شہباز شریف بھی دل برداشتہ ہوٸے اور اپنے بڑے بھاٸی کے بیانیہ کو اپناتے ہوٸے جارہانہ بیانیے کی طرف لوٹ آٸے اور یوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی ٹاپ کی لیڈر شپ کرپشن کیسز میں یا تو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہے یا پھر ضمانتوں پہ ۔ تمام تر صورتحال کو ملاحظہ کرتے ہوٸے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دیر سے ہی صحیح مگر مملکت پاکستان میں سٹیٹ کی رٹ قاٸم ہوتی جارہی ہے اور قانون اپنا راستہ اختیار کرتا ہوا نظر آرہا ہے مگر تاریخی حقاٸق بہت کڑوے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سارا چکر ماضی میں رونما ہونے والے واقعات کی ماڈرن شکل کی صورت میں نظر آنے لگے اور کچھ عرصے بعد یہ سارا معاملہ ماضی کی طرح ایک ڈرامہ ہی ثابت ہوجاٸے ۔ اللہ کرے کہ احتساب کا عمل شفافیت کیساتھ جاری رہے اور حکومتی بنچوں میں بیٹھے کرپٹ وزرا ٕ و اراکین کو بھی اپنے لپیٹ میں لیتے ہوٸے ثابت کرے کہ مملکت پاکستان میں رول آف لا ٕ کا آغاز ہوا ہے اور عام آدمی اور نیوٹرل شہریوں کو لگے کہ قانون واقعی اندھا ہے جسے نہ تو بڑے بڑوں کے پیسے نظر آتے ہیں نہ ہی بڑے بڑے عہدے ۔