گوٹھہ شو ہہ، لاشوں کا مکان
پرانے زمانے میں دفنانے کی ایک روایت یہ تھی کہ زمین دوز مکان بنا کر ان میں لاشیں رکھی جاتی تھیں۔ اس طرح کے قبور کے کچھ آثار آج بھی وادی یاسین میں پائے جاتے ہیں۔ یہ روایت یقیناً قبل از اسلام کا ہوگا۔ ایسے قبرستان کو ہم کچھ معنوں میں اجتماعی قبرستان بھی کہہ سکتے ہیں۔ تکنیکی طورپر یہ زمین کے اندر کھدی ہوی مکانیں تھیں، جن میں لاش رکھے جاتے تھے، اور ان زمین دوز مکانات میں داخل ہونے کے لئے بھی انتظام ہوا کرتا تھا۔ اس معنوں میں آپ انہیں لاشوں کا مکان بھی کہہ سکتے ہیں۔
ان حیرت انگیز مکانوں میں سے ایک وادی یاسین میں سندی گاوں کے نزدیک ایک پہاڑی پر آج بھی موجود ہے۔یہ مکان قوم شھمونے کے آبائی قبرستان کے ساتھ ملحق ہے۔ اس زمین دوز گھر میں اترنے کے لئے لکڑی کا بنا ہو ایک زینہ یا سیڑھی استعمال کیا جاتا تھا جو اس مکان کے درمیان میں نصب ایک بڑے روشن دان کے ساتھ لگا ہو ا کرتا تھا۔ یہ سیڑھی اس زمین دوز مکان میں اترنے اور باہر نکلنے کے لئے مستعمل ہونگے۔ بعد میں لوگ انہی سیڑھیوں کے ذریعے نیچے اتر کر لاشوں کو دیکھتے تھے۔ پھر کسی مہربان کی نظر پڑی اور دسمبر کی کسی سرد رات وہ چوبی سیڑھی بطور ایندھن استعمال ہوا۔ اس کے بعد کسی نے سیڑھی بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی، اب روشن دان سے تانک کر اندر دیکھنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ تیس چالیس سال پہلے اس مکان میں بہت سے لاشیں تھیں لیکن ارتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ ان لاشوں کی ہڈیا ں بھی آہستہ آہستہ کم ہو نے لگیں۔ ہیں قیاس ہے کہ جدید دور کے میڈیکل کے طالب علموں نے ان ہڈیوں کو اپنے کالجوں کی لیبارٹریز کی زینت بنایا ہوگا۔ ”واللہ اعلم، بالصواب“
دوسرا اجتماعی قبر ستان یا لاشوں کا مکان سنٹر یاسین میں آبادی سے کچھ فاصلے پر پہاڑی ڈھلوان میں ہے لیکن اس مکان میں داخل ہو نے کے لئے ایک دروازہ ہے۔
اس تاریخی مکان کے بارے میں بات کرتے ہوے محمد ایوب نامی ایک نوجو ان نے بتایاجو کہ اس مقام سے نزدیک ترین اس کا گھر ہے، اس کا کہنا تھا کہ جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھا تو پہاڑی ڈھلوان سے مٹی کے سرکنے کی وجہ سے اس مکان کا دروازہ نظر آنے لگا تو اس بارے میں لوگوں کی مختلف باتوں کو سن سن کر ہم چند ایک نوجوانوں کو تجسس ہوا اور ہم نے آپس میں بات کر کے فیصلہ کیا کہ رات کے وقت کھود کر اس دروازے کو کھول دیں گے اور اندر داخل ہو کر جو بھی قیمتی چیز ملے نکال کرتصرف میں لائے گے لیکن رات کو تو اندھیرا ہو گا کیسے کھدائی کریں گے اورکھدائی کربھی لیا تو اندر ہمیں کیسے کچھ نظر آئے گا، اس لئے ہم نے بجلی کی بہت ساری تار جمع کیا اور ان کو جوڑ کر اس مکان تک پہنچایا اور ایک بلب لگا کر روشنی کا بندوبست کیا اور پھر رات بھر کی کھدائی کے بعد دروازے کو کھولنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر جب بلب کی روشنی میں اندر دیکھا تو بہت سے انسانی لاشیں پڑی تھیں اور بڑے بڑے ڈھانچے تھے، یہ لاشیں اتنی بڑی بڑی تھیں کہ میں نے آج تک اتنے بڑے قد کا انسان نہیں دیکھا ہے، اس جوان کا کہنا ہے کہ وہ لاشین بالکل سالم تھیں۔ ان کی اوپر ٹاٹ یا بوری نما قسم کا کپڑا تھا اور ایسے لگ رہے تھے جیسے کہ ان کوحنوط کردیا گیا ہو۔ ایوب کہتا ہے کہ ہم اس لالچ میں تھے کہ شاید سونا وغیرہ قیمتی چیز مل جاہے اور اس لئے ہم نے گنتی بیلچہ اور لکڑی کے ڈنڈوں کی مدد سے ان لاشوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا، وہ کہہ رہا تھا کہ وہ مکان کافی بڑا تھا جو کہ جنیپر کی لکڑی کے تختوں کا چھت تھا اور یاسین کے مقامی ایک چھوٹے گھر کے سائز کا تھا۔
چونکہ یاسین کے دیسی مکان کافی بڑےرقبے پر بنائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مکان کے اندرونی حصے میں دیواروں کے ساتھ بلکشھ، یعنی سامان رکھنے کی جگہیں، موجود تھیں، اور ان میں بھی چھوٹی چھوٹی لاشیں رکھی گئی تھیٰں۔
"ہم اپنے مقصد میں ناکامی پر مایوس وہاں سے نکل آئے، بعد میں گاؤں کے بچو ں نے پتھر مار مار کران لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ پہاڑ سے مٹی اور پتھر گرگر کر اس مکان کو پھر سے ڈھانپ دیا ہے۔ اس طرح یہ تاریخی مقام بھی گمنام ہو گیا اور اس کی حفاظت کسی نے نہیں کیا۔
شاید گلگت بلتستان میں آثار قدیمہ کی حفاظت کا کوئی محکمہ نہیں جو ان تاریخی مقامات کی حفاظت کرے اور قومی ورثے کو تباہی سے بچائیے!!
حکومت اور خاص کر یاسین کے منتخب ممبران کو بھی اس طرف توجہ دیا جانا چاہیے اور اگر یہ اور اسی طرح کے دوسرے تاریخی مقامات کی حفاظت کیا جائے تو یہ ایک بہترین ٹورسٹ سپاٹ بن سکتا ہے اور سیاحت کو فروغ دینے کا باعث بن جائے گا۔
میجر ڈاکٹر فیض امان جو کہ خود بھی ایک محقق اور لکھاری ہے کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں میں بھی ان کے آبائی قبرستان سے ملحق ایک مکان کے کھنڈرات میں بھی ایسی لاشیں پائی گئی ہیں اور اسی طرح دو بڑے بڑے غار غنیار کے نالے میں جو کہ غوجلتی کے نزدیک بھی پائے جاتے ہیں جن میں انسانی ڈھانوں کی ہڈیاں اور کویلے وغیر ہ ہیں یہ امر تحقق کا متقاضی ہے کہ اتنی اونچائی پر انسانی لاشوں اور رہائش یا آگ جلانے کی اثرات کیسے ہیں۔ لیکن پھر وہی بات کہ ہم لوگ خود سوئے ہیں یا یہ کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے ایسے تاریخی مقامات پر تحقیق نہیں کر سکتے۔ حکومت اور کسی دیگر ادارے کی جانب سے بھی اس معملے پر مکمل خاموشی ہے ایک سوالیہ نشان ہے؟