آسمان کی تلاش میں زمین پر کھو جانے والے تارے
صفدرعلی صفدر
دفتر سے واپسی پربیٹی کے سکول سے امتحانی نتائج کے اعلان سے متعلق پرچی موصول ہوئی۔ پرچی دیکھ کحیرت ہوئی کہ جس میں نہ کسی رنگا رنگ تقریب کا ذکر تھا نہ معزز مہمان خصوصی کا، نہ انعام وطعام کا، نہ تقریر وکلام کا۔کاغذ کے ٹکڑے پرسیدھے سادھے الفاظ میں رزلٹ اٹھانے کی اطلاع تھی۔ پرچی پڑھ ہی رہا تھاکہ بچی خوشی خوشی گھر داخل ہوئی اورسکول کی اطلاع سے اگاہ کرتے ہوئے رزلٹ کے لئے ساتھ جانے پر اصرار کیا۔ پوچھا کوئی مخصوص ڈریس یا کوئی پرفارمنس کا تو نہیں بولا ہے۔ بیٹی نفی میں سرہلاتے ہوئے صرف ساتھ جانے پر بضدرہی۔ شام تک گھر آنے والے سبھی کو یہی خوشخبری سناتی رہی کہ صبح اس کا رزلٹ ہے۔ سب نے رزلٹ کو فرسٹ پوزیشن سے مشروط کرکے اپنی بساط کے مطابق انعامات کا وعدہ کیا۔
صبح رزلٹ کے لئے والدہ محترمہ بھی ساتھ روانہ ہوئی۔ سکول کے گیٹ سے اندر داخل ہونے پرمعمول سے ہٹ کے کوئی منظر دکھائی نہ دیا۔ کسی وزیر، مشیر کی آمدکے چرچے تھے نہ پھولوں کے گلدستے۔ حیرانگی کے عالم میں جائے محفل کی تلاش شروع کی تو بچی نے ہاتھ تھام کر سیدھے کلاس روم پہنچادیا۔ کلاس ٹیچر ٹیبل پر کاغذ سجائے مہمانوں کی منتظر تھی۔ علیک سلیک کے بعد بچی کارزلٹ بمعہ پیرز پیش کیا گیا۔ رزلٹ اطمینان بخش تھا، پیپرز بھی بطریق احسن سرانجام دکھائی دیئے۔ نمبرات،گریڈ، پرسنٹیج سب کچھ رزلٹ کارڈ پردرج مگر پوزیشن کا کوئی تذکرہ نہ تھا۔ٹیچر نے نہایت شائستگی کے ساتھ زبانی طورپر بھی رزلٹ کا خلاصہ بیان کیا۔ بچی کی عادات،نظم وضبط وغیرہ کی تعریفوں کے پل باندھ لئے تو دلِ افگار خورشیدِ شاداں میں بدل گیا۔لمحہ مسرت و یارانِ فرقت کے ملے جلے آنسو رزلٹ کارڈ پر ٹپکنا شروع ہوئے توامیدِ بہارکے لئے والدہ کا چہرہ تکتا رہا۔
والدہ محترمہ بھی آبدیدہ تھی مگر چہرے پرکسی حسرت کےآثار نمایاں تھے۔ شکرانے کے الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ رخصت لی تووالدہ نے سرگوشی میں اپنی حسرت بیان کردی۔ ان کی حسرت پوتی کی پوزیشن میں مغفی تھی۔ ٹیچرہم زبان تھی تو بات سمجھ کر مسکرانے لگی۔ وضاحت فرمائی کہ ان کے سکول میں فرسٹ،سیکنڈ، تھرڈ پوزیشن وغیرہ کا نظام موجود نہیں۔ بچوں کی کارکردگی کا عکاس رزلٹ کارڈ ہی ہے۔ لائق نالائقی،حاضر، غیرحاضر،صفائی ستھرائی،شرارت،شرافت سب کچھ اسی میں پنہاں ہے۔ مزید فرمایا کہ پوزیشن ہولڈرز کے تعین سے طلباء وطالبات کے اندرخوداعتمادی کی جگہ احساس کمتری جنم لیتی جوجدید تعلیمات کے منافی ہے۔
بات سو فیصد درست اور مدلل تھی مگر باعث حیرت بھی۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں بچوں کے روشن مستقبل کو جانچنے کا پیمانہ فرسٹ پوزیشن ہو وہاں ایک ادارے کی جانب سے پوزیشن ہولڈرز کا تعین نہ کرنا اس معاشرتی روایت سے ٹکراؤ کے مترادف تھا۔ پھردماغ لڑانے پر یاد آیا کہ مذکورہ سکول کی بنیاد کسی زمانے میں انگریزوں کے ہاتھوں رکھی گئی تھی۔ جنہیں بعدازاں نامعلوم وجوہات کی بناپرادارے کا نظم ونسق مقامی افراد کے سپرد کرکے ملک چھوڑنا پڑا۔ چنانچہ ہوسکتا ہوسکول کا یہ منفرد نظام انہی کی کاوشوں کا مرہون منت ہو۔وگرنہ ہمارے ہاں تو پوزیشن ہولڈرز کی تصاویر اوراساتذہ کے پروفائلزداخلوں کے لئے بہترین برانڈکے طورپر استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایسے میں مجھ ساکوئی نادان ہی ہوسکتا ہے جو گمنام معلمین اور بلا پوزیشن کے حامل ادارے میں بچوں کو داخل کروائے۔
لیکن بات ایسی بھی نہیں تھی۔ صحافتی تجربات کو استعمال میں لاکر کسی نامعلوم ذرائع سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ حاکمِ وقت سے لیکر افسرشاہی کے چمکتے ستاروں کے بچے بھی اسی نظام تعلیم سے فیض یاب ہوتے رہے، یا ہورہے ہیں۔ چنانچہ اطمینان ہوا کہ سیاستدان یا بیوروکریٹ بننے کے لئے فرسٹ یا سکینڈ پوزیشن لانا لازمی نہیں۔لیکن امتحانات میں نمایاں نمبرلانے والوں کی تشہیری مہم ہرصورت لازم ہے۔ لازم کیوں نہ ہو۔وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں بیڈروم سے لیکرکفن پوش لاشوں کی تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوں یامہد سے لیکرلحدتک کی لائیو کوریج کی جاتی رہی ہو تووہاں فرسٹ پوزیشن ہولڈرز کا چرچہ بھلے کیوں نہ ہو۔
یہ سب کچھ تو ہے جو ہم نے اپنے نظام تعلیم سے سیکھا ہے۔یہی وہ روش ہے جو بچوں کے مستقبل کی تباہی اور والدین کی پریشانی کا باعث ہے۔جس کا انجام معاشرتی بے راہ روی یا زندگی کا چراغ گل ہے۔ نہیں تو گلگت بلتستان اورچترال میں حالیہ برسوں امتحان میں ناکامی یا توقعات کے برعکس نمبرآنے پرخودکشی کے شرمناک واقعات کیا ہیں؟ ہم پھر بھی ان واقعات سے سبق سیکھنے پر آمادہ نہیں کہ کل کو اس طرح کے واقعات کسی کے ساتھ بھی پیش آسکتے ہیں۔سبق کیا سیکھے ہم خود بھی تو اسی نظام تعلیم کے پیداوار ہیں۔ ہمیں غرض یہی ہے کہ بچے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں مثالی نمبرحاصل کرکے ڈاکٹر یا انجنیئر بن کر خوب پیسہ کمائے تاکہ باقی ماندہ زندگی عیش وعشرت سے گزاری جاسکے۔
کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ والدین اپنے بچوں کی کامیابی پر جشن نہ منائے یا ان کی ناکامی پر افسردہ نہ ہوں۔ بات یہ کہ معاملات کو اجتماعیت کے پیرائے میں کیسے پرکھا جائے تاکہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ تعلیم کا مقصد سیکھنا ہے، تربیت دینا ہے، اچھے برے کی تمیز ہے تو پھر سیکھنے کے عمل میں نمبرات اور پوزیشن کے دنگل کا کیا کردار ہوسکتا ہے۔ یہ کوئی سائیکل ریس تو ہے نہیں کہ کروڑوں کا فنڈ خرچ کرکے گلگت سے خنجراب کی جانب دوڑایا جائے اوراختتام پر فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ کے انعامات تقسیم کرکے ڈھول کی تھاپ پر رقص سے کام تمام کیا جائے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ بھی نہیں کہ نوجوان نسل کے اندر امتحان میں ناکامی یا تواقعات سے کم نمبرات پر خودکشیوں کا یہ رجحان صرف ہمارا ہی مسئلہ ہے۔ پاکستان کے دیگر علاقوں سمیت بھارت، نائجیریا اورچین کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں بھی اس طرح کے مسائل پائے جاتے ہیں۔مگروہاں ان مسائل کے تدارک پر بھی کام کیا جاتا ہے جبکہ ہم صرف افسوس پر اکتفا کرلیتے ہیں۔ ماہرین اس رجحان کی بہت ساری وجوہات میں سے تین کو انتہائی اہم قرار دیتے ہیں۔ پہلی وجہ والدین کا بچوں پر پریشرہے۔ بچوں کے روشن مستقبل کی تمنا والدین کا فطری عمل ہے جس سے انکاری ممکن نہیں۔ مگر بچوں کی ذہنی صلاحیتوں،مختلف امور،شعبوں میں دلچسپی اور محنت کی استعدادکابغور جائزہ لینا بھی تو والدین کی ذمہ داری ہے۔ بدقسمتی سے والدین ان عوامل کی جانب توجہ دینے کی بجائے پوزیشن اور اچھے نمبروں کی خواہش میں بچوں کو نفسیاتی دباؤ میں لاتے ہیں۔
دوسری وجہ بچوں میں مقابلے کی دوڑ ہے۔اس کی تفصیل عامرخان کی فلم’تھری ایڈیٹ‘ کے مکالمے ’دوست اگر فیل ہوا تو دکھ ہوتا ہے اور دوست اگرفرسٹ آجائے توزیادہ دکھ ہوتا ہے‘ میں پنہاں ہے۔ تیسری وجہ سکول انتظامیہ یا اساتذہ کا پریشرہے۔سرکاری سکولوں پرنظام سدھارنے کے لئے حکومتی دباؤ اور نجی اداروں کابہترنتائج دیکھاکربھاری بھر فیسوں کی وصولی کے ذریعے معیار تعلیم کو بلندیوں تک پہنچاناآج
کل رواج عام ہے۔ اس مقصدکے حصول کے لئے سکول انتظامیہ کا اساتذہ اور اساتذہ کا طلباء پر دباؤ یا تشدد ایک معمول ِعام ہے۔لہذا بچوں کا سکولوں سے ڈراپ اوٹ ہونا یانفسیاتی اور ذہنی دباؤ کا شکارہوجانا یا پھرزندگی کا خاتمہ اس دباؤ کا پیش خیمہ ہے۔
کاش ہم اعلیٰ نمبروں اور پوزیشن کے چکرسے نکل کر سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کی طرح اپنے بچوں کو اچھا انسان بنانے کے متقاضی ہوتے تو نہ ہمارے یہ تارے زمین پر کھوجاتے نہ کسی کفن پوش لاش کی تصویرسوشل میڈیا کی زینت بن انسانی ضمیرکوجھنجوڑ لیتی، نہ کسی کو لحدکی لائیو کوریج کا خیال آجاتا اور نہ ہی کوئی خودکشی پر مجبور ہوجاتا!