ہندراپ واقعہ: کس سے منصفی چاہیں؟
صفدرعلی صفدر
دنیا کی نوآبادیاتی کالونی گلگت بلتستان جہاں ایک طویل عرصے اپنی آئینی تشخص اور بنیادی عوامی حقوق سے محرومی کا شکار ہے، وہی پریہ خطہ حکومتی عدم توجہی کے سبب اپنے ملحقہ علاقوں کے مابین حدود کے تعین سے متعلق تنازعات میں بھی الجھا ہوا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیرکے تناظر میں گلگت بلتستان کے مستقبل کا تعین ایک طرف تودوسری طرف اندرون ریاست بین الصوبائی تنازعے خطے کے عوام کے لئیپریشانی کا باعث بن رہے ہیں۔ مگر پاکستانی حکومتیں مسلسل ان مسائل سے پردہ پوش نظر آرہی ہیں۔
بین الصوبائی حدبندی کے ان تنازعات کا محور پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہے، جس کی سرحدیں براہ راست گلگت بلتستان کے ضلع دیامر اور غذر کے علاقوں سے ملتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ جن علاقوں پر آج دونوں اطراف کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن بنے ہوئے ہیں، وہ تاریخی اعتبار سے ماضی میں گلگت بلتستان کا ہی حصہ رہے ہیں۔ تاریخی حقائق پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا کے ضلع چترال کا علاقہ اور شناکی کوہستان کبھی گلگت بلتستان کا حصہ تھے، جنہیں بعدازاں پاکستان کے شمال مغربی فرنٹیئر صوبے (خیبرپختونخوا) میں ضم کرکے قومی دھارے میں شامل کیاگیا۔
بیس ویں صدی کے معروف تاریخ دان پروفیسراحمد حسن دانی ریزیڈنٹ ان کشمیرکی جانب سے1913میں چیف کمشنرپشاور اور1928میں سروے آف انڈیا کو لکھے گئے خطوط کا حوالہ دیکر یہ واضح کرتے ہیں داریل، تانگیر، کھنڈیاں، جھل کوٹ، سازین، شتیال اور ہربن کے علاقے گلگت ایجنسی کا حصہ تھے۔ جبکہ دوسری جانب ضلع غذر اور چترال جبکہ دیامر اور کوہستان کے لوگوں کے آپس میں قریبی خاندانی مراسم اور دونوں علاقوں کی زبانیں، ثقافت اور رسم وروایات کی ایک دوسرے سے مماثلت بھی ان حقائق کی سعی کرتی ہے۔ اس کے باوجود حکومت پاکستان کی جانب سے ان حقائق کو مسخ کرنے اور جغرافیائی حدبندی کے تعین سے متعلق عدم اقدامات کے سبب دونوں علاقوں کے عوام کے مابین حدبندی کا مسئلہ تصفیہ طلب رہا۔
علاقائی حدبندی سے متعلق پیداہونے والے تنازعات کے حل کے لئے1950میں دیامر اور کوہستان کے عمائدین پر مشتمل علاقائی جرگہ کے ذریعے ایک تحریری معاہدہ طے پایا، جس میں بھاشا نالہ تک کے علاقے کو تھور یعنی دیامر کے عوام کی ملکیت قراردیا گیاتھا۔ لیکن بعدازاں 1960کو سروے آف پاکستان نامی ادارے کی جانب سے اس معاہدے کوپاؤں تلے روند کربسری تک کے علاقے کو صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ قراردیکر حدبندی تنازعہ کے نام پر علاقائی فساد کا بیج بویا گیا۔
اسی طرح ضلع غذر اور چترال کے مابین شندور سمیت دیگر تنازعات کے حل کے لئے بھی کوئی سنجیدہ اقدامات نہ کئے جانے سے جغرافیائی حدبندی کے یہ تنازعات وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتے گئے، جس کے نتیجے میں درجنوں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ، دراندازی اور مال مویشی کی چرائی میں خطہ گلگت بلتستان کے عوام کو بڑے پیمانے پر نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
فروری2014میں ضلع کوہستان کے علاقے ہربن اور ضلع دیامر کے علاقے تھور کے عوام کے مابین محض آٹھ کلومیٹر احاطے پر مشتمل اراضی تنازعے میں لڑائی جھگڑا اور فائرنگ کے نتیجے میں نصف درجن سے زائد لوگ اپنی قیمتی جانیں گنوا گئے جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔ مسئلے کامستقل حل تلاش کرنے کی بجائے دونوں اطراف کی صوبائی حکومتوں نے بھی سوائے اخباری بیانات کے ذریعے ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرانے کے اورکچھ نہیں کیا۔ تاہم حالات کی سنگینی کے پیش نظراس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے ایک باونڈری کمیشن کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنے کے احکامات جاری کئے جس کا آج تک کوئی پتہ نہ چل سکا ہے۔
2016میں گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے مابین باونڈری تنازعات کے حل کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان سے آئین پاکستان کے آرٹیکل184(1)کے تحت اقدامات کرنے سے متعلق ایک درخواست گزاری گئی، جس کی سماعت کے لئے اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل پایا مگر بدقسمتی سے تاحال اس پر بھی کوئی فیصلہ نہیں دیا گیا۔ وفاقی حکومت اور ریاستی اداروں کی جانب سے اس اہم مسئلے کی طرف عدم توجہی کے سبب خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں خاص طورپر کوہستان اور چترال کے لوگوں کی جانب سے ضلع غذر کے بالائی علاقے شندور اور ہندراپ میں دراندازی کے ذریعے زمنیوں پر قبضہ اور مال مویشی چرانے کے واقعات آج انسانوں کی اغوہ کاری تک آپہنچے جووفاقی وصوبائی حکومتوں کے لئے باعث شرم ہیں۔
گزشتہ ہفتے ضلع غذر کی تحصیل پھنڈر کے گاؤں ہندراپ سے تعلق رکھنے والے چند نوجوان مچھلیوں کے شکار کی غرض سے جب ہندراپ نالہ پہنچے تو وہاں پر موجود تین درجن کے قریب مسلح افراد نے گن پوائنٹ پر انہیں حراست میں لے لیا۔ یہ لوگ کوہستان کے گاؤں گھانڈیاں، گبریال کی ایک بااثر شخصیت آفرین ملک کے بندے بتائے جارہے تھے۔ آفرین ملک نامی شخص کا ہندراپ نالہ میں واقع ایک وسیع اراضی پراپنی ملکیت کا دعویٰ ہے اور اس حوالے سے ان کے اور عوام ہندراپ کے مابین ضلع غذر کی ایک مقامی عدالت میں کیس زیرسماعت ہے۔
اطلاعات کے مطابق کوہستان سے تعلق رکھنے والے اس مسلح گروپ نے تھوڑی سی پوچھ گچھ کے بعدزیرحراست افراد میں سے چار نوجوان اکرم، علی شیر، امیرولی اور عالمگیر کو اٹھاکر ساتھ لے گئے جبکہ باقیوں کوعوام ہندراپ کے نام اس پیغام کے ساتھ واپس بھیج دیا گیانالہ ملک آفرین کے نام کرنے پر بندے واپس کئے جائیں گے۔
واقعے کے خلاف ضلع غذرکے علاوہ ملک کے دیگرحصوں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو حکومت حرکت میں آگئی۔ مغویوں کی بازیابی کے لئے گلگت بلتستان پولیس کی خصوصی ٹیمیں کوہستان روانہ کردی گئیں جو مسلسل چار دن تک کوہستان کے مختلف علاقوں میں مغویوں کی تلاش میں سرگراں رہیں مگر مغوی افراد ہاتھ آگئے نہ اغواکاروں کا سراغ مل سکا۔ اسی اثناء کوہستان پولیس کی جانب علاقائی حدود میں غیرقانونی طورپر داخل ہونے والے چار بندوں کی گرفتاری اور اسلحہ برآمدگی کا ایک جعلی مقدمہ بناکر مغوی افراد کو کوہستان کے ہیڈکوارٹرداسوکی ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔ جہاں سے انہیں ضمانت پر رہائی دیکر گلگت بلتستان پولیس کے حوالے کیا گیا۔ یوں گلگت بلتستان پولیس نے ہفتہ کے روزآدھی رات بازیاب افراد کو ساتھ لیکر پریس کانفرنس کرکے اپنی فتح کے جھنڈے تو گاڑ دیئے مگر اغواکاروں کے خلاف مذید کسی کاروائی کی کوئی اطلاع نہیں دی۔
اس واقعہ میں گلگت بلتستان حکومت کی مجرمانہ خاموشی، پولیس کی مایوس کن کارکردگی، اغواکاروں کی گرفتاری اورعلاقائی سرحدات کی حفاظت کے لئے فوری اقدامات کے مطالبے لئے غذر بھرکے عوام نے پہلے گوپس پھر گاہکوچ میں احتجاجی دھرنا دیا، جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے علاوہ عوام الناس نے ایک بڑی تعداد میں شرکت کی۔ احتجاج عوام کا حق تھا کیونکہ ضلع غذر میں بیرونی دراندازی کا یہ
کوئی پہلا واقعہ نہیں نہ ہی آخری واقعہ ہوسکتا ہے۔ ا س سے قبل چھشی نالہ، سینگل نالہ، گلمتی نالہ اور دیگرنالہ جات میں اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ پولیس چیک پوسٹس پر حملے کرکے سرکاری اسلحہ بھی لوٹا گیا مگر حکومت ان واقعات کی روک تھام سے گریزاں رہی۔ چنانچہ حالات کے تناظر میں غذر کے عوام کی جانب سے اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے حکومت وقت اور ریاستی اداروں سے فوری اقدامات کا مطالبہ بالکل بجا ہے۔ حکومت اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے بلاتاخیر نہ صرف غذر بلکہ گلگت بلتستان کے تمام بین الصوبائی سرحدات پر گلگت بلتستان سکاوٹس کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ دونوں علاقوں کے مابین حدبندی تنازعات کے مستقل حل کے لئے وفاقی حکومت پراپنا موقف واضح کرے۔