تاریخ کا جبر اور گلگت بلتستان
تحریر۔ اشفاق احمد ایڈوکیٹ
پرومیتھیس یونانی دیو مالا کا ایک عظیم ہیرو ہے جس نے کوہ اولمپس سے آگ چرائی تھی اور آگ کے استعمال کا راز انسانوں کو بتایا دیا تھا۔
اس جرم کی پاداش میں اسکو ایک چٹان سے باندھ دیا گیا تھا ،جہاں بھوکے گدھ دن بھر اس کےجسم سے گوشت کو نوچ نوچ کر کھاتے تھے،مگر شام کو دیوتا اس کے زخم بھر دیتے تھے۔
اگرچہ ھر گزرنے والی بات اور ھر گزرنے والی راحت و تکالیف جھوٹی اور بے اصل ھے مگر اس میں سبق اور عبرت ضرور ھے۔
اس لیے قوموں کی عروج و زوال کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ روز اول سے ہی دنیا کے مختلف گروہوں قبیلوں، طبقوں، قوموں اور ملکوں کے مابین جاری تمام تر کشمکش اور جنگ وجدل کا مقصد درحقیقت طاقت کا حصول اور کمزور اقوام پر بالادستی حاصل کرنا ہے۔
مگر عینیت پسند مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مفکرین کا یہ ماننا ہے کہ انسان فطرتاً اچھا ہے۔
لہذا سیاست کا مقصد طاقت کا حصول نہیں بلکہ عوام کی خدمت ہے ،لیکن کسی راہنما اصول کی عدم موجودگی میں سیاست اقتدار کی ہوس اور جبر و ظالمانہ جدوجھد بن جاتی ہے۔ اس لیے مختلف اداروں کا قیام عمل میں لا کر دنیا میں امن، ترقی اور سماجی انصاف قائم کرنا ممکن ہے۔
دوسری طرف کلاسیکی حقیقت پسندی کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے سیاسی مفکرین اس استدلال کی نفی کرتے ہوئے کہتےہیں کہ اخلاقی نقط نظر سے ممکن ہے کہ سیاست کا مطلب عوام کی خدمت ہو، مگر دنیا اخلاقی اقدار پر نہیں چلتی ہے۔
درحقیقت سیاست اقتدار حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ھے، اور تمام سیاسی جدوجھد کا مقصد طاقت کا حصول ہے۔”دوسرے لفظوں میں پاور ہی سیاست کا محور و مرکز ہے۔”
تیسری دنیا کے بہت سارے پسماندہ علاقوں کی طرح گلگت بلتستان کے غریب عوام بھی عام طور پر پاور پولیٹیکس کے محور کے گرد گھومنے والے ان قدیم سیاسی داؤ پیچ سے نابلد ہیں اس لئے گزشتہ ستر سالوں سے آئینی حقوق سے محروم ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ جب عوام کی اکثریت کو ایک طویل عرصے تک ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، اور جبر کی مسلسل تکرار کو برقرار رکھا جائے تو وہ آہستہ آہستہ سماجی اجنبیت کا شکار ہو کر خود کو نظام سے لاتعلق سمجھنے لگتے ہیں۔
چونکہ اس ناقابل برداشت حالت سے بچ کر نکلنے کا کوئی راستہ بھی نہیں ڈھونڈ پاتے ہیں،تووہ نظام سے لاتعلقی کا اظہار برملا کرنے لگ جاتے ہیں۔
ان کی یہ لاتعلقی روح میں لگنے والی گھاؤ کی طرح ہوتی ہے جو لاعلاج ہوتی ہے۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ سماجی بےچینی ہمارے معاشرے کی جڑوں میں سرایت کر گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام کو ان کے بنیادی حقوق جایز طریقے سے نہیں ملتے ہیں اس لئے اپنے حقوق کے لئے عوام کا سٹرکوں پر نکل کر احتجاج کرنا اور دھرنے دینا معمول کی بات بن گئی ہے اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ گلگت بلتستان کی سیاست ہر دم شدت آمیز ہوتی جا رہی ہے عوام کی اکثریت نظام حکومت پر اعتماد کھو چکے ہیں اور گلگت بلتستان میں نئے سرے سے پاور کی تقسیم کی بات زبان خلق اور نقارہ خدا بن چکی ہے۔
اس لئےیہ کہا جاتا ہے کہ عوام کی لاتعلقی نظام کی تباہی کا باعث بن جاتی ہے۔
یوں پورامعاشرہ آہستہ آہستہ ایک بلیک ھول میں بدل جاتا ہے ، اور شگفتہ امیدوں اور ہولناکیوں کی موجودگی میں بے یقینی ایک تکلیف دہ بات ہے۔
پولینڈ سے تعلق رکھنے والی ممتاز صحافی ریشارد کاپوشںنسکی اپنی کتاب "شہنشاہ”میں اس طرح کی صورت حال کے بارے لکھتی ہیں کہ انقلاب ایران سے قبل شاہ کے خاندان کو دی جانے والی رشوت سو ملین ڈالر یا اس سے زیادہ ھوتی تھی، نظام حکومت سے عوام نالاں تھے اور تبدیلی کی اظہار زندگی کے ہر شعبے میں صاف صاف دکھائی دیتی تھی۔
وزیراعظم اور جنرل تیس سے پچاس ملین ڈالر رشوت لیتے تھے،نیچے آتے آتے رشوت کی رقم کم ھو جاتی تھی،لیکن ختم کہیں نہیں ھوتی تھی۔
ملک میں جوں جوں چیزوں کی قیمتیں بڑھنے لگتی تو رشوت کی رقم بھی بڑھ جاتی تھی۔
عام لوگوں کی آمدنی کا زیادہ سے زیادہ حصہ بدعنوانیوں کے دیوتا کے نذر ھونے لگتا۔ اپنی اس کتاب میں وہ لکھتی ہے کہ
قدیم زمانے کے ایران میں اونچے عہدوں کی نیلامی کا دستور تھا۔
بادشاہ سلامت، گورنر کے عہدے کی سرکاری قیمت کا اعلان کرتا اور جس کی بولی سب سے زیادہ ھوتی عہدہ اسی کو ملتا تھا جبکہ نظام عدل بھی قابل حوصلہ افزا نہیں تھا حلف کی وقعت ختم ہوچکی تھی۔
گلگت بلتستان میں رائج الوقت نوآبادیاتی نظام حکومت کی وجہ سے ایک ایسی صورت حال جنم لے چکی ہے جہاں عوام
گزشتہ 72 سالوں سے ایک موزوں آئینی سیٹ اپ کا انتظار کر رہے ہیں مگر مسئلہ کشمیر کی اڈ میں ان پر آرڈر پر آرڑر کے ذریعے حکومت کی جارہی ہے۔
دوسری طرف سماجی انصاف اور بنیادی انسانی جمہوری حقوق کی فراہمی کے بابت کیے گئے ان وعدوں کی تکمیل کے اس مقدس وقت کا انتظار کرتے کرتے عوام کی آنکھیں پتھرا گئیں ہیں اور وہ سارا صبر گنوا چکے ہیں۔
کہاوت کے مطابق جس طرح تمام راستے روم کی طرف لے جاتی ہیں بلکل اس طرح اس خطے میں رائج نوآبادیاتی پالیسیوں کی تمام راہیں عوامی وسائل کو و بےدردی سے لوٹنے کی طرف لے جاتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سفارش کی بنیاد پر عہدوں کی تقسیم، میرٹ کی پامالی، اقراپروری ، خالصہ سرکار کے نام پر پشتنی پاشندگان کی اراضیات میں مداخلت اور قبضوں کی وجہ سے لوگ یہ بات سوچنے پر مجبور ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ آنکھیں بند کر کے مٹھی بھر افراد کو اپنے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کرنے کی اجازت دے دیں۔ ؟
اس طرح کے معروضی حالات میں تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں بھی روز بروز اصافہ ھوتا جا رہا ہے ، جو میرٹ کی پامالی کی وجہ سے بےروزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں اور متبادل ذرائع روزگار نہ ہونے کے باعث بےروزگاری کے مارے ان نوجوانوں کی اکثریت روزگار کی تلاش میں دنیا کے دیگر ملکوں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں یا پھر نظام سے خائف یہ نوجوان اپنے آج کو کل پر قربان کرتے ہوئے اپنی قدرت اور صلاحیت کے مطابق نظام میں بہتری اور سماجی انصاف کے لئے سیاسی میدان اور سوشل میڈیا پر ایک توانا آواز بن کر جدوجھد کر رہے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں ایک بہتر زندگی گزار سکیں۔
قومی شناخت، آئینی حیثیت، اور بنیادی آنسانی جمہوری حقوق کے لئے جدوجھد کے نتیجے میں بعض نوجوان تادیبی کاروایئوں کا بھی شکار ہو رہے ہیں مگر ان نوجوانوں کی اکثریت اگر پیچھے مڑ کر دیکھتی ہے تو انہیں تاریکی ،بھوک اور مختاجی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
بقول کارل مارکس” ان کے پاس کھونے کے لیے زنجیروں کے علاؤہ کچھ نہیں لیکن پانے کے لیے ساری دنیا ہے۔”
دوسری طرف طاقتور اور چالاک لوگ قوانین کو اپنے فائدے کی خاطر توڈ موڈ لیتے ہیں اور بالزک مشہور قول کے مصداق قانون مکڑی کا جالا ہے جو چھوٹی چھوٹی مکیھوں کو تو جھگڑ لیتا ہے لیکن بڑے بڑے کیٹرے مکوڈے پر گرفت نہیں کرسکتا , جیسے کہ سانحہ علی آباد میں باپ بیٹے کو دن دھاڑے قتل کرنے والے لوگوں کے خلاف آج تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی مگر عطااباد کے متاثرین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی پاداش میں گلگت بلتستان کے نامور ترقی پسند رہنما کامریڈ بابا جان اپنے ساتھیوں سمیت کئی سالوں سے پابند سلاسل ہیں اور عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
دوسری طرف شہنشاہ ایران کے درباریوں کی طرح کچھ خوشامدی حضرات خود کو عوام کے رھنما سمجھ رہے ہیں حالانکہ ان کو اچھی طرح پتہ ہے کہ نوجوان نسل ان کو محض نوآبادکار کے مسخرے ہی سمجھتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ شاہ ایران کے دور میں کوئی بھی شخص ایک دن میں بلکہ ایک منٹ میں ترقی پا کر اس طبقے میں پہنچ سکتا تھا اس کے لیے صرف شاہ کے حکم یا دستخط کی ضرورت ھوتی تھی۔
جو شخص زیادہ لگن کے ساتھ شاہ کی چاپلوسی کرسکے اسے اپنی وفاداری اور تابعداری کا یقین دلا سکے وھی شاہ کے عظیم تہذیب کے سرچشمے سے استفادہ کر سکتا تھا۔
گلگت بلتستان میں جنم لینے والی اس طرح کی صورتحال کو دیکھ کر ہمیں بڑے افسوس کے ساتھ ہمیں یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی تکلیف کی حد تک انتہائی حساس ہوتا ہے مگر دوسروں کے مصائب پر غیر معمولی بے حسی کا مظاہرہ کرتاہے۔
حالیہ دنوں میں ضلع غذر ہندرپ واقعے میں ملوث ملزمان اور دہشت گردوں کو پکڑ کر سزا دینے کے بجائے الٹا مغویوں کے خلاف تادیبی کارروائی کرنا اور مظلومین کو ڈر خوف کے ماحول سے دوچار کرنے کی وجہ سے وحشت پسندی فروغ پا رہی ہے۔
یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ایسے واقعات پرامن علاقے کی تہذیب وتمدن کے لئے باعث خطرہ ہیں جس طرح چھ صدیوں تک وحشیوں کے حملوں نے مغربی یورپ کی تہذیب کو ختم کیا تھا۔
یہ وحشت پسندی ، عدم اعتماد ،خوف اور عدم تحفظ کے احساس کی پیداوار ہے۔
تشدد کی مسلسل تکرار لوگوں کو کلیتاً دبانے کی بجائےایک ایسے ناقابل برداشت تضاد میں دھکیل چکی ہے جس کا نقصان ناقابل تلافی ہے۔
غازیوں اور شہیدوں کی وادی پونیال غذر کے گاؤں ہندرپ نالے سے سے گزشتہ دنوں چار افراد کو اغوا کرکے کوہستان لےجانے والے دہشت گردی کے واقعےنے ابتدائی فطری معاشرے کی یاد تاذہ کی جب حکومت جیسی کوئی شے موجود نہیں تھی اور ہر طرف جنگل کے قانون کا راج تھا۔
مگر ہندرپ سانحے کے بعد غذر کے عوام نے قومی وقار اور ہمت کے تقاضے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جس منظم اور پرامن انداز میں ظلم کے خلاف یک جان ہو اٹھ کھڑے ہوئے وہ قابلِ ستائش اور اس قدیم محاورے کی صداقت پر مہر ثبت کرتی ہے
کہ” جہاں قبریں زیادہ ہوں وہیں لوگ ذندہ ہو کر اٹھ سکتے ہیں۔”
بدقسمتی سے ظلم و دہشت گردی کے خلاف اس پر امن جدوجھد کو ریاست کے خلاف بغاوت تصور کیا جاتا ہے جبکہ درجنوں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی نہ ہونا ستم ظریفی اور دوسری طرف پرامن جدوجھد کرنے والے سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کے خلاف شیڈول فور ، انسداد دہشت گردی ایکٹ اور غداری کے دفعات کے تحت شروع کی گئی تادیبی کارروائی نے ملٹن کی شیطان کی یاد تاذہ کی ہے۔
انسانی معاشرے کے ارتقاء کا ایک عام اصول ہے کہ ہر دور کی نسل اپنے بعد آنے والی نسلوں تک اپنی یادوں کا کچھ نہ کچھ سرمایہ ضرور منتقل کر دیتی ہے۔ لہذا ڈوگرہ راج کے زمانے میں دئیے گئے زخم پھر سے رسنے لگتے ہیں اور اس بھیانک خواب کے گزرنے کے سالوں بعد بھی اس کے نفسیاتی اور سماجی شاخسانے آج تک بدستور برقرار ہیں، بقول ریشارد کاپوشنسکی ایسے حالات میں تاریخ ایک المناک دائرہ شر میں چکر کاٹنے لگتی ہے اور اس چکر سے آزاد ہونے میں ایک عہد گذر جاتا ہے۔
اس استدلال کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا میں واقع ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اور گلگت بلتستان کے معروضی حالات اور غیر مساوی مساوات کا تقابلی جائزہ لینے سے ایسا لگتا ہے کہ گلگت بلتستان میں سماجی مساوات اور مراعات صرف چند لوگوں کی، چند لوگوں کی وجہ سے ،اور چند لوگوں کے لئے ہے۔
مٹھی بھر افراد نے قومی طاقت اور قومی دولت کو اپنے ہاتھوں میں مرتکز رکھا ہے عوامی وسائل کے استحصال کے باعث یہ دولت اتنی بڑھ گئی ہے گلگت بلتستان کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔جبکہ عوام کےنصیب میں ایک المناک تاریخ آئی ہے۔
ڈوگرہ راج سے ہی یہ لوگ تاریخی جبر کا شکار رہے ہیں اور سماجی ناانصافیوں اور بدقسمتوں کا گہرا احساس ان کے شعور کا حصہ بن گیا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہر عہد میں عوام کے لئے صداقت قومی تقاضوں کی میراث بن گئی ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ اس تاریخی جبر کے اثرات کے بہت سارے دھارے ایک جگہ پر آ ملنے سے حالیہ برسوں میں بعد گلگت بلتستان کے لوگوں میں ایک عظیم فکری اور سیاسی بیداری کی لہر چل پڑی ہے جس کی ہمسری ہمارے تاریخ کا اور کوئی دور نہیں کرسکتا۔ ایک طویل عرصے تک سیاسی جدوجھد کے نتیجے میں گلگت بلتستان کی قیادت بتدریج نوجوان نسل کو منتقل ہورہی ہے۔
یہ بات اٹل ہے کہ سیاست میں حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے بلکہ ان کے اندر تبدیلی آتی رہتی ہے۔
گلگت بلتستان میں نوآبادیاتی سوچ اور صلاحیت کے پہلو میں ایک نئی سوچ اور قوت نوجوان نسل کی صورت میں ابھر کر سامنے آئی ہے جو اپنے علاقے میں برابری، مساوات اور سماجی انصاف کے لئے پرامن طریقے سے سیاسی جدوجھد کررہے ہیں۔
اور برٹش انڈیا کے نوآبادیاتی نظام سے مشابہت رکھتے والے اس نوآبادیاتی نظام کے بدلے اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق اپنے بنیادی انسانی جمہوری حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں جو کسی بھی جمہوری ملک کے شہریوں کو آئینی تحفظ کے ساتھ حاصل ہوتے ہیں۔ مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں رائج الوقت نوآبادیاتی طرز کے اس نظام حکومت کی آڑ میں پاور پیلیرذ کو اس پرامن خوبصورت خطے میں انکھ مچولی کا وہی پرانا کھیل کھیلتے ہوئے دیکھ کر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہماری تاریخ بدستور ایک المناک دائرہ شر کے گرد چکر کاٹ رہی ہے ۔
چوہے بلی کے اس کھیل کی وجہ سے پیدا ہونے والے شیطانی چکر سے نکلنے میں ہمیں ایک عہد درکار ہوگا، چونکہ اس بوسیدہ نظام نے ایک بنجر زمین تیار کر رکھا ہے جس میں فکر کا پورا جلد نہیں اگنے والا ہے۔