پڑھا نا منع ہے
صو بائی حکومت کا نیا حکم ہے کہ پڑھانا منع ہے چنا نچہ ٹیو شن پڑھا نے وا لوں کے خلا ف کریک ڈاون کا فیصلہ اخبارات کی زینت بن چکا ہے خیبر پختونخوا میں ایک حکومت نے عوام کو نعرہ دیا تھا ”تعلیم سب کے لئے“ دوسری حکومت نے ”پڑ ھا لکھا پختونخوا“ کا نعرہ دیا ہر ایک نعرہ خو ب صورت تھا اور ان پر کسی حد تک عمل بھی ہوا تب جا کر شر ح خواندگی میں اضا فہ ہو امو جو دہ حکومت نے پہلے پرا ئیویٹ سکو لوں کو تا لا لگا دیا، نیا حکمنا مہ یہ ہے کہ ٹیو شن پڑھا نے والے ٹیکس جمع کریں ورنہ اُن کے خلاف کریک ڈا ون ہو گا اور ایسے تما م اسا تذہ کی درس گاہیں بند کی جائینگی جہاں سا لانہ امتحا ن،انٹری ٹیسٹ، این ٹی ایس، سی ایس ایس، پی ایم ایس، جی آر ای، ٹو فل،آئی لیٹس،گیٹ، سیٹ اور دیگر ٹیسٹوں کی تیاری کروائی جا تی ہے مقصد یہ ہے کہ یا تو ہمارے صو بے کے طلباء اور طا لبات پنجاب، سندھ، بلو چستان یا آزاد کشمیر جا کر امتحا نات کی تیاری کریں یا میدان دوسرے صو بوں کے طلباء اور طا لبات کے لئے خا لی کریں ایک پختون ٹیوشن پڑھ کر ٹیسٹ یا مقا بلے کا امتحا ن پاس کرے یہ ہم سے کبھی بر داشت نہیں ہو گا پرائیویٹ سکو لز ریگو لیٹری اٹھا رٹی کو بنے ہوئے ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرا ہے فروری 2019میں جن پرائیویٹ سکو لوں نے رجسٹریشن فیس جمع کر کے پہلے کمپیوٹر کے ذریعے آن لائن فارم بھیجے پھر ان کا پرنٹ لیکر PSRAکے دفتر میں رجسٹریشن فیس کی رسید کے ساتھ جمع کئے تھے ان کو نصف ورق کا رجسٹریشن سر ٹیفیکیٹ اب تک نہیں ملا ہے اگر بینک آف خیبر کی رسید میں کوئی غلطی تھی یا فارم میں کوئی کمی تھی اس کی مختصر اطلا ع، نصف ورق کے خط یا 4لائینوں کے ای میل یا دو لائینوں میسچ کی صورت میں اب تک نہیں ملی،تقا ضا یہ کیا جا تا ہے کہ سوات، شانگلہ یا دیر اور چترال سے پرائیویٹ سکو ل کا پرنسپل پشاور جا رکر 10دفعہ PSRAکے دفتر کا چکر لگائے اور آخری چکر میں بھتہ دے کر رجسٹر یشن نمبر یا سر ٹیفیکیٹ حا صل کرے حکام کے دفتر کا یہ عذاب آگے جا کر ٹیوشن پڑھا نے وا لوں پر نا زل ہونے والا ہے اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ جس طرح ریٹا ئر منٹ کی عمر 63سال کرنے کے بعد نو جوا نوں میں نا اُمیدی اور ما یو سی پھیل گئی اس طرح ٹیو شن پر پا بندی کے خلا ف بھی نو جوانوں میں اشتعال پید اہوگا تحریک انصاف کی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان کے وژن پر سوا لات اُٹھا ئے جائینگے ایسے معا ملات مسلم لیگ کی ورکنگ پارٹی کے اجلا سوں میں زیر غور آتے تھے پا کستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی میں ان پر طویل بحث ہوا کرتی تھی جمعیتہ العلما ئے اسلا م اور جما عت اسلا می کے مجا لس شوریٰ میں ان کو زیر بحث لا جا تا تھا پارٹی کی نچلی سطح کی قیا دت عوامی احسا سات اور جذ بات سے پارٹی کی اعلیٰ قیا دت کو آگا ہ کرتی تھی اور حکومتی اقدامات، وزرا ء کے بیا نات یا افیسر وں کی من ما نیوں پرعوامی ردّ عمل سے پار ٹی کی اعلیٰ قیا دت کو با خبر رکھا جا تا تھا اب تک کے جو تجربات سامنے آئے ہیں ان سے اندازہ ہو تا ہے کہ پا کستان تحریک انصاف نے عوامی مسائل سے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو با خبر رکھنے اور مختلف سر کاری اقدامات کے منفی ردّ عمل سے پارٹی لیڈر شپ کو آگاہ کرنے کا کوئی طریقہ کار یا مکینزم وضع نہیں کیا ہے ”بلین ٹری سو نا می“ اور بی آر ٹی دونوں تحریک انصاف کی حکومت کے اچھے منصو بے تھے عوام کے ساتھ رابطہ نہ ہونے اور عوا می ردّ عمل کا فیڈ بیک نہ آنے کی وجہ سے دو نوں میں بے شمار مسا ئل پید ا ہوئے نو مبر کے مہینے میں پنجاب سے دو کروڑ پودے لا کر یہاں پہاڑی مقا مات پر لگائے گئے اور سب ضا ئع ہوئے جن محلض، محب وطن اور عمران خان سے محبت کرنے والے لو گوں نے اخبارات یا سو شل میڈیا کے ذریعے حکومت کی توجہ ایسے معا ملا ت کی طرف دلا نے کی کو شش کی ان کو ن لیگی پٹوا ری، زرداری کا چیلا کہہ کر طعنہ دیا گیا نقصان تحریک انصاف کو ہوا جن افیسروں نے قا بل عمل اور مثبت تجا ویز دینے کی کو شش کی ان کو کھڈے لائن کر کے خوشامدی لو گوں کو آگے لا یا گیا حکمر ان جما عت اپنے کارکنوں کی تجا ویز اورنچلی سطح کی قیادت سے فیڈ بیک لیکر طا قت حا صل کرتی ہے پرائیویٹ سکول یا ٹیو شن سنٹر پا کستان تحریک انساف کے مقا بلے میں کام نہیں کرتے بلکہ پا کستان تحریک انصاف کو سپورٹ کرتے ہیں ان پر ملک دشمنی، عوام دشمنی یا دہشت گردی کا کوئی الزام نہیں ہے پنجاب،سند ھ، بلو چستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پرائیویٹ سکو لوں اور ٹیو شن سنٹروں کو حکومت کا معا ون قرار دے کر ان کی حو صلہ افزائی کی جا تی ہے خیبر پختو نخوا میں سابقہ حکو متوں نے ان کی سر پرستی کی ہے جنرل فضل حق، آفتاب شیر پاؤ، سر دار مہتاب عباسی، اکرم خان درانی اور امیر حیدر خان ہوتی نے پرائیویٹ سکو لوں کے سسٹم کو مضبوط کیا اسے تقویت دی کیونکہ یہ سسٹم تعلیم تک رسائی (Accessٌ)اور معیار (Quality) دونوں شعبوں میں حکومت کی مدد کرتا ہے ٹیو شن مخصوص مضا مین اور مخصوص مقا صد کو سامنے رکھ کر طلباء اور طا لبات کے لئے نا گزیر ضرورت کا درجہ رکھتا ہے ٹیو شن سنٹروں پر کسی بھی ملک میں کسی بھی حکومت نے حملہ نہیں کیا ہر ملک میں الگ نا م سے طلباء و طا لبات کی رہنما ئی کا سلسلہ چلتا ہے اور نو جوا نوں کو فائدہ ہو تا ہے ن لیگ، پٹواری یا جیا لوں سے نہ پرائیویٹ سکو لوں کا تعلق ہے نہ ٹیو شن کے ذریعے نئی نسل کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے وا لوں کا کوئی رشتہ ہے کہیں ایساتو نہیں کہ نئی نسل کو ملک کی نئی قیا دت، پی ٹی آئی کی حکومت او ر سر کا ری پا لیسی سے بد ظن کرنے کے لئے حکومت کے اندر بیٹھے ہوئے کچھ لو گ سا زش کررہے ہیں یہ سارے معا ملات حکمران جماعت کی کورکمیٹی میں زیر بحث آنے چاہئیں ورنہ اخبارات اور سو شل میڈیا میں مو جود ہ حکومت کی تعلیمی پا لیسیوں پر تبصرہ کرنے والے یہی کہینگے کہ ”پڑ ھا نا منع ہے“یا”سب سے پہلے استاد کو سزا دینی چاہئیے“اور ایسے تبصرے کرنے والے خان صا حب کے مخا لفین نہیں بلکہ اُن کے مداح اور شیدائی ہونگے