کالمز

چترال میں خودکشیاں: ایک جائزہ

تحریر: احسان اللہ 

گزشتہ دو مہینوں کے درمیان چترال میں خودکشی کے 4 واقعات رونما ہو چکے ہیں.حیرت انگیز اور غور طلب بات یہ ہے کہ خودکشیوں کا شکار ہونے والی چاروں نصیب میٹرک کی طالبات تھیں۔

دنیا بھر میں خودکشی اسکول جانے والے بچوں میں موت کی دوسری وجہ جانی جاتی ہے.وہ نوجوان بچے اور بچیاں جو خودکشی کا ارادہ کرتے ہیں وہ ضرور کوئی نہ کوئی انتباہی علامات ظاہر کرتے ہیں.والدین، اساتذہ اور دوست وہ لوگ ہیں جو ان علامات کو سمجھنے میں اور انکی مدد کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں. سب سے اہم بات یہ ہیں کہ ان علامات کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، اور نہ ہی انکو چھپانے کی کوشش کرنی چاہیے.اگر ہم سب،والدین، اساتذہ اور سٹوڈنٹس مل کر خودکشی کی روک تھام کو اپنی اولین ترجیح بنایئں،اور اپنے اپ کو صحیح فیصلے لینے کے قابل بناییں توہم اپنے پیاروں کو اس اقدام کے مستقل اور نا قابل تلافی اثرات سے بچا سکتے ہیں.آیئے اک جائزہ لیتے ہیں کہ خودکشی کرنے سے پہلے مریض کیا علامات ظاہر کر تا ہے۔ خودکشی کا رجحان کن لوگون میں زیادہ ہوتا ہے، اوراسکی روکتھا م میں ہم سب کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

انتباہی علاماتWarning Signs):)

خودکشی کا ارادہ رکھنے والے اکثر نوجوانان ایسے واضح اشارے دیتے ہیں جن سے انکی خودسوزی کی سوچ کا آسانی سے پتہ چل جاتا ہے۔

۱) خودکشی کی دھمکی! براہ ِراست(Direct)۔جیسا کہ ”میں اپنے آپ کو مار دونگا /گی۔ یا بلواسطہ (Indirect) جیسا کہ ” کّاش میں سو جاؤں اور صبح میری آنکھ نہ کھولیں ”

۲)خودکشی کی تحریر/یا منصوبہ بندی، آن لائن تحریر، فیس بک پوسٹ، ڈائری پوسٹ،کسی دوست کو خط۔

۳) پہلے بھی خودکشی کرنے کی ناکام کوشش۔

۴) آخری انتظامات کرنا، جیسا کہ اپنی قیمتی یا پسندیدہ چیزیں کسی کو تحفے میں دینا، نصیحت یا وصیت لکھنا

۵)موت کی باتیں کرنا،خودکشی کے طریقوں کے بارے میں معلومات لینا،

۶) رویے میں، شکل میں تبدیلی، جیسا کہ پریشان (Irritated)رہنا وغیرہ

وہ نوجوانان جن کو خودکشی کے خیالات اتے ہیں وہ براہ ِراست مدد لینے سے گُریز کرتے ہیں تاہم اُن کے والدین،بہن بھائی، اساتذہ اور یار دوست ان انتباہی علامات کو سمجھ کر ان بچوں کی جان بچانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔اگر کوئی بھی نوجوان اشارہ دے کہ وہ خود کشی کرسکتے ہیں تو مندرجہ ذیل تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔

۱) سب سے پہلا کام آپ خود پر سکوں رہیں،افراتفری کا شکار نہ ہو۔

۲)بچے سے پوچھے کہ کیا وہ خود کشی کرنا چاہتا ہے؟

۳)اپنی توجہ اسکو بچانے کی طرف مرکوز کریں بجائے اسکو ڈانٹنے یا الزام تراشنے کے۔

۴)اُسکا مسئلہ سن لیں،اور یقین دلائیں کہ مسئلے کا حل موجود ہے۔اور مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنے والا نہیں۔

۵)بچے پر مسلسل نظر رکھیں اور اسے اکیلا نا چھوڑ یں۔

۴)خود کو نقصان پہنچا نے والے آلات اُسکی پہونچ سے دور رکھیں۔جیسا کہ بندوق،زہر،

۷) بچے کے خود کشی کے خیالات کو چھپانے کی ہرگز کوشش نہ کریں بلکہ والدین،اساتذہ،یا گاؤں کے ڈاکٹر کے ساتھ مشورہ کریں اور اسی کام میں دیر نہ کریں۔

خودکشی کے اسباب!

ذہنی بیماریوں کے معالجوں کے مطابق خودکشی کے کئی اسباب ہوتے ہیں، جیسا کہ کوئی ذہنی بیماری،ڈیپریشن،اسٹریس،خاندان میں نا چاقی، نا گزیر حالات، کسی پیارے کی نا گہانی موت،جسمانی یا جنسی تشدد،نشے کی عادت اور گھریلو تشدد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خودکشی کیلئے سازگار ماحول کی دستیابی مثلاََ گھر میں بندوق کا ہونا، زہر کی دستیابی اور آسان رسائی سے بھی ا ن خیالات کو تقویت ملتی ہے۔

امریکی صحت کے ایک جریدے کی ۲۰۱۸ میں کی گئی تحقیق کے مطابق نوجنوانوں میں خودکشی کے جو وجو ہات سامنے آئے ان میں سے اکثر و بیشتر ھمارے معاشرے میں بھی عام ہیں۔نوجوان نسل کو اکثر زندگی میں درست سمت کے تغیوں میں چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے مثلاً اسکول کا انتخاب، رہن سہن، دوست یار وغیرہ۔ اسی دوران وہ خود مسلسل جسمانی اور ذہنی ارتقا کے عمل سے بھی گزر رہے ہوتے ہیں۔اُنہیں یقیناً اپنی شناخت بنانے، خود اعتمادی پیدا کرنے، زیادہ آزادی اور ذ مہ داری حاصل کرنے کے مشکل امتحان کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان سب کے باوجود اُن کا سامنا اعلیٰ توقعات کبھی کبھی بہت زیادہ اعلی توقعات سے ہوتا ہے جو کہ انکے والدین دوست یار،رشتدار اور اساتذہ نے ان سے رکھے ہوتے ہیں۔ایسے حالات نوجوانوں میں بہت زیادہ مایوسی،غیر یقینی،کشیدگی اور حالات قابو میں نہ رہنے والی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔

ان سارے چیلاننجز کا مقابلہ کرنے اور کامیابی سے ان جذبات سے نمٹنے کے لیے نوجوانوں کو جسمانی،ذہنی اور مالی سہار ے کی ضرورت ہوتی ہے اور ان سہاروں کے دو اہم ذرائع ہیں۔ گھر میں والدین اور اسکول میں اسا تذہ

خود کشی کی روک تھام میں اسکول کا کردار!

بچے اور نوجوانان اپنے دن کا ایک اچھا خاصا وقت سکول میں گزار لیتے ہیں۔خودکشی کے روک تھام میں اسکول کئی زاویوں سے مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔سب سے اہم کردار اسکول اور اساتذہ کا یہ ہے کہ بچوں کے لیے اسکولوں میں ایسا ماحول پیدا کیا جائے،کہ بچے امتحان میں زیادہ نمبر لینے،پہلی یا دوسری پوزیشن کے حصول،اساتذہ یا والدیں یا معاشرے سے شاباشی یا تعریفیں حاصل کرنے کو پڑھائی کا مقصد نہ بنا دیں۔جدید دور تعلیم کے اصولوں کے مطابق بچوں کی رہنمائی کریں جیسا کہ ضروری نہیں ہر بچہ ڈاکٹر یا انجنئیر ہی بنے، اساتذہ کرام اپنے بچوں کے اندر فطری استغداد (ٹیلنٹ) کو پہچاننے میں انکی مدد کریں،اور ہر بچے کو اس نظریئے سے دیکھے، اس سے توقعات بھی اسی کے حساب سے رکھیں،اور بچوں کو اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق آگے جاکر اپنے پیشے کا انتخاب کرنے کے لیے ابھی سے رہنمائی کا آغاز کریں۔اور بچّوں کو یہ یقین دلائیں کہ ایک کامیاب پیشہ ورانہ زندگی گزارنے کے لیے اچھے رویے کا ہونا،اپنے پیشے سے لگن، اپنی صلاحیتوں کے مطابق پیشے کا انتخاب،نظم و ضبط،سچائی،محنت،جذباتی ذہانت (motional intelligence) جیسے صفات کا ہونا زیادہ ضروری ہے بجائے زیادہ نمبر لینے کے۔اس سے بچوں میں قوت خود اعتمادی بڑھے گی اور خودکشی جیسے منفی خیا لات نہیں ائینگے۔

دوسرا کردار جو اسکول یا اساتذہ اس طرح ادا کر سکتے ہیں کہ بچوں کے لیے خود یا کسی ذہنی بیماری کے ماہر کی طرف سے مہینے میں ایک دفعہ ۲ یا تین مہینوں میں ایک دفعہ سیشن ضرور کروائیں، بچوں سے سوالات پوچھیں،ان کے جذبات کا اندازہ لگائیے اور ساتھ ساتھ رہنمائی بھی کرتے جائیں۔

تیسرا کردار اگر کسی بچے میں کوئی بھی ایسے علامات نظر انے لگے تو ضر ور اس بچے کی مدد کریں،اس پہ نظر رکھے،والدین کو بتا دیں، ذہنی بیماری کے ایکسپرٹ سے مدد لے لے۔چترال میں اغاخان ہیلتھ سروس میں کئی ذہنی بیماریوں کے ماہر خدمات انجام دے رہیں ہیں، اُن کو بلا کر امتحا نات کے دنوں میں خاص کر کے رہنمائی حاصل کریں۔

والدین کا کردار!

بچے کی خودکشی کرنے کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر اُن کے گھر والے ہوتے ہیں۔کیوں والدین بچے کی نفسیات،اُسکی پرورش،اُسکے ماضی کے بارے زیادہ معلومات رکھتے ہیں اسی لئے خودکشی کی روک تھام میں ان کا کردار بھی کلیدی ہے۔ چند ضروری مشورے میں والدین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا جن پہ عمل کر کے اپنے بچوں کو ذہنی تناؤ اور خود کشی سے بچا سکتے ہیں۔

۱) بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول قائم رکھے، بچوں کی تربیت ایسی کریں کہ وہ اپنی ہر بات آپ سے شیئر کریں،بچوں اور اپنے بیچ فاصلھ کم سے کم رکھیں۔

۲) اپنے بچوں کا موازنہ پڑوسی یا رشتدار کے بچوں کے ساتھ نہ کریں۔کیونکہ آپ کے بچے میں جو خوبیاں ہیں وہ ہوسکتا ہے دوسروں میں نہ ہو۔

۳) کوشش کریں اپنے بچے کی خوبیوں کی شناخت کریں،اُن کی حوصلھ افزائی کریں،اُن کی خامیوں پہ کوسنے کی بجائے خوبیوں پہ داد دیں۔

۴) بچوں سے حقیقت پسندانہ (Realistic), عمل کرنے کے قابل (Practical) توقعات رکھیں۔ ایسے توقعات نہ رکھیں کہ بچہ اُن کے بوجھ تلے دب جائے۔

۵) آپکا بچہ جو پیشہ اختیار کرنا چاہتا ہے،جو اُسکا شوق ہے کوشش کرے کہ وہ وہی کریں۔کوئی بھی پیشہ خودکشی سے سے بہتر ہے۔

۶) خود کشی کے انتباہی علامات کا پتہ ہو آپکو، اگر آپکو لگے کہ ان میں سے کوئی علامات آپکے بچے میں ہے تو اسے نظرانداز نہ کریں، مدد حاصل کریں، بچے کی زندگی بچانا اولین ترجیح ہے باقی چیزیں بعد میں۔

والدین،اسکول اور اساتذہ کے علاوہ یہ ہم سب کی معاشرتی ذمہ داری ہے، کہ ہم اپنے بچوں کو ایک ایسا معاشرہ دیں جس میں ہر پیشہ کی، ہر ہنر کی اہمیت ہو،عزت ہو، ایسی فضا قائم نہ کریں کہ کوئی اگر اسکول یا کالج میں پوزیشن لیں وہ سب کے آنکھوں کا تارا ہو اور جو کم نمبر لیں وہ نظر انداز ہو۔

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button