سفری داستاں، چلم استور سے جڑی یادیں
یہ تصویریں گذشتہ دن کی ہیں جب میں اور سوسن نے بچوں کے ساتھ براستہ دیوسائی سکردو کے لیے رختِ سفر باندھا تھا۔ استور کے آخری گاؤں خرم داس، چلم پھر شغما اور گلتری اور ہاں پھر دیوسائی سے ہوتے ہوئے سکردو تو ہم پہنچ گئے لیکن چلم میں ہماری یادیں گویا اٹک کے رہ گئیں۔ مجھے چلم نام سے مانوسیت بچپن سے اس لیے ہے کہ ہم بچے اپنے والدین کے ساتھ گرمیوں میں دیسی گھروں کی چھت پر سوتے وقت رات کو ریڈیو سنتے تو چلم سے فوجی بھائیوں کی فرمائش پر ریڈیو پاکستان گلگت سے مقامی زبانوں میں مختلف شاعروں کے گانے سنائے جاتے۔ جیسے صلاح الدین حسرت کے گانے کے لیے چلم سے صوبیدار پھولوک جان، حولدار گمبوری خان، لانس نائک سلامت جان اور سپاہی حسن بے تاب کا نام لیا جاتا اور پھر حسرت کی پُرسوز آواز سماعتوں سے ٹکراتی۔ ہمارے گاؤں اور آس پاس دیہات کے فوجی بھائی جب چھٹیوں پر آتے تو جہاں وہ سفید کپڑے، کالا واسکٹ اور پشاوری چپل میں ملبوس ہوتے تو وہاں اپنے ہاتھ میں سونیا یا پانچ سو تینتالیس ٹیپ ریکارڈر اور واسکٹ کے دونوں جیبوں میں کیسیٹیں بھر کر پورے گاؤں کا روز یاترہ کرتے، رشتہ داروں سے ملتے، چلم کی خوبصورتی کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے۔ ہم بچے ان کی اس عیاشی پر صرف سرد آہ ہی بھرتے۔ پھر محاز سے بھابھیوں کے نام ان کے گلابی اردو میں لکھے گئے خطوط بھلائے نہیں بھولتے۔ کیونکہ خط پڑھنے والا میں ہوتا تھا۔ بھابھیاں یہ خطوط کسی بڑے کو نہیں دکھا سکتیں۔ بچوں میں میری اردو شروع سے کچھ بہتر تھی، کیونکہ میں ان کے لیے صرف خطوط نہیں پڑھتا میں ان کا جواب بھی لکھتا۔ بھابھیاں جب خط لے کے گھر آتیں۔ چھوٹا ہونے کی وجہ سے یہ بے احتیاطی ہوجاتی کہ میں چسکے لے لے کر بلند آواز میں خط پڑھ رہا ہوتا تو وہ سر جھکائے شرمائے بڑی محبت سے اپنے محبوب شوہر کا خط سن رہی ہوتیں۔ میری اردو ادب سے لگاؤ میں ان خطوط کا بڑا ہاتھ ہے۔ میں ہمیشہ حیران ہوتا کہ خط کے ہر جملے پر یہ بھابھیاں اتنی کیوں شرماتیں۔ خیر ان کے شرمانے کا راز بہت بعد میں پتہ چلا۔ جب خود ان منازل سے گزرنا پڑا۔ خط کا ابتدائیہ بڑا کمال کا ہوتا تھا۔ کچھ سطریں آج بھی ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ ہیں: جیسے۔۔۔۔۔۔
’’میری پیاری یورمَس بِیگِیم! (فرضی نام)
السَّلام علیکم!
میں خیریت سے ہوں اُمید ہے کہ تم بھی خیریت سے ہوں گے (گی)۔ تمہیں بہت یاد کرتا ہوں۔ چلم کی خوبصورتی اپنی جگہ لیکن آپ کا (کی) یاد بہت ستاتا (ستاتی) ہے۔ کبھی کبھی خیال آتی (آتا) ہے کہ استعفیٰ دوں اور آپ کے پاس پہنچ جاؤں۔ لیکن کیا کروں فوجی زندگی بہت سخت ہوتا (ہوتی) ہے۔ میری ماں کا (کی) خدمت کرنا۔ باپ کو عزت دینا، بچوں کا خیال رکھنا۔ میں جسمانی لحاظ سے تو آپ سے بہت دور ہوں لیکن اپنی (اپنے) دل میں جھانکتا ہوں تو وہاں تم ہی ہوتی ہو۔ میرے دوست حولدار دیدار پناہ (فرضی نام) اور لانس نائیک رب نواز (فرضی نام) بھی سلام کہہ رہے ہیں۔ آپ کے جوابی خط کا انتظار کروں گا۔
آپ کا محبوب شوہر
سپاہی مس پناہ عرف گلابو (فرضی نام)
چلم استور‘‘
پھر جوابی خط جب بھابھیاں مجھ سے لکھواتیں۔ ان کا تذکرہ نہ ہو تو بہتر ہے۔ اللہ بھلا کرے۔ کیا زمانہ تھا۔ کیسے خالص لوگ تھے اور کیا پاکیزہ محبت تھی۔ پھر کیا ہوا کہ ہم نے ترقی کی۔ خط و کتابت کا یہ خالص رشتہ موبائل کی نذر ہوا۔ پھر بیبیاں اور بیویاں بھی ایسی بدلیں کہ ہر رونگ نمبر سے سویٹ ہارٹ کے ٹیکسٹ مسیج پر یوں اچھل جاتی ہیں کہ یہ گویا ان کے مزاجی خدا کی طرف سے سندیسہ ہو بازار کے چوراہے پر بیٹھے کسی لفنگے کی وقت گزاری نہ ہو۔
چلم میں یہی کٹھی میٹھی یادیں میں نے سوسن سے شئیر کیں اور خوب ہنسے۔ میں نے سوسن کو کہا کہ میں بھی فوجی ہوتا اور چلم یا گلتری سے پانچ چھ مہینے بعد تمہیں ایسا ایک خط لکھتا تو تم جواب میں کیا لکھتیں؟ سوسن نے کرب سے کہا کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ تمہاری اتنی لمبی جدائی برداشت کرتی میں تو خود چل کے تمہارے پاس محاذ جنگ پہنچ جاتی۔
مردِ کوہستانی برادرِ محترم رستم نامی کے ان اشعار کا اس سمے یاد آنا اچنبھے کی بات نہ تھی؎
خوابوں سے، دل و جاں سے، رگ و پے سے نکالوں
میں اتنے جہانوں سے اُسے کیسے نکالوں
کس طاق سے، کس شیلف سے، کس میز سے نامی
یادوں کو بھلا کون سے کمرے سے نکالوں
انہی یادوں کے ساتھ ہم سکردو کب پہنچے معلوم ہی نہیں پڑا۔ ہاں سدپارہ سے نیچے جب ہماری گاڑی نے ٹرن لی تو جہاں سکردو شہر روشنیوں میں نہائے ہمیں خوش آمدید کہہ رہا تھا وہاں تاروں بھرے نیلگوں آکاش بھی ہماری آمد پہ خوش تھا۔