زندگی گزاریئے مت، جینے کی کوشش کیجئے
یہ نومل کے چیری ہوں یا بونجی کی خوبانیاں، دنیور کے توت ہوں یا خپلو کے دیسی تازہ مسکہ گھی کے ساتھ لب دوز و لب سوز چائے اور دسترخواں پر دیسی تندور کی روٹیاں ہوں تو ہم سینکڑوں میل کی مسافت طے کرکے وہاں پہنچ جاتے ہیں اور رب کائنات کی ان انمول نعمتوں سے جہاں لب و دھن کو تر کرتے ہیں وہاں ان کی مٹھاس روح کی گہرائی تک اتر کے ٹوٹے بدن کی تکان کو دور کر دیتی ہے۔ یہی آج سکردو سے دو ڈھائی گھنٹے کی مسافت طے کرکے ہم جب سرینا ہوٹل خپلو پہنچے تکان سے ہمارا بدن ٹوٹ رہا تھا۔ جس طرح آغا خان کلچر سروسز والوں نے خپلو کے راجاؤں کی اجداد کی نشانی اس قلعے کو بحال کرکے اس مرتی تہذیب کو زندہ کر دیا ہے بالکل ویسے ہی خپلو کے دیسی تازہ گھی اور چائے نے ہمیں اندر سے بحال کرکے ہنسے پر مجبور کیا تھا۔ جوکہ ان تصاویر میں عیاں ہے۔ ویسے کسی نے بڑے پتے کی بات کی ہے:
’’زندگی سے کچھ وقت اپنے لیے ضرور نکالیں۔۔۔۔۔۔ اپنے گھر کی چھت پر بیٹھے (یا ہماری طرح کسی ہوٹل کی کھڑکی سے) باہر کا نظارہ کریں۔۔۔۔۔۔ لوگوں کے مکانات دیکھیں۔۔۔۔۔۔ آسمان میں اڑتے پرندے دیکھیں۔۔۔۔۔۔ کافی یا چائے کا کپ دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر حرارت محسوس کریں۔۔۔۔۔۔ اپنے لیے وقت نکالیں۔۔۔۔۔۔ اپنے آپ کو دُنیا کے جھمیلوں سے تھوڈی دیر کے لیے نکال کر اپنے اندر جھانکنے کی کوشش کریں۔۔۔۔۔۔ زندگی کی تلخیوں کو چائے کی چسکیوں کے ساتھ ختم کریں۔۔۔۔۔۔ اور اگر پھر بھی سکون نہ آئے تو اس خالی کپ کو دیکھیئے۔۔۔۔۔۔ جس طرح اس خالی کپ میں دوبارہ چائے بھرنے کی گنجائش ہے اسی طرح آپ کے اندر بھی زندگی اور خوشی بھرنے کی گنجائش باقی ہے۔۔۔۔۔۔ اپنے اندر کی خالی جگہوں کو پُر کرنا سیکھیئے۔۔۔۔۔ آپ زندگی کو انجوائے کریں گے۔‘‘
شاید یہی جذبہ ہمیں سفر در سفر کی لذتوں سے آشنا کرتا ہے کہ ہم ہر قدم پر زندگی کو ایک نئے زاویے سے محسوس کرنے لگ جاتے ہیں۔ زندگی ہر کوئی گزارتا ہے۔ ایک عاقل انسان زندگی گزارتا نہیں بلکہ زندگی کو جینے کی کوشش کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ جس طرح راجوں عظیم حکومت زوال پذیر ہوئی، جس طرح محل کی گردش پرانی ہوگئی بالکل اسی طرح ایک دن یہ انسان بھی فنا سے ہمکنار ہوتا ہے کہ رب کائنات نے فرمایا کہ کل نفس ذائقۃ الموت۔ میرے دوست پروفیسر حشمت کمال الہامی نے اس حقیقت کی خوب منظرکشی کی ہے؎
اے پیر مرد تیری جوانی کدھر گئی
تیرے شباب کی وہ کہانی کدھر گئی
رہتا تھا جس کے آنے کے تو انتظار میں
وہ لمبی لمبی رات سہانی کدھر گئی
اب ہوگئی ہے بولتی بھی آج تیری بند
پہلے کی گفتگو کی روانی کدھر گئی
گلشن سے اب بہار گئی آگئی خزاں
دن کا وہ راجہ، رات کی رانی کدھر گئی
راجوں کی وہ عظیم حکومت نہیں رہی
گردش محل کی تھی جو پرانی کدھر گئی
اب تو نہیں ہے شہر خموشاں کا بھی نشاں
اجداد کی وہ عمدہ نشانی کدھر گئی
آباد و شاد جس کی بدولت گھرانہ تھا
وہ گھر کی مالکہ وہ سیانی کدھر گئی
جس سے ملے بغیر نہ آتا تھا تجھ کو چین
جانِ جہان، تیری وہ جانی کدھر گئی
کہتا ہے تجھ سے تیرا بڑھاپا کہ اے بزرگ
وہ گل رخی، وہ غنچہ دہانی کدھر گئی
اہلِ کمال پوچھتے ہیں اہلِ زر سے آج
تیرا وہ گھر، وہ دولت فانی کدھر گئی
ان بے مثال اشعار کے ساتھ مجھے دیجئے اجازت۔ اپنا بہت سارا خیال رکھئیے گا۔