بلتستان کا موہنجوداڑو
تحریر: محمد نذیر
دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہ ہوگا جہاں دیومالائی قصہ کہانیوں کا تذکرہ نہ ہو پرانے وقتوں میں محدود وسائل،معلومات اور تعلیم و تحقیق میں کمی کی وجہ سے ایسے واقعات رونما ہوا کرتے تھے۔یہ واقعات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف روپ اختیار کر چکے ہیں اور لوگوں کی اکثریت آج بھی ان توہمات پر نہ صرف یقین کرتے ہیں بلکہ ان واقعات کو سچ بھی گردانتے ہیں۔دیومالائی سرزمین بلتستان جسے قدیم تذکرہ نگاروں نے تبت،پلولو،بلتی یول،،ننگ گون وغیرہ سے موسوم کیا ہے۔بلتستان کی تاریخ کی ابتدا سے توہمات کا تصور بہت زیادہ پایا جاتا رہا ہے۔یہ روایت بہت زیادہ مشہور ہے کہ بلتستان پر دیومالائی کردار”کیسر“ کی حکمرانی تھی ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دیوتاؤں کی نسل سے تھے اس وقت یہاں ”بون چھوس“ مذہب رائج تھا پھر مختلف مذاہب کے مبلغین کی تبلیغ سے بدھ مت، لامازم،زرتشت،اور چودھویں صدی عیسوی میں ایرانی مبلغ سید علی ہمدانی اور پیر سید محمد علی نور بخش کے ذریعے دین اسلام کی تبلیغ کا سلسلہ شروع ہوا اس کے باوجود اب بھی یہاں کے عمر رسیدہ افراد توہمات پریقین رکھتے ہیں اور اس کرہ ارض پر جنات کے ساتھ ساتھ ایک خیالی دیومالائی مخلق ہلا اور ہلامو کے وجود پر یقین رکھتے ہیں ہلایل یعنی دیوتاؤں کی سرزمین بلتستان میں آج سے چند سال قبل ہلا اور ہلامو کو خوش رکھنے کے لیے ہر گاؤں میں موسیقی کی محفلیں جمانا لازمی امر سمجھتا تھا عمر رسیدہ افراد کا یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ جن،دیو یعنی ہلا،ہلامو کبھی کھبار لوگوں کو اغوا کرکے گاؤں سے غائب کر دیتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ دیوتاؤں کی سرزمین بلتستان میں آبادی کا آغاز وسط ایشیا کی ان اقوام نے کیا جو گلگت،کاشغر،ہنزہ اور لداخ،کارگل کے راستوں سے بلتستان میں وارد ہوئیں اور یہاں آبادی کی بنیاد ڈالی۔گیالوشالبونے شگری بالا،شگری کلان چنداہ،کوروآسون چو اور لون چھے نے کھر بو اور کچوراآباد کیا۔ان کی طرز معاشرت،قبائلی وضع کی تھی لہذا جو جگہ جس نے آباد کیا اس پر اسی کی حکومت قائم ہوئی۔ان چاروں حکمرانوں میں سے زیادہ طاقت ور شکر گیالپو تھا آہستہ آہستہ نشیب و فرازکی زد میں آنے کی وجہ سے ان کی حکومت پورے بلتستان پر قائم ہوگئی۔ان کی سلطنت کا صدر مقام شگری بالا تمام خاندانوں کا دارالحکومت بن گیا۔صدر مقام سکردو کے مغرب کی جانب ایک بلند و بلا خوبصورت خطہ جیسے شگری بالا کہلاتا ہے جنت النظیر یہ وادی تقریباََ تین سو گھرانوں پر مشتمل ہے۔(1170سے لے کر1490)تک شگری بالا راجاؤں کی دارلسلطنت رہی 1490 کو جب راجا بہرام کا بیٹا ”بوخا“ راجا بن کر بلتستان پر حکمرانی شروع کی تو انھیں قزلی پول (برق نق) کے مقام سے پالکی میں بیٹھا کر شگری بالا کے اس تاریخی پتھر پر لائے جہاں قدیم الایام سے رسم تاج پوشی ادا کی جاتی تھی اس پتھر کو ”بڑوسی سنیس“کہاجاتا ہے اسی پتھر پر رسم تاج پوشی ادا کی گئی یہ تاریخی پتھرآج بھی شگری بالامیں موجود ہے۔کہاجاتا ہے کہ اس وقت موجودہ شہرسکردو میں کوئی آبادی نہیں تھی ”راجا بوخا“ نے موجودہ شہر سکردو کی آباد کاری شروع کر دی اور اس کے شمال میں ایک بلند مقام پر ایک عظیم قلعہ (1515 میں تعمیر کرایا اور اسی تاریخی قلعے کو قلعہ ”کھرپوچو“کا نام دیا گیا۔راجا بوخا نے اپنا دارلحکومت ”شگری بالا“ سے یہاں منتقل کیا لیکن رسم تاج پوشی شگری بالا کے اسی تاریخی پتھر پر ہوتی تھی لہذا 1836میں راجا احمد خان آخری تاجدار بنا تو اس کی بھی تاج پوشی شگری بالا کے اسی پتھر پر ادا کی گئی۔شگری بالا نہ صرف راجاؤں کی دارلحکومت رہی بلکہ ہمیشہ سے تاریخ کا حصہ بھی رہا۔شگری بالا آج بھی کئی ثقافتی اثرات اپنے اندر رکھتی ہے ان میں ”سنگ سنگ کژا(غار)مرقد شاہ بہرام،بڑوسی سنیس (تاج پوشی کا پتھر)اُوشو(درخت کا نام)گمبہ اور گو ما آستانہ وغیرہ شامل ہے۔شکر گیالپو نے اپنے رہنے کے لیے ایک محل تعمیر کرایا تھااس محل کے سامنے ایک بڑاپتھر موجود تھا اسے بڑوسی سنیس کہا جاتا تھا اسی پتھر پر ابراہیم مقپہ (جو کثرت استعمال سے اب مقپون بن گیا ہے)راجا کھوکھرسنگے،راجا غوطہ چو سنگے،راجابہرام شاہ،راجا بوخا۔۔۔آخری تاجدار سکردو راجا احمد خان تک رسم تاج پوشی ادا کی گئی۔سنگ سنگ کژا(غار) بلتی کے دو لفظ سے مل کر بنا ہے سنگ سنگ کے معنی ”روشن“ او ر کژا کے معنی ”غار“ کے ہے اس غار کا تذکرہ کسی کتاب میں موجود نہیں البتہ سینہ بہ سینہ جو روایت چلی ہے کہ زمانہ قدیم میں اس غار کے ذریعے لوگ سفر کرکے کھچول یعنی کشمیر جاتے تھے۔یہ غار آج بھی سینکڑوں مخفی راز اور تاریخی شواہد کے ساتھ موجود ہے۔اُوشو (درخت کا نام) اس مقام پر آج سے دس سال قبل تک گرمیوں میں شام کے وقت لوگوں کا ایک مجمعہ ہوتا تھا۔جہاں پر عمائدین شگری بالا ”پنچایت،جرگہ“ وغیرہ کے فیصلے بھی کرتے تھے۔شگری بالا کے عوام نے ”ہلچنگرہ“ چوپال کے لیے اس جگے کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ اس مقام پر اُوشو کے تین برے تناوردرخت موجود تھا اور گرمیوں میں میں یہاں بہت ٹھنڈ رہتا تھا ان تینوں درختوں کے حوالے سے سے یہ روایت مشہور ہے کہ تین اولیا کرام دین کی تبلیغ کے غرض سے وارد بلتستان ہوئے تھے کہا جاتا ہے کہ دشمن ان اولیا ئے کرام کے جان لینے پر تلا ہوا تھا اس لیے دشمنوں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے شگری بالا کے اسی مقام پر پہنچا اور سکھ کا سانس لینے کے لیے تینوں اولیااللہ اپنے سفری سامان زمین پر رکھے اور عصازمین پر گاڑھ کر تشریف فرماہی تھے کہ اچانک دشمن فوج ان کے تعاقب کرتے ہوئے یہاں پہنچی اور تینوں ولی اللہ مال اسباب چھوڑکر جان بچانے کی کوشش کی لیکن چند ہی قدموں کے بعد دشمن نے نے پیچھے سے وار کیا اور انھیں بے دردی سے شہید کیا گیا۔جس جگے پر انھوں نے اپنا عصا گاڑھا تھا وہ تینوں تناور درخت بن کر نکل آیا اور ان کے سامان جہاں رکھے تھے وہ پتھر بن گیا بعد میں اس جائے شہادت پر آستانے تعمیرکیے گئے۔ہر سال ہزاروں کی تعداد میں حاجت مند حضرات اپنی حاجتیں لے کر آتے ہیں اور درخت اور آستانے کے گرد منتیں و دعائیں مانگتے ہیں۔لوگوں کا خیال ہے کہ اس درخت کے بیج کھانے سے بے اولادجوڑوں کو اولاد عطاہوتی ہے۔