جڑاؤ ملک (اندھا کنواں)
یاسین کی تاریخ کے عجیب و غریب واقعات تہہ در تہہ آہستہ آہستہ کھُل رہے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ قدیم زمانے میں راجے یا حکمران اپنے دشمنوں کو طرح طرح کے عقوبت خانوں یا زندان میں ڈال کر سزائیں دیتے تھے بلکہ حکومت حاصل کر نے کی غرض سے سگے بھائی بھی ایک دوسرے کو سخت ترین سزائیں دیتے تھے یہاں تک کہ قتل بھی کیا کرتے تھے۔ انہی عقوبت خانوں میں سے دو عقوبت خانوں کو جڑاؤ ملک کہا جاتا تھا جو اب بھی ضلع غذر میں موجود ہیں، جن میں سے ایک ضلعی ھدکوارٹر گاہکوچ کے نزدیک شہر سے باہر گلگت کی طرف جاتے ہوے جو پہاڑی ہے اس کے دامن میں واقع ہے یہ جڑاؤ ملک میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے لیکن اُس کی وہ دہشت اب ختم ہو چکی ہے جو شاید سو سال یا دو سو سال قبل ہوگی جس میں لوگوں کو سزا کے طور پر زندہ در گور ہو نے کے لئے پھینکا جاتا تھا اور کہتے ہیں کہ پھر وہ کبھی واپس نہیں نکل سکتے تھے یا نہیں نکالے جاتے تھے، اُ س وقت بھی جب میں دیکھا تو اس میں چند ایک ہڈیاں تھیں جو کسی انسان کی ہڈیا معلوم ہو تی تھیں۔ لیکن دوسرا سلطان آباد (ہویلتی) یاسین کے پہاڑ کی چوٹی پر ہے اس پہاڑ کو جو کہ شاید سفید سنگ مرمر کا ہے کی نسبت سے برومے چھر یعنی سفید پہاڑ کہا جاتا ہے کے چوٹی پر واقع ہے۔
جڑاؤ ملک کیا چیز ہے: یہ ایک قسم کا اندھا اور سوکھا کنواں ہے، جو کہ بہت گہرا ایک سوراخ کی شکل میں پہاڑ کے اندر گیا ہوا ہے یہ عمودی شکل کا سوراخ یا کنواں ہے گاہکوچ والا جڑاؤ ملک تو تقریباََ ختم ہے لیکن سلطان آباد کے پہاڑ پر واقع یہ کنواں اب بھی موجود ہے جو چند صدیوں پہلے جب زندان کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان سوراخوں میں حکمران اپنے مخالفین کو سزا کے طور پر ڈالتے تھے جو شاید باند ھ کر ڈالتے ہوں گے تاکہ کسی بھی طرح اس کا سراغ نہ مل سکے ،باندھ کر ڈالنے کا میں اس لئے لکھ رہا ہوں سلطان آباد کے اس عقوبت خانے میں لوگ اتر کر واپس نکل آتے تھے اور یہ بھی شنید ہے کہ گڑریا جب بکریا چرانے کے لئے لے کر جاتے تھے تو وہ اس میں کوئی سخت جان اور پہاڑوں پرچڑھنے کا ماہر قسم کا بندہ اس میں اتار کر اندر سے برف حاصل کرتے تھے اور پانی بنا کر پیتے تھے، یہ بات تحقیق طلب ہے کہ کیا اس سلطان آباد والے جڑاؤ ملک میں انسانی ڈھانچے یا ہڈیا ں موجود ہیں یا اس میں موجود برف کے تہہ کے نیچے ہیں، کیو نکہ ابھی پرانے لوگ تقریباََ کم ہیں جنھوں نے اس کو اندر سے دیکھا ہو۔ یہ ساری باتیں ہم نے اپنے بزرگوں سے سنی ہے جو وہ ان عقوبت خانوں کا ذکر کیا کرتے تھے۔ سینہ بہ سینہ سنی ہوئیں کہانیاں ہیں۔جو لوگ اس زندان میں اُتر نے کی کوشش کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ برف تک مشکل سے رسائی ہوتی ہے اور اندر سے انتہائی ٹھنڈی ہوا آتی ہے اور اس کی گہرائی کا کوئی اندازہ نہیں، جہاں سے برف نکالتے ہیں، وہاں سے بہت نیچے تک ہے اور اس کی گہرائی تک کوئی نہیں پہنچ سکا ہے۔ برف تک رسائی کافی لو گوں نے حاصل کیا ہے
یہ بھی شنید ہے کہ بعض لوگوں نے اس میں اترنے کی کوشش کی تو ایک بہت بڑا سانپ ان کو نظر آیا اور وہ بھا گ گئے ان میں سے ایک میرا سگہ چچا دولت جان مرحوم جو بکریاں چرانے گیا تھا کو پیاس لگ گیا تو اس نے سوچا کہ شاید جڑاؤ ملک سے کچھ برف حاصل کر سکے اور وہ جباس میں اترنے لگے تو ایک بہت بڑا سانپ انھوں نے دیکھا اور مشکل سے جان بچا کر بھا گیا اور جب اس نے اس سانپ کو دیکھ کر گھبراہٹ میں چیخ مارا تو اس کے دو کتے بھونکتے ہوے دوڑ کر آگئے چو نکہ یہ سانپ اس سوراخ سے نکل کر ان کا پیچھا کرنے لگا تھا اور ان دونوں وفادار کتوں نے بھونکتے ہوے اس سانپ پر حملہ کیا تو وہ بھاگ کر اس سوراخ میں گھس گیا اور دوسرا بندہ میر اچچا زاد بھائی احمد جان جو ابھی حیات ہیں کا کہنا ہے کہ اسے بھی پیاز نے ستایا تو یہ سوچ کر کہ کچھ برف شاید مل جائے اس سوراخ کے دہانے پر گیا تو اس نے بھی اس کے اندر سانپ دیکھا اور جلدی سے وہان سے بھا گ کر دور نکل گیا۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ سانپ عر صہ دراز سے اس جڑاؤ ملک میں گاہے گاہے نظر آتا رہا ہے وللہ عالم بالصواب، اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اس سوراخ سے قریب ہی چرے کوٹو ہے جس کا ذکر میں نے الگ سے کیا ہے چرے کوٹو سنتری کا پوست یا فوجی نقطہ نظر سے مشاہداتی چوکی ہے اور یہ قرین از قیاص ہے کہ شاید یہ مشاہداتی چوکی ان قیدیوں پر بھی نظر رکھتے ہو ں گے جو اس میں ڈالے جاتے تھے کہ کہیں نکل کر بھا گ نا جائیں۔