لال دوپٹہ اُڑ گیا رے تیرا ہوا کے جھونکے سے!
نوٹ: ڈاکٹرز خصوصیت سے اس تحریر کو ملاحظہ فرمائے۔
سکردو سے پہنچ کر پہلی فرصت میں سفری روئیداد اور خصوصاً آشا اور آذین کی شرارتیں آپ سے شیئر کرنی تھیں لیکن راستہ بھر شرارتیں اور لال دوپٹے گلے میں ڈالے پیریانکا چوپڑا کی نقلیں اتارنے والی آشا کو کیا ہوا کہ گلگت کی پہلی رات وہ بخار میں ایسی تپتی رہی کہ ہم بھی ساری رات جاگتے رہے۔ اگلے دو دن بھی ہسپتال، گھر اور کلینک کی خاک چھانتے گزر گئے۔ اللہ پاک کا احسان ہے کہ آشا نے بخار کی کیفیت سے مکمل طور پر نکل کے ایک بار پھر لال دوپٹے سے کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ زیر نظر تصویر استور میں چلم کے قریب کھینچی گئی جو ان شرارتوں کی شاہد ہے۔
ساری دنیا کے بچے ایک جیسے ہوتے ہیں شاید۔ پہلے شرارت پھر رونا دھونا، اور اگر بخار ہو تو ماں باپ کو بھی رلا دینا۔
پچھلی کسی پوسٹ پر کافی دوستوں کی طرف سے تشویش بھرے کمنٹس آئے کہ ہم شاید آشا کا خیال نہیں رکھتے۔ خود محفوط جگہ پر بیٹھ کر آشا کو دریا کے قریب بٹھانا اتفاقیہ نہیں تھا جان بوجھ کر بچوں کو خطرات سے خود روبرو ہونے کا ڈھنگ سکھانا بھی وقت اور حالات کی ضرورت ہے۔ ورنہ آج کی دُنیا کے بچے کانچ کی طرح نازک ہوکر زمانے کی سختیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اور پھر انسان جب رب سے رشتہ استوار کرتا ہے وہ پھر ایسے خطرات کو انجوئے کرتا ہے۔ اشفاق احمد نے کہیں لکھا تھا کہ پہلے زمانے میں جب ہمارے ہاتھ سے روٹی کا ٹکڑا زمین پر گر جاتا تھا تو ہماری مائیں ہمیں ایک تھپڑ بھی ریسد کرکے وہ ٹکڑا دوبارہ ہمیں تھماتیں اور ڈانتیں کہ بیٹا یہ رزق ہے اس کی بے حرمتی پر اللہ میاں ناراض ہو جاتے ہیں۔ ہم خوشی خوشی روٹی کا ٹکڑا اٹھاتے اور کھاتے۔ مگر آج کی مائیں کیا کرتی ہیں۔ جب بچے کے ہاتھ سے روٹی کا ٹکڑا نیچے گر جائے اور بچے اس کو اٹھا کے دوبارہ کھانے کی کوشش کریں تو سامنے صوفے پر بیٹھی ڈائجسٹ پڑھنے والی مائیں بڑے ناز و نعم سے ڈائجسٹ سے نظریں اٹھاکر بچے کو ڈانتی ہیں کہ بیٹا نہیں جراثیم ہیں۔ اشفاق احمد تشویش بھرے لہجے میں لکھتے ہیں کہ کیا زمانہ آگیا ہماری مائیں اللہ میاں سے ڈرتی تھیں آج کی مائیں جراثیم سے ڈرتی ہیں۔
خوش قسمتی سے ہمارا شمار بھی اللہ میاں سے ڈرنے والوں میں ہے جراثیم یا دریا سے ڈرنے والوں میں نہیں۔ احباب کی محبتوں کا از حد شکریہ کہ انہوں نے آشا کے لیے اپنی فکرمندی کا محبت سے اظہار کیا۔ ہم یقیناً ان کی محبت کے مقروض رہیں گے لیکن گستاخی معاف کیجئے کہ ہم زندگی کو تھوڑا اپنے انداز میں گزارنے کے عادی ہیں۔ کافی پہلے کسی شعر میں اس کا اظہار بھی ہوا ہے؎
روایتوں سے کریمی کو اختلاف رہا
اسی لیے تو زمانہ رقیب ہوتا ہے
جاتے جاتے ان سطور میں ایک اور اہم بات بھی آپ سے شیئر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ آشا کے بخار کی وجہ سے جب ہم ایک سرکاری ہسپتال پہنچے تو دن کے بارہ بج رہے تھے، اوپر سے جمعۃ المبارک بھی تھا۔ ہم نے سوچا اس سمے ڈاکٹروں کا ہسپتال میں موجود ہونا ممکن نہیں ہاں معجزہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ہم جس سماج میں رہتے ہیں وہاں پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے زیادہ نماز پڑھنا زیادہ اہم ہے۔ مریض بھلے بستر مرگ پر آخری سانسیں لے رہا ہو لیکن ڈاکٹر نماز کے بہانے ایسے غائب ہوجائیں گے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ لیکن آج خلافِ توقع ایک ڈاکٹر موجود تھا۔ میری ایک کزن مذکورہ ہسپتال میں جنرل نرس ہیں انہوں نے ہمیں ڈاکٹر عبدالباری سے ملوائی۔ دھان پان سے کچے عمر کے اس خوبصورت نوجوان سے ہماری پہلی ملاقات تھی۔ اور میں نے اپنی کزن کو خبردار کیا تھا کہ وہ ان سے میرا تعارف نہیں کرائیں گی۔ میں اپنی شہرت کا فائدہ اٹھانا نہیں چاہتا، میں ایک عام شہری کی طرح ڈاکٹر سے ملنا چاہتا ہوں، ڈاکٹر کو پرکھنا چاہتا ہوں۔ میری توقعات کے برخلاف جس خلوص اور پروفیشنل انداز میں ڈاکٹر نے آشا کا معائنہ کیا، پھر شام کو جب آشا کی طبیعت دوبارہ بگڑ گئی۔ ہم ایک دفعہ پھر ڈاکٹر عبدالباری سے ان کے کلینک میں روبرو تھے۔ ہنس مکھ اور ایک ایک چیز کے بارے جس پروفیشنل انداز میں انہوں نے پوچھا۔ وہ انداز بتا رہا تھا کہ اس بدنام زمانہ پروفیشن میں اچھے، باکردار، قابل اور پروفیشل لوگوں کی آمد ہوئی ہے جوکہ خوش آئند ہے اور ہمیں امید ہے یہ نوجوان ڈاکٹرز اس مقدس پروفیشن کو نماز کے بہانے سے گھر بھاگ جانے، مریضوں کے ساتھ ہتک آمیز رویہ رکھنے اور ہسپتال سے زیادہ کلینک میں وقت گزارنے کے رویے کو بدل کر رزقِ حلال کو اپنا شعار بنائیں گے۔ ان نوجوان ڈاکڑوں میں ڈاکٹر امین ہنزائی، ڈاکٹر ضیا، ڈاکٹر عبدالباری، ڈاکٹر محبوب (پروفیسر عبد ال جلال سید کے صاحبزادے)، ڈاکٹر موسیٰ کریم، ڈاکٹر مہتاب وغیرہ امید کی کرن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم ان نوجوان ڈاکٹروں کے لیے دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ پاک انہیں ڈاکٹر سے زیادہ ایک اچھے انسان بن کر خدمت خلق کو اپنی پروفیشنل ذمہ داری سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ پرانے ڈاکٹرز کام چور تھے۔ ایسا بالکل بھی نہیں۔ ہم ڈاکٹر غلام حیدر، ڈاکٹر رفیع، ڈاکٹر رحمان، ڈاکٹر مظفر، ڈاکٹر فیض امان، ڈاکٹر حمید بٹ (مرحوم)، ڈاکٹر شکراللہ بیگ (مرحوم)، ڈاکٹر شاہ فرمان وغیرہ کی خدمات کو سلام پیش کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ان باکردار ڈاکٹروں کی تعداد قلیل ہے جبکہ بدتمیز اور نماز کے بہانے ہسپتال سے رفو چکر ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ۔
لگے ہاتھوں ایک آنکھوں دیکھا حال سنئے۔ ایک آدھ مہینے پہلے امی جان کی آنکھوں کا چیک اپ تھا۔ امی کو لے کر میں جس ڈاکٹر کے پاس گیا۔ وہاں پہلے سے ایک خاتون اپنے بیٹے کو لے کر حاضر تھی اور ڈاکٹر کی منت کر رہی تھی کہ بچے کے لیے مجھے کیا کرنا چاہئیے۔ کیسے خیال رکھوں وغیرہ وغیرہ۔ ڈاکٹر بڑے غرور سے اس خاتون کو ڈانتے ہوئے کہہ رہے تھے بچہ آپ کا ہے اور پوچھ مجھ سے رہی ہو۔ ڈاکٹر نے نہ چاہتے ہوئے انگریزی میں کچھ بڑبڑایا۔ خاتون نے پھر گزارش کی کہ محترم ڈاکٹر صاحب آپ مجھے شینا میں سمجھائے۔ انگریزی میری پہنچ سے دور ہے۔ اب اس بدتمیز ڈاکٹر کا غصہ دیدنی تھا۔ کہنے لگا تم مسلمانوں نے چودہ سو سالوں میں صرف چار پائی اور لوٹا ایجاد کیا ہے۔ کوئی میڈیسن نہیں۔ میں انگریزی ادویات کو شینا میں کیسے سمجھا سکتا ہوں۔ یہ جہاں ڈاکٹر کا کسی خاتون کے ساتھ ہتک آمیز رویہ تھا وہاں اسلام کی تاریخ سے دوری کا ثبوت بھی تھا۔ اس اَن پڑھ ڈاکٹر کو کون سمجھائے کہ سائینس کی بنیاد ہی اسلام نے رکھا۔ آپ دسویں صدی تک کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیجئے آپ کو ابنِ الہیثم، نصیرالدین طوسی اور اس قبیل کے کئی دیگر سائینسدان ملیں گے۔ ہاں یہ الگ بحث ہے کہ جس دن ہم نے سوچنے پہ پابندی لگائی اس کے بعد ہم نے مُلّا تو بے شمار پیدا کیے اسکالرز نہیں۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ بس جاتے جاتے صرف یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم جس بھی پروفیشن سے منسلک ہیں ہمیں اپنے پیشے سے مخلص ہوکر ایسا کام کرنا چاہئیے کہ عبادت ہمارے کام میں نظر آجائے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر آپ پوری زندگی مسجد کے اندر ہی رہیں، ہزار حج کریں، سال بھر روزے رکھے اللہ کے ہاں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ اللہ غفور و رحیم ہے وہ آپ کی نماز کو معاف کر سکتا ہے، آپ حج نہ کریں اس کی رحمت جوش میں آسکتی ہے، آپ روزے میں کوتاہی کریں وہ بخشش کرسکتا ہے لیکن اگر آپ نے اس کی مخلوق سے زیادتی کی ہے تو وہ کبھی معاف نہیں کرسکتا۔ دوست محترم جمشید دکھی نے بڑے پتے کی بات کی ہے؎
روزہ، نماز، حج تو خدا کے حقوق ہیں
خدمت میں آدمی کی ہماری نجات ہے
اللہ پاک ہمیں حقوق اللہ سے زیادہ حقوق العباد کی آدائیگی کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین!