کالمز

فیشن وقت کی ضرورت ہے یا نہیں؟

از رضوان علی

لمبے بکھرے بال جن پر مختلف رنگ کی  پالش لگی ہوئی, فٹے ٹائڑ جینز پہنے ہوئے, ایک کان میں بالی لگی ہوئی,شرٹ پورے بندن سے چپکی ہوئی , شرٹ کی سب سے اوپر والی بٹن کھلی ہوئی, ہاتھوں میں عجب قسم کے دھاگےباندھے ہوئے,چہرے پر داڑھی کی ڈیزائن بنائی ہوئی اور پینٹ اتنے ٹائڑ کہ جب بندہ دور سے چلتے ہوئے آئے تو لگتا ہے پلاسٹک سرجری  کےذریعے پینo9ٹ چپکائی ہوئی ہو- اس پورے پروسس کو پورا کرنے کے بعد جب  کوئی  نوجوان لڑکا  معاشرے میں چلتا ہیں تو واہ واہ  کی جاتی ہیں اور اس کو فیشن کا نام دیا جاتا ہے-یہ سب کرنے والے بندے کو سٹائلش کے ٹائٹل سے نوازا جاتا ہیں-

دور جدید جس کو ٹیکنالوجی کا دور بھی کہاجاتا ہے -سائنس نے اتنی ترقی کی ہے کہ سائنس دان دوسرے سیارے پر زندگی گزارنے کی کوشش میں ہیں-اسی طرح  دور جدید میں سٹائل (فیشن) بھی اسی کوشش کی طرح عروج پر ہیں  بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے آج کل نہ صرف ہمارے مرد حضرات اس وبا کا شکار بن چکے ہے بلکہ یہ بیماری ہماری جوان خواتین میں کینسر کی مرض کی طرح پھیل رہا ہیں- آج کل جو لباس زیب تن کیا جاتا ہیں جس کا  ہمارا  دین اجازت ہی نہیں دیتا- پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اسلامی ریاست میں بے حیائی کی کوئی گنجائش نہیں ہے چونکہ فیشن بے حیائی اور بے شرمی کو فروغ دیتا ہیں- ہمارے طلباو طلبات کو اپنے پڑھائی اور ذمہ درایوں کا اتنا خیال نہیں جتنا ان کو فیشن ایبل اور سٹائلش دیکھنے میں ہیں- کیا ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ پاکستان کو دو قومی نظریہ پہ قائم کیا  گیا -جس کے مطابق مسلمان دنیا کے تمام قوموں سے الگ ہیں ان کا رہن سہن,ثقافت,مذہب,بول چال ,کھانا پینا  وغیرہ کسی بھی قوم سے نہیں ملتا- پھر آج ہمارے ہی یوتھ کیوں ان سب کو بھول کر مغریبی لباس کو زیادہ ترجع دینی لگی ہیں- کیا یہ غلط نہیں ہے کہ اپنے ثقافت کو بھول کر دوسروں کے ثقافت کو اپنانا؟ کسی بھی قوم کی پہچان اس کی ثقافت اور رہن سہن سے ہوتی ہے-آج ہم ماشااللہ سے اپنے  ثقافت کا گلہ اپنے ہی ہاتھوں سے گھوٹ رہے ہیں-ہمارے نوجوان خواتین تعلیمی اداروں کے چکر کم اور بیوٹی پالر کے چکر زیادہ کاٹ رہی ہے –

ساتھ  ہی یہ کہہ دوں تو بلکل غلط نہیں ہو گا کہ ہمارے بہت سے یوتھ یونیورسٹیوں  میں داخلہ بھی محظ فیشن کرنے اور فیشن ایبل دیکھنے   کے لئے لیتے ہیں-کوئی بھی قوم  جب زوال کا نشانہ بنتا ہے تو اس قوم یا ملک پر  وہ زوال آسمان سے نہیں اترتا یہی زوال کی ابتدائی نشانیاں ہیں- ہمارے معاشرے میں تعلیمی ادرے اور لائبیریاں  بہت قلیل ہے جبکہ ہمیں ہر دوسرے گلی میں بیوٹی پالر اور لیڈز شاب بہت ملتے ہیں- کوئی مشہور اور اچھی کتاب جب ہمیں چائے ہوتی ہے تو  اس کو ڈھونڈتے ہوئے پورا ہفتہ گزرتا ہیں ہمیں بہت سے اسٹیشنریز کا چکر کاٹ لینا ہوتا ہیں لیکن جب فلاح سلیبیرٹی کی فلاح فلم میں زیب تن کیے ہوئے بے حیاہ لباس  خریدنا ہو تو پہلی ہی شاب میں مل جاتے ہے ہمارے معاشرے میں جب کوئی  نئی کتاب چھپتی ہے تو  ہمارے ہونہار طالب علموں کو کوئی علم نہیں ہوتا لیکن جب کوئی نیا فیشن آیئے اس کا علم بہت جلد  ہوتا ہیں کیا یہ زوال کی نشانی نہیں ہے-

 کسی بھی قوم  کو تباہ کرنے کے لئے اس کے ثقافت کو بولا دینا ہوتا ہے جو آج ہمارے معاشرے میں ایک ابھرتا ہوا مسلہ بن کے سامنے آرہا ہے -یہ بہت بڑی سازش کی جارہی ہے جس کو ہم آج  فیشن سمجھ کر اپنے روزمرہ زندگی میں عمل کیے جارہے ہیں-ہمارے یوتھ کو بیدار ہونا ہوگا اور اس وبا کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا ہو گا ورنہ یہ ہو گا کہ چند سالوں میں ہم اپنے ثقافت کو بھل جائے گے اس وقت افسوس کرنے سے بہتر ہو گا کہ ابھی ہی جاگ جائے ,اس سازش کو سمجھ جائے اور اس کو اپنی زندگی سے دور پھینگ دے-کیا ہمارے لباس کو مغریبی لوگوں نے  کبھی زیب تن کیا ہے؟ جواب ہر گز نہیں ہو گا- یہ بہت سمجھنے والی بات ہے کہ جب وہ ہمارے ثقافت کو برداشت نہیں کرتے تو ہم کیوں فیشن کا نام دے کر ان کے لباس کو اپنے ثقافت کا حصہ بنائے-  آزادی کے بعد مغریبی لوگ ہمارے معاشرے سے اٹھ کے چلے گئے لیکن اپنے ثقافت کو یہاں ہی چھوڑ دیا یہی وقت ہے ان کے اس تقافت کو ہم دور کر دے اسی میں ہماری کامیابی ہیں-ہمارے نوجوان خواتین و حضرات سلیبیرٹی کے پہنے ہوئے کپڑوں اور جوتوں کو پہن کر ,ان کی بنائی ہوئی ہیر کاٹینگ  بنا کر یوں فخر محسوس کرتے ہے کہ اگرکوئی کشمیر  بھی آزاد کرے تو بھی اتنا فخر نہیں کرے گا- جس تیزی سے ہمارے نوجوان فیشن میں تبدیلی اور ترقی کر رہے ہے مجھے ڈر ہے کہ کچھ ہی سالوں میں اس ملک کے  ثقافت کو جڑ سے ہی ختم  کر کے کے برطانیہ کے لباس کو  ہی نہ اپنائے- لباس کو جسم ڈھپنے کےلئے پہنا جاتا ہے مجھے بہت سے لوگوں کو دیکھ کر تعجب ہوتا  ہے کہ وہ بندن کو چھپانے کے لئے نہیں بلکہ  بند دیکھانے کے لئے لباس پہنتے ہے- ہمارے نوجوان لڑکے پنٹ تو پہنتے ہے لیکن گھٹنون پہ فٹے ہوئے ہوتے ہے یہ بے حیائی نہیں تو اور کیا ہے- بیوٹی پالر کے چکر, سلیبیرٹیوں کے نئے ہیر سٹائل کا انتظار, سلیبیرٹیوں کے نئے پہنے ہوئے بے حیا کپڑوں کی تلاش,نئے ہیر پالش اور کریم کی تلاش جب تک ترک نہ کر  دے تو ہمارے درمیان قائداعظم محمد علی جناح, علامہ ڈاکٹر محمد اقبال,قدیر خان,سر سید احمد خان جیسے ہیرو کھبی پیدا نہیں ہونگے اور جو پیدا ہونگے وہ عام لوگ ہی پیدا ہونگے-

فیشن کا مسلہ آج کے دور میں بہت بڑا مسلہ بن چکا ہے جس پر قابو کرنا بہت ضروری ہے-اگر اس مسلے کا حل نہ ڈھونڈا جائے تو آنی والی نسل بے حیائی کے اول درجے پہ ہونگے- میری گونمنٹ آف پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں فیشن پر سختی سے پابندی لگائے- تعلیی اداروں میں پردے کو لازم قرار دیاجائے-اس سے یہ ہو گا کہ ہمارے نوجوان نسل اپنے ثقافت کو بھی بھول نہیں جائے گے اور مسلمان قوم دوسرے قوموں سے بلکل الگ دیکھے- ملک پہلے سے ہی مقروض ہے اور  لوگ   تعلیم سے بھی زیادہ بجٹ فیشن پہ خرچ کرتے ہیں چوکہ فیشن کرنا فضول خرچی ہے انہی پیسوں سے جو فیشن پر خرچ کیا جاتا ہے کوئی فلاحی کام کی جا سکتی ہے   میرے مطابق فیش بلکل ہی غلط ہے اور میں فیشن کی مخالفت کرتا ہوں- آخر میں میری نوجوانوں یوتھ  سے یہ گزارش ہے کہ وہ غیر مسلم ایکٹر اور ایکٹرسز کو اپنی زندگی میں نمونہ نہ بنائے- اسلام ایک پاکزہ دین ہے اور ہمیں فخر ہے کہ ہم  حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امتی ہے چونکہ ہمارے پیارے نبی پورے دنیا کے لئے نمونہ ہے بحثیت مسلمان ہم پر فرض ہی کہ ہم  حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی زندگی میں نمو نہ بنائے- قرآن اور سنت کے مطابق اپنی زندگی گزارے نہ کی مغریبی لباس کو فیشن سمجھ کر اپنائے اور  فیشن سمجھ کر دن بدن عجیب و غریب حلیہ بنائے

اللہ تعالی ہم سب کا حامی رہے آمین

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button