گشنجے دن (باز کا پتھر)
گشنجے دن (باز کا پتھر) ایک ایسا پتھر ہے جو کہ چٹان نما ایک ستون کے اوپر استادہ ہے ایسا لگتا ہے کہ کسی نے اس چٹان کوتراش کر اس کو ایساشکل دیا ہے جس کے اوپر ایک بڑا پتھر رکھا گیا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے یہ چٹانوں کی شکست و ریخت کے عمل سے گذر کر کئی ہزاروں سال بعد شاید ایسی شکل اختیار کر گئی ہے۔ چٹانوں کے اس عمل کی وجہ سے اس کے اردگرد سے مٹی اور پتھر جدا ہو کر موجودہ شکل ا ختیا ر کی ہو۔ او ر اس پتھر کے نیچے والایہ سخت چٹان ایک ستون کی شکل میں محفوظ ہے۔
اس چٹان کے بارے میں بزرگوں کا کہنا ہے کہ یہ زمانہ قدیم سے اسی طرح ایستادہ ہے۔ اور اس کو گشنجے دن اس لئے کہاجاتا ہے کہ اس پتھر کے اوپر باز بیٹھتا تھا اور جب چکور اوپر پہاڑوں سے تنگ آکر نیچے والی بنجر زمین جس کو بروشاسکی میں داس کہا جاتاہے میں چرنے آتے تھے تو باز اس پتھر سے اڑان بھر کر ان چکوروں کا شکار کیا کرتا تھا یا زمینداروں کی مرغیاں کہیں کھیتوں میں دکھائی دیتیں تو پھر ان کی شکار کے لئے اس پتھر سے اڑان پھر کر ان پر جپڑتا اور شکار کرتا اس لئے اس کا نام گشنجے دن یعنی باز کا پتھر پڑگیا آسان لفظوں میں باز کا بسیرا اس پتھر پر ہوا کرتا تھا۔
گشنج بروشاسکی میں باز اور دَن پتھر کو کہا جاتا ہے۔ باز کے کئی اقسام گنے جاتے ہیں سب سے چھوٹا چپ، اس سے تھوڑا بڑا بورج، اس سے بڑا گشنج،اس سے بڑے کوسایورج، پھر تیغون سایورج اور بجگی سایورج کہا جاتا ہے اس لئے شاعر کہتا ہے ”(ننو تیغون سایورج مو چولیکی جنگلو مو جھین)“ تو ان بازوں کی مسکن کی وجہ سے اس پتھر کو گشنجے دن کہا جاتا ہے۔ اب جب کہ اس سے قبل اسی قسم کا ایک پتھر کو کسی صاحب نے نازبر نالہ میں دکھایا تھا اور جب میں اپنے گاؤں کے اوپر نالے میں پایا جانے والا اس پتھر کی نماٗش کی تو جناب ڈاکٹر اسد الرحمان نے یہ لکھا کہ سندی میں بھی ہے اس کے لئے معراج صاحب جو کہ بیک وقت خلیفہ بھی ہے اور مولوی بھی اور صحافی بھی ہے کی خدمات حاصل کئے جا سکتے ہین تو میں نے ان سے گذارش کیا ہے جس نے کچھ مہلت مانگا ہے اور پھر چترال کے مشہور پروفیسر ممتاز حسین صاحب فر ماتے ہیں کہ ان کے علاقے بھی اسی طرح کا پتھر تھا لیکن زلزلے کا نذر ہو گیا اور وہ افسوس کرتے ہیں، تو احباب مدد کریں کہ کیا ان پتھروں میں کوئی قدرتی یا تاریخی کچھ مماثلت پایا جانے کا امکان ہے
ملی کیانز بک: ملی بروشاسکی میں ذہر کو بھی کہا جاتا ہے اور دوائی کو بھی اور بک یا شنگ، نالہ، ایسانالہ جو عام حالت میں خشک ہوتا ہے اور برسات کے دنوں میں بارش کا پانی آتا ہے اور کئی دفعہ طوفانی شکل اختیار کرتا ہے اور سیلاب کی صورت میں مٹی اور بڑے بڑے پتھر ساتھ لاتا ہے، تو اس خشک نالے کو ملیکیانز بک اسلئے کہاجاتا ہے کہ اس میں ایک خاص قسم کا ذہریلہ گھاس یا جڑی بوٹی پائی جاتی تھی جو کہ اب ناپیدہو چکا ہے اسلئے ذہریلا نالہ یعنی ملیکیانز بک کہلاتا ہے اس ملی کی نسبت سے بعض دفعہ بد دعا کے طور پر بھی ملی کو استعمال کیا جاتا ہے آپ کو یہ چیز ملی ہو یعنی فلاں شے تمھیں ذہر ہو وغیرہ، اس نالے سے کچھ اونچائی پر اس پتھر کے سامنے کی طرف ایک چھوٹا سا غار نما جگہ ہے اس کو بایلتک کہا جاتا ہے اس سوراخ یا غار کی مٹی نمکین ہوتی ہے اس نسبت سے اس کی مٹی کو بایلتک کہاجاتا ہے کہ بروشاسکی میں بایو یا بیو نمک کو کہا جاتا ہے اور تک مٹی کو تو گویا بیلتک نمکین مٹی ہوا،
شاہین بسہ کیش: شاہین بسہ کیش کا مطلب شاہین کا مسکن یا شاہین کے بسیرا کرنے کی جگہ، اگر اس پتھر کے ساتھ نیچے گاؤں کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو آپ کے دائیں جانب ایک پہاڑی نظر آئے گی اور اگر اس پہاڑی کے اوپر جا کر دیکھا جائے تو ایک چھوٹا سا میدان بھی ہے، اس پہاڑی کو شاہین بسہ کیش اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے اوپر شاہین رہاکرتے تھے شاہین اس جگہ بسیرا کرتے تھے اس نسبت سے شاہین بسہ کیش نا م پڑ گیا جیسا کہ ڈاکٹر میجر فیض امان نے اپنے گھر کے دروازے پر لکھا ہے فیض امان بسہ کیش،وہ بھی اس میں بسیرا کرتا ہے،
ہکہ کھٹ گوواس: کتے نیچے گرانے والا جگہ،ہک بروشاسکی میں کتا اور کھٹ گوواس نیچے پھینکنے والا جگہ، شاہین بسہ کیش کے ساتھ ہی ایک انتہائی عمودی چٹان ہے اور اس کے ساتھ بھی ایک خشک نالہ ہے کہا یہ جاتا ہے جب کتے بہت زیادہ بوڑھے ہوتے تھے تو ان کو دنیاکی جنجٹوں سے نجات دلانے کی خاطر اس عمودی چٹان کے اوپر لے جاکر نیچے پھینکتے تھے یا کو کتا چوری کرتا تھا یا مال مویشیوں کو نقصان پہنچاتا تھا یا گھروں کے نزدیک گندگی پھیلانے کا باعث بنتا تھا یا آوارہ کتوں کو اس چٹان سے گریا جاتا تھا اس لئے اس جگہ کو آج بھی ہکہ کھٹ گوواس کہا جاتا ہے۔
بیا تھم اور واؤمو شوارن : دادی کے کھیل کا میدان ،سلطان آباد کے ان پہاڑوں جڑاؤملک،چرے کوٹو،جن کا میں نے علحدہ علحدہ مضامین میں قاریین کی نذر کیا ہے ،ان تایخی مقامات کے ساتھ ہی ایک جگہ ہے اس کو بیا تھم کہا جاتا ہے جس کا مطلب گائے راجہ، کہتے ہیں کہ اس جگہ کوئی راجہ رہتا تھا جس کا نام بیا تھا جس کی وجہ سے اس جگہ کو بیاتھم کہاجاتا ہے۔ اور ا س سے ذرہ آگے اونچائی پر جائیں تو ایک بہت بڑا میدان ہے اس کو واؤ مو شوارن یعنی دادی کے کھیل کا میدان کہاجاتا ہے، بزرگوں کا کہنا تھا کہ اس جگہ پریاں پولوکھیلتی تھیں اور بہت سوں نے اس جگہ گھوڑوں کی دوڑنے کی آواز کے ساتھ ساتھ شورو غل اور ڈھول ڈھماکے اور سرنائی یا بانسری کی آواز سنا ہے اور گردو غبار کے اڑتے دیکھا ہے اس لئے اس جگہ کو واؤموشوارن کہاجاتا ہے۔
صنم مو ڈونگ یا ثنا مو ڈونگ: یہ بھی سلطان آباد میں واقع ہے اور شمونے دھ کے اوپر داس میں زیربلی خان ولد دکی کے دکا نوں کے ساتھ ہی ایک ٹیلہ ہے اس کے اوپر بہت سی قبور یا قبریں تھیں۔ہم نے اپنے بزرگوں سے بارہا سناتھا کہ یہ قبریں سکھوں کی ہیں زمانہ جنگ و جدال میں سکھ مارے گئے تو ان کو اس جگہ دفنایاگیا تھا، اور یہ ساری چیزیں کسی تاریخ کا حصہ ہیں یا نہیں جیسا کہ پورے خطے کی تاریخ تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہے اور صرف سینہ بہ سینہ چلتی کہانیاں اور قصے ہیں، بہر حال مقامی زبان میں مٹی کے ٹیلے کو ڈونگ کہا جاتا ہے پتہ نہیں اس کو صنم مو ڈونگ یا ثنا مو ڈونگ کیوں کہاجاتا ہے ان مرنے والوں یا مدفن لوگوں میں کوئی اس نام سے تھا یا کسی اور نسبت سے یہ نام اس ٹیلے کا پڑ گیا، اللہ ہی بہتر جاتا ہے۔ جب ہم بچپن میں اس ٹیلے پر اپنے سے بڑوں کے ساتھ جاتے تھے تو وہ اس جگہ پاؤں پٹختے تھے تو ایک آواز پیدہ ہوتی تھی جیسے کسی لکڑی کے خالی صندوق کے اوپر پاؤں کے مارنے سے آواز اتی ہے تو بڑے کہتے تھے کہ اس جگہ خزانہ ہے تو ہم جب بھی اس جگہ سے گذرتے تو اس ٹیلے پر چڑ ھ کر پاؤں ایک دو دفعۃ ضرور پٹختے اور خزانے کی موجودگی کی تصدیق کرکے چل پڑتے لیکن جب ہم اس سال خوردگی میں پہنچے تو سوچنے پر مجبور ہوے کہ شاید اس ٹیلے پر بہت سی قبروں کی وجہ سے زمیں میں کھوکھلا پن تھی جس کی وجہ سے وہ آوازیں آتی تھیں، لیکن انسداد اورگردش زمانہ نے آخر کا ر ان قبروں کو بھی نہیں بخشا اور ایک دو دہائی پہلے جب سلیمانی پتھروں کا شوشہ ہوا تو کسی نا خلف نے ان قبروں کو بھی نہیں بخشا اور کسی ایک اندھیری رات کا فائدہ اٹھاتے ہوے ان قبروں کو اکھاڑ کر برباد کیا معلوم نہیں کتنا خزانہ ہاتھ آیا لیکن ان بے چاروں کی ڈاھانچوں کو ٹکڑے ٹکڑے ہو نے کے لئے بے سرو سامان چھوڑ کر نو دو گیا رہ ہو گیا، اس دور میں بہت سے لوگوں کو سلیمانی ملے، کسی نے گھر میں بطور زیور رکھے ہوے ان موتیوں کو بھی کوڑی کے بھاؤ بیچا اور کسی نے خووب کمایا۔بہر حال افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس تاریخی مقام کو بھی کھندرات میں تبدیل کیا گیا واللہ عالم باالصواب
قاریین ابھی ابھی میجرڈاکٹر فیض امان نے ایک تحقیق شیر کیا ہے جو اسی ثنا مو ڈوںگ یا صنم مو ڈونگ او سکھ ڈونگ کے بارے میں اس شخص یعنی زیربلی خان ولد دکی خان شمونے کے بیان ہے جو کہ ذیل ہے
’’آج میں بھر کولتی سے بذریعہ ویگن گلگت آرہا تھا کہ ہویلتی کے پاس سے جنا ب زربلی ابن نائب خا،( دکی) ہم سفر ہوے۔اپ کے اک حالیہ انکشاف( سنا مو ڈونگ) کے موضوع پر سخن رہ گذ رشروع ہوگیا۔جناب ذربلی کو یاسن کے ا ثار قدیمہ اور تاریخ پر گہرا مشاہدہ ومطالعہ ہے۔ان کے بقول دو ٹیلے مشہور ہیں ۔دونوں اب انکی ملکیتی اراضی ہے۔نشیب کے ٹیلے کا نام سکھ اے ڈونگ اور بالائی ٹیلے کا نام سنا مو ڈونگ ہے۔سنا خاتون کا نام پے۔انہوں نے کہا کہ سکھ اے
ڈونگ یعنی سکھوں کا ٹیلہ اس لئے کہا گیا کہ۱۸۶۳ ءمیں مہاراجہ کشمیر کی فوج ابتدا میں اس ٹیلےکواپنا مستقر بنایا ۔یہاں سے موڈوری پر تفنگ بازی اور توپ کے گولے داغے جاتے رہے ۔یہاں سے تیراورکمان کے زنگ الود ٹکڑے انکے بزرگوں کے ہاتھ لگے تھے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں تیراور کمان سے بھی ازمائی ہوئی ہے۔اس ٹیلےپر اٹھ قبور ہیں۔کچھ محفوظ اور کچھ مافیا اور سمگلروں نے نوادرات کی تلاش میں ہڈیوں کو بے نقاب کیا ہے۔
سنا مو ڈونگ قدرے بالائی پر ہے اور کہا گیا ہے کہ سنا حملہ اورسکھ جنرل کی چہیتی بیوی تھی جسے ساتھ میدان کار زار لایا گیا تھا وہ یہاں دم توڑ گئی اور دفنایا گیا۔اس کےساتھ اور بہت سےقبورہیں۔ یہ سب اس حملہ اور فوج کے مرحومیں کی ہیں جویا تو اہل یاسن کے تیغ کا شکار ہوے ۔۔طبعی موت مرے۔میں سمجتاہوں کہ ان دوجگہوں کو سرکار تاریخی اثاثہ کے ذیل میں محفوظ کرے۔بجائے کہ سمگلرووں کی تخریب کی نذر کرے‘‘