غم ….. (چیخوف کی ایک کہانی کا ترجمہ)
ترجمہ: سبط حسن
گریگری پیٹروف ایک بہترین خرادیہ تھا اور ہر طرف اس کے ہنر کی شہرت تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ شراب کا رسیا تھا اور اس بات کی بھی سارے علاقے میں دھوم تھی۔ آج وہ اپنی بیمار بیوی کو ضلعی ہسپتال لے جا رہا تھا۔ اسے وہاں تک پہنچنے کے لیے بیس میل کی مسافت طے کرنا تھے۔ سڑک کا برا حال تھا۔ اس سڑک پر چلنا گریگری جیسے شرابی کے لیے تو مشکل تھا ہی، اس پر ڈاکیے جیسا مستعد آدمی بھی گھبرا جاتا۔ تند و تیز سرد ہوا سیدھے اس کے منہ سے ٹکرا رہی تھی۔ یہ منہ سے ٹکراتی اور اسے چیر کر رکھ دیتی۔برف اس قدر زیادہ گر رہی تھی کہ اس کے گھنے بادل سے بن گئے تھے اوریہ تیزہوا میں طوفان برپا کر رہے تھے۔ یہ کہنا مشکل تھا کہ برف آسمان سے گر رہی تھی یا زمین اسے اپنی کوکھ سے اگل رہی تھی۔ سڑک کے ارد گرد کھیتیاں نظر آرہی تھیں اور نہ ہی ٹیلیگراف کے کھمبوں کا کوئی اتا پتہ معلوم ہو رہا تھا۔ جنگلات بھی برف کے اس دبیز پردے میں گم ہو گئے تھے۔ جب اس برفانی طوفان کا جھکڑ آتا تو گریگری اپنی برف گاڑی کے بانس تک بھی نہ دیکھ پاتا۔ اس برف گاڑی کو ایک کمزور اور عمر رسیدہ گھوڑی بڑی مشکل سے کھینچ رہی تھی۔ اس کی رفتار نہ ہونے کے برابر تھی۔ گھوڑی کی تمام تر قوّت گاڑی کو کھنچنے کے بجائے اپنے پاؤں کو برف سے کھینچنے اور اپنے آپ کو اپنے سر کی مدد سے آگے دھکیلنے پر صرف ہو رہی تھی۔ گریگری سخت جلدی میں تھا۔ وہ اپنی سیٹ پر بڑی بے قراری سے اوپر نیچے اچھل رہا تھا۔ وہ مسلسل گھوڑی کی کمر پر تازیانے برسا رہا تھا۔
”پریشان مت ہو، میٹریانہ “ اس نے اپنی بیوی سے کہا، ”تھوڑی دیر کے لیے اسے مزید برداشت کر لو۔ ہم بہت جلد ہسپتال پہنچنے والے ہیں اور خداوند نے چاہا تو تم بہت جلد اچھی ہو جاؤ گی۔ پاول ایوانیچ تمھیں چند قطرے پلائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ملازموں سے کہے کہ وہ گندا خون نکالنے کے لیے فصد کھول دیں۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کیمیاوی مرکب سے تیری مالش کر دیں۔ میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہو ں کہ اس سے تمھارے جسم کا درد تیرے پہلو سے نکل جائے گا۔ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ملازموں پر تھوڑا بہت چلاّئے یا اپنے پاؤں زمین پر پٹخے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وہ، و ہ سب کچھ کرے گا جو وہ کرسکتا ہے۔ وہ بڑا اچھا آدمی ہے۔ وہ دوسروں کا خیال رکھنے والا ہے۔ خداوند اس پر اپنی مہربانیاں کرے۔ ہم جونہی ہسپتال پہنچیں گے، وہ دوڑتا ہو ا ہمارے پاس آئے گا۔ وہ ہم پر چلاّئے گاکہ یہ سب کیسے ہو گیا؟ تمھاری صحت ایک دم کیسے بگڑ گئی؟ تمھیں کوئی بھی وقت ضائع کیے بغیر چلے آنا چاہیے تھا۔خداوند تمھارا بھلا کرے، میں مسلسل سارا دن تمھاراخیال تو نہیں رکھ سکتا۔ ایسا تو کتاہی کر سکتا ہے۔ تمھیں صبح سویرے ہی یہاں چلے آنا تھا۔ اب تم یہاں سے نکلتے بنو، میں تمھاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ تم اب کل آنا….! میں اس سے التماس کروں گا۔ محترم جناب پاول ایوانیچ …. “ پھر وہ گھوڑی سے مخاطب ہو کر کہتا:
”ہمت کرو، رفتار تیز کر لو ….. تجھے تو ْقصائیوں کے حوالے ہی کر دینا چاہیے۔“
گریگری مسلسل گھوڑی کو پیٹ رہا تھااور اکھڑے سانسوں سے مسلسل بولتا جا رہا تھا۔ وہ اپنی بیوی کی طرف نہ دیکھ رہا تھا۔
”محترم، میں آپ سے سچ بول رہا ہوں۔ میں خداوند کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں۔ آپ صلیب پر میری قسم لے سکتے ہیں۔ میں منہ اندھیرے گھر سے نکلا تھا۔ بالکل، میں نے ایسا ہی کیا تھا۔ مگر میں ہسپتال کیسے وقت پر پہنچ سکتا ہوں؟ اگر خداوند اور مقدس مریم ؑہی ناراض ہو جائیں اور وہ ہمارے راستے میں ایسا قہر آمیز برف کا طوفان برپا کر دیں۔ آپ جناب خود اس طوفان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں تو اچھے سے اچھا گھوڑا بھی کچھ نہیں کر سکتااور یہ میری گھوڑی، آپ جناب ایک نظر اسے دیکھ لیں۔ یہ گھوڑوں کی نسل سے نہیں، بلکہ یہ ان کی نسل پر شرمندگی کا ایک دھبہ ہے۔ پاول ایوانیچ حیران ہو جائے گااور پھر اس پر چلاّنا شروع کردے گا: ’ میں تمھیں جانتا ہوں۔ تم ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈہی لیتے ہو۔ خاص طور پر تمھیں، گریگری، تمھیں تو میں بہت عرصے سے جانتا ہوں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ راستے میں آنے والے شراب خانوں میں، کم از کم پانچ میں تو تم ضرور گئے ہو گے۔“ میں ان سے پوچھوں گا کہ آپ جناب مجھے ایک پتھر دل اوباش سمجھتے ہیں یا پھر آوارہ …. ؟ میری بڑھیا اپنی روح چھوڑ رہی ہے اور وہ کسی وقت بھی مر سکتی ہے اور میں کیا شراب خانے میں جاؤں گا؟ خداوند ان شراب خانوں کو سمندر میں غرق کر دے۔ تب پاول ایوانیچ وہاں موجود لوگوں سے کہے گاکہ وہ فوراََ تمھیں ہسپتال میں لے جائیں۔ میں ان کے سامنے سرِ تسلیم خم کر لوں گااور ان سے کہوں گاکہ میں پاول ایوانیچ کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ ہم سے درگزر کر لیں، آخر تو ہم احمق اور گنہگار ہی تو ہیں۔ ہم جاہل کسان ہیں اور ہمارا امتحان نہ لیں۔ ہمیں باہر نکالنے کے لیے آپ کو باہر برف میں آکر اپنے پاؤں ٹھنڈے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، آپ ہمیں ویسے ہی دھکے دے کر باہر نکال سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ پاول ایوانیچ مجھے مارنے کے لیے جھوٹ موٹ اپنا ہاتھ اوپر اٹھائے مگر وہ مجھے مارے گا نہیں بلکہ کہے گا: ’اپنے آپ کو میرے پاؤں پر گرانے کی بجائے تمھیں شراب نوشی سے پرہیز کرنا چاہیے تھا۔ تمھیں تو گھوڑوں کی طرح کوڑوں سے پیٹنا چاہیے۔‘
’میں کہوں گا، ’آپ بالکل ٹھیک فرماتے ہیں، مجھے کوڑوں کی سزا دی جانی چاہیے۔ میں ہو ں ہی نالائق …. ! اگر آپ مجھے کوڑوں کی سزا نہیں دینا چاہتے تو میں خداوند سے التماس کروں گا کہ وہ مجھے موت دے دے۔ مگر میں آپ کے پاؤں پر گڑ گڑ اؤں گا ضرور …. . آپ آخر تو میرے مہربان ہیں، ایسے ہی جیسے کہ باپ اپنے بچوں کے لیے مہربان ہوتا ہے۔ میں اب وعدہ کرتا ہوں اور خداوند کو اپنا گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں شراب نوشی ترک کر دوں گا۔ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو آپ میرے منہ پر تھوک دینا …… اس وقت تک جب تک کہ میری میٹریانہ دوبارہ تندرست نہ ہو جائے۔ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو جائے۔ آپ جو کہیں گے میں وہ سب کروں گا۔ میں آپ کے احترام میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔ میں سگریٹ رکھنے کے لیے آپ کو اعلیٰ لکڑی کا ایک بکس بنا کر دوں گا۔ کھیلنے کے لیے لکڑی کے گیند اور کھونٹی والے کھیل کے لیے کھونٹیاں دے سکتا ہوں۔ اس کے علاوہ آپ کی پسند کی کوئی بھی چیز باہر سے منگوائی جا سکتی ہے۔ میں آپ کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہوں …… آپ کو جو کچھ بھی پسند ہو میں اس کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں لوں گا۔بڑے شہروں میں سگریٹ کے بکس کے لیے دوکاندار بہت سے پیسے اینٹھ لیتے ہیں مگر میں آپ سے ایک پیسہ بھی نہیں لوں گا۔ ڈاکٹر اس بات پر مسکرا دے گااور کہے گا: ’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، اگرچہ تم ایک شرابی ہوں مگر پھربھی مجھے تم پر ترس آتا ہے … ‘
” دیکھو! “ وہ بیوی سے مخاطب ہو کر کہتا ہے، ” تمھیں تو معلوم ہے مجھے اعلیٰ طبقے کے لوگوں سے بات کرنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا نہیں جس سے میں نے بات نہ کی ہو۔ خداوند، میری مدد فر ما، میں کہیں راستہ نہ کھو دوں …. کیسا خوفناک طوفان ہے۔ برف میں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔“
گریگری مسلسل بولتا جا رہا تھا۔ اس کی زبان کسی مشین کی طرح چل رہی تھی اور اس کا مقصد اپنے دل پر پڑے بوجھ کو کم کرنا تھا۔ اس کے دماغ میں خیالات کی کئی روئیں بہہ نکلی تھیں۔ ان کے لیے وہ بہت سے موزوں الفاظ استعمال کر سکتا تھا۔ ان روؤں میں زیادہ تر اندیشے اور سوالات تھے۔ غم نے اسے پچھاڑ دیا تھا۔ ایسے ہی جیسے اچانک بجلی کڑکے اور کسی پر گر جائے۔ وہ غم کے اس حملے سے سنبھلا نہ تھااور اس کے ہوش و حواس ابھی تک واپس نہیں آئے تھے۔ وہ ابھی تک صاف طور پر سوچنے کے قابل بھی نہ ہوا تھا۔ اس نے اب تک بے فکری کی زندگی گزاری تھی۔ وہ اکژنشے میں دھت رہتا تھااور اس نے کسی غم یا خوشی کو اس کے خالص رنگ میں دیکھا ہی نہ تھا۔اس کے اور خوشی یا غم کے درمیان ہمیشہ نشے کی دبیزدیوارکھڑی رہتی تھی۔ اب اپنی بیوی کے اچانک بیمار ہو جانے کے بعد اسے اپنے دل میں شدید درد کا تجربہ ہوا۔ وہ دراصل شراب نوش اور بے فکراشخص تھا۔ ایسے شخص کوئی ایسا کام سرانجام نہیں دے سکتا جس کو کرنے کے لیے ہوش حواس کی ضرورت ہو۔ وہ جس صورتحال میں پھنس گیا تھا اس کا وہ عادی نہ تھا۔ اس لیے وہ اس صورتحال سے فوری طور پر نکلنا چاہتا تھا۔ فطرت بھی اس پر دست اندازی کر رہی تھااور برف کے طوفان کا مقابلہ کرنا اس کے بس میں نہ تھا۔
گریگری کو یاد آیا کہ اس کا غم ایک رات پہلے شروع ہوا تھا۔ جب وہ کل شام گھر واپس آیاتو وہ حسبِ معمول نشے میں دھت تھا۔ اس نے عادت کے مطابق اپنی بیوی پر برسنا شروع کر دیا تھا۔وہ اسے گالیاں دے رہا تھا اور اسے مکّے دکھا دکھا کر دھمکا رہا تھا۔ اس کی بیوی اس کی ایسی دھونس کی عادی تھی مگر اس دن گریگری نے اپنی بیوی کو مختلف روپ میں دیکھا۔ عام طور پر اس کی بیوی کی بوڑھی آنکھوں میں مسکینی اور زخم خوردگی کا تائثر ہوتا تھا۔ اس کتے کی طرح جس کو ہمیشہ مار پڑتی رہتی ہو اور اسے کھانے کے لیے کم سے کم دیا جاتا ہو۔ اس شام اس کی آ نکھیں کسی تائثر سے خالی تھیں اور وہ دیکھ تو رہی تھیں مگروہ کس چیز کو دیکھ رہی تھیں اس کا اندازہ لگانا ممکن نہ تھا۔ ایسا تائثر بزرگوں کی تصاویر میں بزرگوں کی آنکھوں سے جھلکتا ہے یا پھر ان لوگوں کی آنکھوں سے جو مرنے والے ہوں۔ اپنی بیوی کی آنکھوں میں ایسے ہی تائثرکو دیکھ کر گریگری کو غم کا احساس ہوا تھا۔ پریشان حال گریگری نے اپنے ہمسائے سے اس کا گھوڑا مستعار لیا اور اب وہ اپنی بیوی کو ہسپتال لے جا رہاتھا۔ اسے امّید تھی کہ پاول ایوانیچ اپنے ادویاتی سفوف اور مرہموں کی مدد سے اس کی بیوی کی آنکھوں میں وہی پہلے جیسی مسکینی اور خوف کا تائثر لوٹا دے گا۔
” پیٹریانہ، سنواور میری بات پر دھیان دو۔“ گریگری نے کہا، ”اگر پاول ایوانیچ تم سے پوچھے کہ کیا میں تمھیں مارتا ہوں تو کہہ دینا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ ا ٓئندہ تمھیں ہاتھ تک نہیں لگاؤں گا۔ میں صلیبِ مقدس کی قسم کھاتا ہوں کہ آئندہ ایسا کبھی نہیں کروں گا۔ تمھیں تو معلوم ہے کہ میں تمھیں کسی بغض یا کینے سے نہیں مارتا۔ میں تو تمھیں صرف اس وقت مار لیتا ہوں جب ایسا کرنے کو میرا دل چاہتا ہے۔ اس کی کوئی وجہ بھی نہیں ہوتی۔ پھر بھی مجھے اس کا افسوس ہے۔ تم سن رہی ہو ناں!اگر کوئی میری جگہ پر ہوتا تو وہ تمھاری بیماری کی پرواہ بھی نہ کر تااور دیکھو میں تمھیں ہسپتا ل لے جا رہا ہوں۔ میں اپنی پوری کوشش کر رہا ہوں اور یہ طوفان ….. خداوند ہی پناہ دے۔ خداوند کی مرضی کو ٹالا تو نہیں جا سکتا۔ خداوند سے اتنی عرض ہے کہ وہ مجھے راستے پر رکھے۔ ہاں، میٹریانہ، کیا تمھیں اب بھی جسم کے پہلو میں درد ہو رہا ہے؟ تم کچھ بولتی کیوں نہیں؟ میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں۔ کیا تمھیں اب بھی درد ہو رہا ہے؟“
اسے لگاکہ جیسے اس کی بیوی کے چہرے پر پڑنے والی برف پگھل نہیں رہی تھی۔ اسے یہ بات بہت عجیب لگی۔ اس کی بیوی کا چہرہ عجیب ڈھنگ سے لمبوترا سا ہو گیا تھااور اس کی رنگت پیلاہٹ آمیزخاکستری ہو چکی تھی، بالکل ایسے جیسے کہ پگھلی ہوئی بد نماموم ….. اس کے چہرے میں سختی آگئی تھی اور وہ بہت گمبھیرنظر آ رہی تھی۔
” میں بھی نرا احمق ہی ہوں۔“ گریگری نے کہا، ” میں نے تم سے خلوص کے ساتھ اور خداوند کو حاضر مان کر پوچھا تھا …… تم میرا مطلب سمجھ رہی ہو ناں، تم بھی احمق ہو، میں سچ کہہ رہا ہوں…. مجھے نہیں لگتا کہ میں تمھیں پاول ایوانیچ تک پہنچا پاؤں گا۔“
گریگری نے گھوڑے کی باگیں چھوڑ دیں اور گہری سوچ میں گم ہو گیا۔ اس کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ اس میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ وہ ایک نظر اپنی بیوی کو دیکھ لیتا۔ وہ سخت ڈر گیا تھا۔بڑھیا سے سوال کرنا اور پھر سوال کا جواب نہ ملنا یقیناََ ڈرا دینے والی بات ہی تھی۔ آخر اس بے یقینی کو ختم کرنے کے لیے اس نے گردن موڑے بغیر اپنی بیوی کے ٹھنڈے ہاتھ کو محسوس کرنے کے لیے اسے اٹھایا۔ ہاتھ کو چھوڑا۔ ہاتھ ایک پتھر کی طرح نیچے گر گیا۔
” مر گئی …… مشکل……!“
اور گریگری رو دیا۔ وہ غمگین ہونے کی بجائے غصّے میں تھا۔ اس کا غم شروع ہوا ہی تھا اور ساتھ ہی ختم بھی ہو گیا۔ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ سچ مچ ابھی چند گھنٹے پہلے ہی جینا شروع کیا تھا اور اس نے پہلی مرتبہ اپنا دل اپنی بیوی کے لیے کھولا تھا۔ اس کے دل میں ابھی ابھی اپنی بیوی کے لیے احساس جاگا ہی تھاکہ وہ مر گئی۔ وہ اس کے ساتھ چالیس برسوں سے رہ رہا تھامگر ان چالیس سالوں میں وہ ایک دوسرے سے دور ہی رہے، ا ن دونوں کے درمیان ہمیشہ دھند کی ایک دیوار سی حائل رہی۔ شرا ب نوشی، مارکٹائی اور غربت کے باعث اسے اپنی بیوی کے ساتھ احساس کااندازہ ہی نہ ہوا اور اس طرح زندگی ہاتھ سے پھسل گئی۔ اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے بڑھیانے اسے غصّہ دلانے کے لیے مرنے میں جلدی سے کام لیا۔ اس نے یہ سب اس وقت کیا جب وہ اس کی تکلیف کو محسوس کرنے لگا تھا۔اسے لگ رہا تھا کہ وہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ پائے گا۔ یہ بھی کہ اس نے ساری زندگی اپنی بیوی کو دکھ ہی دیے جنھیں روکنا اس کے بس میں تھا۔
” آخر کیوں….؟ “ اس نے یاد کرنا شروع کیا، ”وہ بھیک مانگنے جایا کرتی تھی۔ میں ہی اسے اپنے کھانے کے لیے روٹی مانگنے بھیجا کرتا تھا۔ ہاں، یہ درست ہے، میں ہی ایسا کرنے لیے اسے بھیجا کرتا تھا …. اب مشکل میں آن پھنسا ہوں۔ اسے مزید دس برس زندہ رہنا چاہیے تھا ….. کیسی احمق ہے، اور دیکھو، اب ….. ! مجھے حیران نہیں ہونا چاہیے۔ وہ یقینا سوچتی ہے کہ میں ایسا ہی ہوں، مقدس مریمؑ، میں کدھر جا رہا ہوں؟ اب اسے کفن دفن کی ضرورت ہے۔ اب دوائی کی حاجت نہیں رہی۔ اب ہمت کرو اور گاڑی کا رخ گھر کی طرف موڑ لو۔“
گریگری نے برف گاڑی گھر کی طرف موڑ لیا ا ور گھوڑی کو دوبارہ پیٹنا شروع کردیا۔ راستہ ہر گزرتے پل کے ساتھ خراب سے خراب تر ہو تا جا رہاتھا۔ اب تو اسے گاڑی کے بانس بھی نظر نہیں آرہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کی گاڑی کسی پودے کے ساتھ ٹکراجا تی۔ کوئی چیز گریگری کے ہاتھوں کے ساتھ ٹکرا جاتی اورانھیں زخمی کر دیتی۔ اس کی نظروں کی حدود میں آنے والی ہر شئے برف کے سفید جھکڑ میں تبدیل ہو چکی تھی۔
’ شاید،کیا کوئی اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کر سکتا ہے …. ؟ گریگری نے یاد کیا، ’ چالیس برس پہلے میٹریانہ جوان تھی۔ وہ خوبصورت تھی اور چلبلی بھی ….. اس کے والدین کھاتے پیتے لوگ تھے۔ انھوں نے اس کے ساتھ شادی اس لیے کردی کیونکہ وہ ایک اچھا کاریگر تھا۔ شادی سے پہلے زندگی میں خوشیوں کی نوید تھی۔ مصیبت اس وقت شروع ہوئی جب اس نے اپنے آپ کو شراب کے سامنے بے یارومدد گار چھوڑ دیا۔ وہ کبھی کبھار ہی اپنے ہوش و حواس میں ہوتا تھا۔ اسے شادی کے ہونے تک سب کچھ یاد تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا، اس نے اپنی زندگی کیسے گزاری، اسے کچھ یاد نہ تھا۔‘
برف کے سفید بادل آہستہ آہستہ خاکستری ہونے لگے۔ شام ہو رہی تھی۔
” میں کہاں جا رہا ہوں….. ؟“ گریگری نے ایک دم اپنے آپ سے پوچھا، ” مجھے اس کے کفن دفن کا بندوبست کرنا ہے اور میں ہوں کہ مسلسل ہسپتال کی طرف چلا جا رہا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں پاگل ہو چلا ہوں۔“ گریگری نے برف گاڑی کا رخ پھر تبدیل کر لیااور پھر سے گھوڑی کو پیٹنے لگا۔ گھوڑی نے اپنی ہمت جٹائی۔ اس نے سسکاربھری او ر دلمی چال میں بھاگنے لگی۔ گریگری بار بار گھوڑی کی کمر پر تازیانے برسا رہا تھا۔ اسے، اچانک محسوس ہوا کہ کوئی چیز بار بار گاڑی کے ساتھ ٹکرا رہی ہے۔ اس کو دیکھے بغیر معلوم ہو گیا کہ یہ اس کی بیوی کا سر تھاجو گاڑی کے ایک طرف ڈھلک گیا تھا اور بار بار اس کے ساتھ ٹکرا رہا تھا۔ اندھیرا مسلسل گہرا ہو رہا تھااور ہوا سرد سے سرد تر ہوتی جارہی تھی۔
’ میں اب اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کروں گا، گریگری سوچنے لگا، ” نئی خراد مشین لوں گا۔ نیا کام لوں گا اور سارے پیسے اپنی بیوی کو دے دیا کروں گا۔ میں ایسا ہی کروں گا۔‘
تھوڑی دیر کے بعد اس نے باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں۔ اس نے انھیں ڈھونڈنے کی کوشش کی تاکہ وہ انھیں اٹھا لے مگر وہ ایسا نہ کر سکا۔ اس کے ہاتھوں نے حرکت کرنے سے انکار کردیا تھا۔
’ فکر کی کوئی بات نہیں‘، گریگری نے سو چا، ’گھوڑی خود بخود چلتی جائے گی۔ اسے راستہ معلوم ہے۔ اب اچھی نیند کا ایک جھونکا لے لینا چاہیے۔ اس وقت تک سو جاتا ہوں جب تک کہ کفن دفن کا معاملہ نہ آجائے۔ گریگری نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور وہ سو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اسے محسوس ہواکہ جیسے برف گاڑی رک گئی ہے۔ اس نے اپنی آنکیں کھولیں۔ اس نے اپنے سامنے کوئی کالی سی چیز دیکھی۔ یہ کوئی جھونپڑی یا گھاس پھوس کا ڈھیر لگ رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اسے گاڑی سے باہر نکلنا ہو گامگر اسے یہ بھی محسوس ہوا کہ اس کا بدن جم چکا تھا۔ اس کا بدن اپنے آپ کو تھوڑی سی بھی جنبش دینے سے قاصرتھا حالانکہ اسے بخوبی معلوم تھا کہ اگر اس نے حرکت نہ کی تو وہ برف میں جم کر مر جائے گا۔ پھر بھی وہ بڑے سکون کے ساتھ سو گیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ ایک بڑے کمرے میں تھا۔اس کمرے کی دیواروں پر رنگ کیا ہو اتھا۔ کھڑکیوں میں سے چمکدار روشنی کی شعاعیں کمرے کے اندر آرہی تھیں۔ کمرے میں بہت سے لوگ تھے اور وہ انھیں دیکھ سکتا تھا
۔ اسے اپنے بارے میں ایک احساس ہو اکہ وہ بڑا سمجھ دار ا ورمتین شخص ہے۔
” مجھے اپنی بیوی کے کفن دفن کے لیے…. پادری کو کہنا تھا۔“
” ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے،“ ایک آواز نے اسے روکا، ”تم آرام سے لیٹے رہو۔“
” کیوں….؟“ گریگری نے حیرانی سے پوچھااور اس دوران اس کی نظر ایک ڈاکٹر پر پڑی۔
” یہ آپ ہیں، محترم، میرے مہربان …..!“ وہ اٹھ بیٹھنا چاہتا تھااورڈاکٹر کے سامنے جھکنا چاہتا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے بازوؤں اور ٹانگوں نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
” میری ٹانگوں کو کیا ہو گیا ہے اور میرے بازو …… ؟“
” تم اپنے بازوؤں اور ٹانگوں کو خیر باد کہہ چکے ہو۔ تم نے انھیں برف کے طوفان کے دوران منجمد کر دیا تھا۔ تم اب کیوں رو رہے ہو؟ تمھاری ایک زندگی ہے، ہے کہ نہیں۔ تم اب ساٹھ کے ہو گئے ہو۔ کیا یہ تمھارے لیے کافی نہیں۔“
” انسان کو کیا کیا جھیلناپڑتا ہے … کیسی دردناک باتیں …… !مجھے افسوس ہے ….. مگر میں چاہتا تھا کہ پانچ چھ برس اور جی لیتا …. جناب!“
” مگر، کس لیے……. ؟ “
” جناب، گھوڑا، یہ گھوڑا میرا نہیں، مجھے اسے لوٹاناہے اور مجھے اپنی بیوی کو بھی دفنانا ہے۔ دیکھیں، دنیا میں چیزیں کیسی تیزی سے ہو جاتی ہیں۔ آپ جناب پاول ایوانیچ، میں آپ کو سگریٹ رکھنے کے لیے بہترین لکڑی کا بکس …. کھیلنے کے لیے گیند … میں دوں گا، جناب!“
ڈاکٹر نے اپنا ہاتھ ہلایااور وارڈ سے باہرچلا گیا۔ خداحافظ خرادیے ….. !