ہم اپنی پہچان بھول گئے
تحریر: محمود علی
اس وقت گلگت بلتستان سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے پاکستان کے مختلف شہروں کا رخ کیا ہیں۔ اس غرض سے ہجرت کی ہیں کہ اچھی زندگی، تعلم اور دوسری معاملات آسانی سے میسر ا سکے۔ عموماً گلگت بلتستان کے لوگ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں آباد ہوئے ہیں جبکہ کراچی کا شمار دنیا کی بڑی آبادی والے شہروں میں ہوتا ہے کیونکہ گذشتہ مردم شماری کے مطابق کراچی کی کل آبادی ٢کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔ "روشنیوں کا شہر” کہلانے والا یہ شہر ہر لحاظ سے اہمیت کے حامل سمجھا جاتا ہے۔پاکستان کی ساری بڑی انڈسٹرز کراچی میں موجود ہیں. حالانکہ دوسرے شہروں کی نسبت کراچی کچرے کی وجہ سے خاصا بدنام ہے لیکن اس کے باوجود اکثر لوگ کراچی میں رہنا اور مستقل طور پر آباد ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان لوگوں میں سے ایک میں بھی ہوں۔گلگت سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد یہ خواہش تھی کی کوئی اچھی سی یونیورسٹی میں داخلہ مل جائے اگرچہ اپنی اسکول اور کالج لائف میں میں ہمیشہ نورمل سٹوڈنٹ رہا لیکن ہر لمحہ ایک جنون سا میرے اندر موجود تھا، ساتھ ساتھ محنت اور مستقل جدوجہد پر قوی یقین رکھتا تھا۔ آخرکار اگست ٢٠١٩ کو کراچی یونیورسٹی "ڈیپارمنٹ آف ماس کمیونیکیشن ” میں داجلہ مل گیا جس کے بعد ایک نئی زندگی کا آغاز ہو گیا۔ حلانکہ گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے گھر کی یاد بھی بہت آتی ہے لیکن والدین ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ” بیٹا تم بھی اپنے بڑے بھائیوں کی طرح اعلیٰ تعلیم حاصل کرو اس کے لئے کسی بھی شہر جانا ہو جائے ہماری دعا ہمیشہ اپ کے ساتھ ہوگی”۔ امی نہیں چاہتی تھی کہ میں کراچی چلا جاؤں کیونکہ بڑے بھائی نے سات سال کراچی میں گزارے تھے اس وجہ سے امی ہر وقت پریشان ہوتی تھی کہ "میرے بیٹے کی کیا حالت ہوٖئی ہو گی وہ کس حال میں ہوں گے”۔ اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ جب بھی گھر میں فون پر بات ہوتی ہے تو کوشش یہی ہوتی ہے کہ گھر والوں کو اپنی اچھی حال کا ذکر کروں اور یہی کرتا ہوں۔ چلو! یہ سب گھر کے معاملات تھے اب ایک جرنلیزم کے سٹوڈنٹ ہونے کی حیثیت سے یہ میرا اولین فرض بھی بنتا ہے کہ جس خطے کی بات مذکورہ بالا میں ہوئیِ، اس خطے کے باسی اپنی تاریخِ، جغرافیہ اور زبانوں سے کتنے واقف ہیں۔
گذشتہ کہیں سالوں سے گلگت بلتستان کی اہمیت عالمی سطح پر بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے سیاحت کو خاصا فروغ مل گئی ہے جس کے نتیجے میں مقامی کاروباری معاملات میں کافی بہتری آئی ہیں جن میں ہوٹل انڈسٹری سرفہرست ہیں۔ تاہم ریاستِ پاکستان نے اس خطے کو اب تک آئنی حقوق سے محروم رکھا ہے، دریں اثناء ریاست ان کے مسائل سے زیادہ وسائل پہ نظر رکھی ہوئی ہے لیکن اس دیس کے باسی ابھی تک حقیقت سے ناواقف ہیں۔ چلو! یہ حقائق ساری دنیا جانتی ہیں کیونکہ ایک نہ ایک دن سچ سب کے سامنے ائے گا۔
1نومبر1947 ء کوگلگت بلتستان نے ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کی اور تاریخ کی اوراق میں پہلی بار گلگت کشمیر سے الگ ہوگیا چنانچہ یہ ایک بڑا انقلاب تھا۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ 15 دنوں تک گلگت بلتستان ایک آزاد ریاست کے طور پر دنیا کے نقشہ پر موجود رہا۔ بعدازاں انہی 15 دنوں کی ازادی کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ اس تاریخی فیصلے کے اندرنی حقائق کیا تھے؟ کہ ایا گلگت بلتستان کے ساتھ اس وقت کیا واقعہ رونما ہوا تھا کہ انھیں اتنا اہم اقدام اٹھانا پڑھا۔ اس دیس کے باسیوں نے بغیر کسی شرط کے ریاست پاکستان سے الحاق کیا۔ یہ ایسے حساس باتیں ہیں جن کا ذکر بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے بیان کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
جغرافیائی لحاظ سے گلگت بلتستان کی بین الاقوامی سطح پر کتنی اہمیت ہے؟ اس پر کچھ سرسری نگاہ ڈالتے ہیں۔گلگت بلتستان کی کل آبادی تقریناً ١٠۵ ملئین ہیں اس کے ساتھ دس اضلاع پر مشتمل ایک اہم ترین خطہ ماننا جاتا ہے۔ ان دس ضلعوں میں غذر، گلگت، ہنزہ، نگر، کہرمنگ،گانچے، شگر، سکردو، دیامر اور استور شامل ہیں۔ اور اس خطے کی خاص بات یہی ہے کہ دنیا کے تین ممالک سے سرحدیں ملتی ہیں۔جن میں چین، انڈیا، افغانستان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کا علاقہ واخان پٹی بھی اس خطے سے جوڑی ہوئی ہے جو کہ گلگت بلتستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے۔گلگت بلتستان کا کل رقبہ72971مربع کلومیٹر ہے۔تاہم سیاحتی مقامات کی اگر ہم بات کریں تو یہاں درجنوں ایسی جگہیں موجود ہیں جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ سالانہ لاکھوں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح ان مقامات کا رخ کرتے ہیں۔اس خطے میں 50 چوٹیاں واقع ہیں جو کہ تقربیاً سات ہزار میٹر سے بلند ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آن ملتے ہیں۔ جب کہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلشئیر بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔ اس کے علاوہ اس خطے میں مختلف پہاڑ، ندیاں، وادیاں، تاریخی مقامات و عمارتیں، کھیل کے میدان، جھیل وغیرہ موجود ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ گلگت بلتستان ہر لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے چاہے ثقافت ہو یا تاریخ، زبانیں ہو یا بلندترین چوٹیاں، پوری دنیا میں ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔
جس قوم کو اپنی تاریخ کا علم نہیں ہوتا وہی قوم بدترین غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ موجودہ دور میں لوگوں کا سارا دھیان جدیدیت پر ہیں۔ وہ اس دوران اپنی وجود اور اپنے علاقے کو بھول جاتے ہیں۔ دنیا کی رنگا رنگی میں ایسے کھو جاتے ہیں کہ نکل جانے کا نام ہی نہیں لیتے۔ میں اس وقت جامعہ کراچی کا طالب علم ہوں اور جرنلیزم پڑھ رہا ہوں۔ گلگت بلتستان کے طلباء سے ملاقات ہوتی ہے جن کا تاریخ میں کم دلچسپی ہوتی ہیں۔۔ یہ ایک تشویش کی بات ہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہونا چائیے کہ ہماری ایک طویل اور منفرد تاریخ اور ثقافت رہی ہیں۔
گلگت بلتستان کا فرزند ہونے کے باوجود ہمیں یہاں تک علم نہیں ہوتا کہ دنیا کی بلندترین چوٹیاں کے ٹو اور نگاپربت بھی ایسی سرزمین میں واقع ہیں لیکن آفسوس کا مقام ہے کہ ہماری نئی نسلوں کو اس کا ذرا سا بھی اہمیت نہیں۔ بین الاقوامی تاریخ دانوں نے کہیں کتانیں لکھی ہیں جن میں گلگت بلتستان کی قبل مسیح کی تاریخ بھی شامل ہے۔ان مورخین کا کہنا ہیں کہ گلگت بلتستان کی سرزمین قدیم زمانے سے آباد تھی اور دنیا کے بڑے مذاہب کے اثارقدیمہ اب بھی ملتے ہیں۔مزید ان کا کہنا ہیں کہ اس خطے میں دنیا کی قدیم ترین زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں مقامی زبان بروشاسکی،شینا ، واخی،کھوار اور بلتی شامل ہیں۔
مقامی تاریخ دانوں کے مطابق گلگت بلتستان کی قدیم ترین زبان ہے بروشاسکی ہے۔ اس خطے کی سب سے قدیم زبان بروشاسکی کے حوالے سے اہم معلومات فرہم کرتے ہوئے ان کا کہنا ہیں کہ ” بروشاسکی زبان کی جڑیں پوری سنٹریل ایشیا میں پھیلی ہوئی تھیں۔ "بروشال سٹیٹ” کی سرکاری زبان اس وقت یہی بروشاسکی ہی تھی”۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس زبان کی کتنی اہمیت ہوگی۔ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہیں کہ، "بروشسکی زبان کا شمار دنیا کے قدیم زبانوں میں ہوتا ہے۔ماہرین لسانيات کا کہنا ہے کہ یہ زبان سیکنڈ ملینیم میں سینڑل ایشیا میں بسنے والے لوگوں کی مشترکہ زبان ہوا کرتی تھی۔ یہی نہیں بلکہ سنسکرت زبان کے بہت سارے الفاظ اور بروشسکی زبان کے الفاظ میں مماثلت پائی جاتی ہے،رگ وید ہندوؤں کی مقدس کتاب ہے، ماہرین یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ رگ وید میں بھی ایسے لاتعداد الفاظ موجود ہیں، جن کی مماثلت بروشسکی زبان کے الفاظ سے ہوتی ہیں۔محققین کے نزديک ہزاروں سال قبل بروشسکی زبان بون مذہب کے ماننے والوں کی مشترکہ زبان تھی، اور اس دور میں بروشسکی زبان کا رسم الخط بھی موجود تھا”۔
جبکہ یہ علاقہ زبانوں کے لحاظ سے خاصا مالامال ہے اور بروشاسکی زبان کے علاوہ دوسری زبانیں بھی بولیں جاتی ہیں ۔ لیکن موجودہ صورتحال اس کے برعکس ہیں کیونکہ گلگت بلتستان کی آئنی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ریاست نے گلگت بلتستان کے مقامی زبانوں کو پاکستان کے علاقیائی زبانوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا تھا جس کے باعث گلگت بلتستان کے عوام اس اقدام سے مایوس تھے۔لہذا اب وقت اچکا ہے کہ نوجوان طبقہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی اشد صرورت ہے۔