"ابدی نیند سو کر ہمیشہ کے لیے امر ہونے والوں کے نام”
ساجد حسین
قلم اور کاغذ سے رشتہ میرا پرانا ہے اور نوکِ قلم سے ایسی بھی تحریریں رقم کی ہیں کہ دل کے ہر اس دروازے کو دستک ہوئی جو مرجھایا ہوا ہو مگر آج یہ داستانِ غم لکھتے ہوئے قلم کی نوک رک سی جاتی ہے نوکِ قلم فریادی ہے کہ آخر ان عظیم ستاروں کے بارے میں لکھوں تو کیا لکھوں۔ موضوع عنوان میں لی گئی کچھ شخصیات ایسی ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ کے ہمیں رنجیدہ کر گئیں۔ ہمیں یقین ہی نہیں ہوتا کہ آیاں کہ وہ ہم سے بچھڑ کر ابدی نیند سو گئے، انہوں نے ہمیشہ کے لیے امر ہونے کا اعزاز حاصل کیا مگر ہمیں انکی جدائی کا سبب تک معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ ہم میں نہیں رہے۔ جدائی کے اس کٹھن راستے میں ایک تو میرا لڑکپن کا یار جو کبھی ہمارا ایف۔ ایس۔سی کا کلاس فیلو ہوا کرتا تھا۔ خوش مزاج، خوش طبع اور بلکل چاند سا چہرہ وہ چہرہ آج بھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ لفٹیننٹ اظہر عباس کی شہادت ہمارے لئے ایک ایسی شہادت ہے جس نے دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ کافی عرصے تک اپنے جذبات و احساسات پر قابض ہو کر یہ سوچتا رہتا تھا کہ موت برحق ہے اور موت بھی ایسی قسمت میں ہو جو انسان چاہ کر بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ ہم میں نہیں رہے بلکہ یہ کہنا کم نہ ہوگا کہ شہید ہم میں نہیں ہوتے مگر وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہونے کا اعزاز حاصل کر لیتے ہیں۔ موضوع عنوان میں دو عظیم الشان شخصیات کا ذکر کرتے ہوئے مجھے خود پہ ضبط نہیں ہوتا کہ آخر میں انکی شان میں لکھوں تو کیا لکھوں ایک طرف لفٹیننٹ اظہر عباس جو کہ ملک کے نام اپنا نظرانہ پیش کر کے ہمیشہ کے لیے امر ہوا اور دوسری میرے بھائی میجر ہادی حسین جنکی علمناک اور ناگہانی شہادت نے رہتی دنیا کو یہ پیغام سنایا کہ موت برحق ہے اور اس کا تعین نہیں کہ کن حالات میں موت آئے اور انسان پر آکر جھپٹ پڑے۔ ہر کسی کی آنکھ آج نم و اشکبار ہے کہ ہمارے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ہم میں نہیں رہے۔ لفٹیننٹ اظہر عباس اور میجر ہادی حسین کی شہادت ہم سب کے لیے کرب زدہ ہے۔ انکی شہادت ہمارے لئے ناقابل فراموش اور ناقابل برداشت ہے۔ وہ مائیں جن کے وہ سپوت تھے، وہ بہنوں کے غرور تھے اور وہ اپنے بھائیوں کے بازوں تھے۔ مگر افسوس صد افسوس تمام تر احساسات کو بلائے طاق رکھتے ہوئے وہ ابدی زندگی کے لیے پرواز کر گئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ موت نے ہمیں بھی اپنی آغوش میں نہیں لینا موت تو ہر ذی روح کے لیے ایک ذائقہ ہے جس کو ہم سب نے ضرور چکھنا ہے اور اس زہر بھرے پیالے کی گھونٹ ہم سب کو نصیب ہو گی جس کے لیے ہمیں پیدا کیا گیا ہے۔ مگر یہاں بات یہی رکتی نہیں کہ صرف انسان پیدا ہوا ہو اور موت کے منہ میں چلا جائے۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں موت بھی بہت اقسام کی ہوتی ہے مگر سب سے بہترین موت یہی ہے جو کسی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا جائے۔ میرے مولا و آقا حسین ابن علی علیہ السّلام کا قول ہے کہ اگر انسان کی آخری منزل موت ہے تو کیوں نہ شہادت سے سرفراز ہوا جائے اور رہتی دنیا کے لیے مثال بن جائیں۔ مجھے اس وقت رنج محسوس ہوتا ہے کہ لفٹیننٹ اظہر عباس اور میجر ہادی حسین کے اپنے تڑپ کر انکی جدائی میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے دیکھائی دیتے کہ دل و دماغ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے کہ یہ دستور دنیا ہے اور ہم سب نے اس دار فانی سے دار بقا کی جانب کوچ کر جانا ہے۔ دل و دماغ کچھ لمحوں کے لیے تھم جایا کرتے ہیں اور یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ وہ مائیں جنہوں نے اپنے سپوتوں کو قوم و وطن کے لیے پیش کیا، وہ مائیں جنہوں نے اپنے عظیم بیٹوں کو دوسروں کی حفاظت کے لیے پالا، اور وہ مائیں جنہوں نے اپنے جگر گوشوں کو ہمیشہ یہ تلقین کی ہوگی کہ خود تو بھوک و پیاس سے نڈھال ہو جاؤ مگر وطن کی دامن میں کوئی داغ نہ آنے پائے۔ اور آج وہ بیٹے انکی ماؤں کے خواب بن کر رہ گئے۔ لفٹیننٹ اظہر عباس کے عادتیں آج بھی یاد ہیں کہ وہ کس حد تک اپنے خُلق سے پیش آتا تھا۔ انکی مسکان آج بھی دل میں بسی ہوئی ہے اور وہ مسکان والا چہرا کبھی نہیں بھولا جائے گا۔
میجر ہادی حسین کی ناگہانی شہادت نے سب کو رنجیدہ کر دیا سب انکی المناک شہادت سے نڈھال ہیں ہم سب کو یہ خیال نہیں رہتا کہ وہ ہم میں نہیں رہے ایسا گمان ہوتا ہے کہ وہ ہمارے درمیان ہی موجود ہیں اور وطن کی حفاظت میں مامور ہیں۔
لفٹیننٹ اظہر عباس اور میجر ہادی حسین کے علاؤہ ہزاروں ایسے بھی سپوت آج اس دار فانی میں نہیں ہیں جو ہر اس شخص کے لیے نا قابل فراموش ہیں جو وطن کی محبت دل میں رکھتے ہیں۔ ہم بے بس و لاچار ہیں کہ ہم انکو دوبارا نہیں دیکھ سکتے نہ ہی ہم گمان کر سکتے کہ وہ پلٹ کر آئے۔ دنیا کی دستور کا سوچ کر اپنے جذبات کو سنبھال کر رکھتے ہیں کہ جانے والے کبھی لوٹتے نہیں۔ مگر وطن کی محبت میں ابدی نیند سونے والے ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں۔