لوڈشیڈنگ
تحریر: محبوب حسین
گلگت بلتستان میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت طلب سے تقریباً دو گنا ہے، اس کے باوجود قوم گزشتہ کئی سالوں سے بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا کر رہی ہے، عام صارف یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جب ہم ضرورت سے زائد بجلی پیدا کر سکتے ہیں تو پھر طویل لوڈشیڈنگ کا عذاب قوم پر کیوں مسلط ہے۔ وجوہات اس کی ایک سے زائد ہو سکتے ہیں۔
انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ایک اہم عنصر بجلی بھی ہے۔ آج کل مشینوں کی ایجادات کی وجہ سے بنی نوع انسان کا زیادہ تر دارومدار بجلی پر ہے۔ اپنی تمام تر سہولیات بجلی کے زریعے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اگر ہم بجلی پیدا کرنے کی زرایعوں کی بات کریں تو مختلف طریقوں سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ ان میں سے ہایئڈل/پن بجلی پاور اسٹیشن، تھرمل پاور اسٹیشن، سولر نظام شمسی پاور پلانٹ، نیوکلر پاور پلانٹ، بائیو گیس یا انیمل ڈنگ وغیرہ شامل ہیں۔
ان میں کچھ پاور پلانٹ بہت ہی مہنگے بجلی پیدا کرتے ہیں تو کچھ سستے بجلی۔
پن نجلی/ہائیڈل پاور پلانٹ اسٹیشن؛ اسں میں مختلف طریقوں سے پانی کو زیر استعمال میں لاکر بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ انسان اپنی ضروریات کو مد نظر رکھ کر اپنی قدرتی قسائل کو زیر استعمال میں لاکر مثلا۔ پانی، ہوا، گیس،تیل۔ انرجی، حرارت، اور انیمل گوبر کو مختلف طریقوں سے گزار کے اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جب ہم گلگت بلتستان بلخصوص ضلع غذر کی بات کریں تو یہاں پہ بے تحاشا پانی سے توانائی پیدا کرنے کے زرائعے دستیاب ہیں اور بہت سے ہائیڈل پاور پلانٹ یہاں پہ موجود ہیں جیسے، سینگل پاور پلانٹ، گلمتی ہائیڈل پاور اسٹیشں، کوچدہ، اشکومن پاور پلانٹ، یاسین نازبر ہائیڈل پاور اسٹیشن، تھوئی پاور پلانٹ اسٹیشن۔ بادریت ہائیڈل پاور اسٹیشن وغیرہ شامل ہیں جن کی بجلی کی پیداوری صلاحیت تقریبا 15 ہزار میگاواٹ کے لاکھ باگھ ہیں۔
بجلی کی پیداواری صلاحیت ہمارے پاس موجود ہونے سے بھی ہم اس سہولت سے محروم ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو نہ تو ہمارے پاس اتنے سارے انڈسٹریز اور فیکٹریاں موجود ہیں جو ہم کہ سکتے ہے کہ سارہ توانائی ان پہ خرچ کر رہے۔ اور نہ ہی ہماری آبادی بھی اتنی زیادہ ہیں۔
اگر ہم یہاں پہ پاور اینڈ واٹر ڈیولپمنٹ کی غفلت، عدم توجہ کی بات کریں تو بجا ہوگی۔ جب ہم اپنی اہلیت اور بساط کے مطابق اپنی توجہ اپنی ڈیپارٹمنٹ کی خدمت اور بنی نوع انسانوں کی خدمت میں صرف کریں تو ہم بجلی بحران سے بچ سکتے ہیں۔
حکومت کو بھی سوچ و بجار کے ساتھ فیصلہ کرنی چاہئے۔ کیونکہ توانائی کی جو انڈسٹری گلگت بلتستان میں موجود ہیے یہ منافہ بخش انڈسٹری ہے۔ صاریفین کا مدد اور ساتھ ہمیشہ گورئمنٹ کے ساتھ ہے۔ کسٹمرز بجلی کی بل بر وقت ادا کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان (غزر) میں ابھی تک کوئی بھی کسٹمر ڈیفالٹر نہیں ہے۔ پھر بھی وسائل ہمارے پاس ہونے کے باوجود ہم غفل برپا کیوں کر رہے ہیے؟
عام صارف سیمت تمام صعنتکار، کروباری حضرات، طلبہ و طالبات تمام اس لوڈشیڈنگ کی وبا بیماری میں مبتلہ ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ تمام وسائل ہمارے پاس موجود ہیں لکیں ہم اکیسویں صدی عیسوی میں بھی بجلی کی اس نعمت سے محروم کیوں ہے۔
تاریخی پس منظر
بدقسمتی سے توانائی بحران ہمارا آج کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ مسلہ شروع سے چلا ارہا ہے۔ اس بحران کے پیچھے بہت سارے عوامل اور وجوہات ہیں، جو حسب زیل ہیں۔
ان وجوہات میں پہلا ناقص پلانئنگ اور ارگنائزیشن، ناتجرباکار عملہ، بجلی کی غیر منصفانہ تقسیم، غیرمہارت یافتہ اور غیر پروفیشنل عملہ، ناقص اور ناپید مشینیں اور مٹیریلز، حکومتی اداروں اور نجی سرکاری اداروں کا عدم توجہ، سلیکشن اف ایریا، وغیرہ شامل ہیں۔ اور pwd کے پاس کوئی بھی ٹائم شیڑول موجود نہیں ہے۔ جب چاہے اپنی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر بجلی کی تر سیل ہوتی ہیں۔ اگر بجلی ہے تو بھی برائے نام بڑی مشکل سے ڈم لائٹ سرخ ہوتی ہے، برقی علات بجلی کو دیکھ کے ہی دم توڈ جاتے ہیں۔ پورے گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں یہی صورت حال ہیں۔ لوگ ازیت کی زندگی بسر کر رہے ہئں۔ نعمت رحمت بن گئی ہے۔
غذر کے تمام تحصیل اور ہیڈکوٹرز بجلی کی شدید بحران کا شکار ہے، اس بحران میں بھی بچارے غریب عوام ہی پھسل رہے ہیں اس ضد میں بھی یہی غریب طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ امیر تو اپنا اسر رسوخ اور رشتہ داری ، دوستی کی بنا پر اپنا کام کر سکتا ہے۔ امیر جنریٹر اور اسپیشل لائن لیکے بھی بجلی استعمال کر سکرا ہے، مسلہ تو اس پسنے والیے غریب عوام کا ہے جائے تو اخر کہاں جائے۔
ایک مسلمان اور انسانیت کے ناطے یہ ہم پہ فرض ہے کہ ہم کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں اپنے کام ایمانداری اور نیک نیت سے سر انجام دینی چاہئے۔ تاکہ انے والے نسل بھی ہم پہ فخر اور ناز کریں، تاریخ ہم خود بنا سکتے ہے ایسا کام کریں کہ تاریخ کے ورق میں سنہرے حروف میں ہمارا نام لکھیں۔