کالمز

انسانی حقوق اور مفادات کا ٹکراو

’حق ‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا لغوی مطلب ہے، ’درست‘ اور ’صحیح‘۔  جبکہ لفظ انسان “انس“ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے “ محبت“ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حق اور محبت ایک ساتھ ہون تو انسان خوشحال رہ سکتا ہے۔حق کی جمع حقوق ہے  گویا انسانی حقوق کا مسئلہ دراصل اخلاقیات سے تعلق رکھتا ہے۔  اور اخلاقیات کا مقصد ایک ایسےانسان کی تخلیق ہے جو روحانی اور مادی دونوں صورتوں میں خوشحال ہو۔ بشرطکہ اخلاقیات ریاست کے مفاد پرستوں کا تخلیق کردہ اور اشرافیہ کے تحفظات کا آئینہ دار نہ ہو۔

انسان کی ایک انفرادی زندگی ہے اور دوسری سماجی زندگی، سماجی زندگی سماج سے جڑا ہوتا ہے، پھر سماج  ایک قوم اور ریاستی شہری وجود میں لاتا ہے۔ ریاست میں کچھ صاحب اقتدار ہوتے ہیں، جو ریاست کے شہریوں کا منتخب کردہ ہوتے ہین، اور وہ بحیثت رہنما عوام کے خادم ہونے کا دعوی کرتے ہیں، اور انسانی خدمت کا جذبہ اور انسانی حقوق کے تحفظ کا نعرہ لگا تے ہیں، اور یوں سادہ لوح عوام ان سے مسیحائی کی امید لگا کہ بیٹے ہوتے ہیں۔

ہر انسان انصاف، امن، محبت اور خوشحالی کا طلب گار ہے۔ ناانصافی، بدامنی، نفرت اور غربت کو برا سمجھتا ہے۔معاشرے میں تمام قانون، ادارے اور ضابطے اسی لیے بنائے جاتے ہیں کہ انسانوں کو انصاف، امن اور خوشحالی مل سکے اور بدامنی، ناانصافی اور محرومی کا راستہ روکا جاسکے۔بس اسی کا نام انسانی حقوق ہے۔

انسانی حقوق کی تحریک نئی ہے اور جدوجہد بے حد پرانی ہے۔ انسانی حقوق کی باقاعدہ تحریک اٹھارہویں صد ی میں روشن خیالی کے سائے میں پروان چڑھی۔ 1948ءمیں اقوام متحدہ کی طرف سے انسانی حقوق کا عالمی منشورہ وہ نقطہ تھا جہاں انسانوں نے اجتماعی طور انسانی حقوق کے جدید تصورات کو اعلیٰ ترین اخلاقی اصول کے طور پر تسلیم کیا۔دوسری طرف انصاف، آزادی اور امن کا خواب جتنا قدیم ہے انسانی حقوق کی جدوجہد اسی قدر پرانی ہے۔ وقت اور جگہ کے اعتبار سے اس جدوجہد کی شکل تبدیل ہوتی رہی ہے مگر بنیادی خدوخال ہمیشہ قائم رہے ہیں۔

اس کے بر عکس اگر دیکھا جائے تو ریاست بذات خود پیچیدہ ڈھانچوں اور متوازی مفادات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ۔

استحصال کرنے والا طبقہ ہمیں انسانی حقوق کی بحالی اور حصول کا واحد راستہ جمہوریت بتاتا ہے لیکن جب اس استحصالی طبقے سے سوال کیا جائے کہ جناب پاکستان کی تقریباً 19کروڑ کی آبادی میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 11 کروڑ عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں۔ اس جمہوری عمل میں ان کی شریک کو کیسے ممکن بنایاجاسکتا ہے جب تک کہ ان کے معاشی حقوق بحال نہیں کئے جاتے، تو جواب ملتا ہے کہ یہ ارتقائی عمل ہے۔ جمہوریت کو چلنے دیجیئے، اچھی طرزِ حکمرانی، قانون کی حکمرانی اور میرٹ پر یقین رکھئے۔سب کچھ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔جب ان سے یہ سوال کر لیا جائے کہ جناب پاکستان میں ایک کروڑ بچے سٹنٹڈ یعنی غذائی قلت کی وجہ سے معیاری قدکاٹھ اور ذہنی و جسمانی نشوونما ہی نہیں پا رہے، پاکستان میں حکومتی اعداد وشمار کے مطابق 8 کروڑ سے زیادہ پڑھے لکھے بے روزگار پھر رہے ہیں، کیا ان سےجمہوریت اور جمہوری روایات کے درخشاں مستقبل کی توقعات باندھی جاسکتی ہیں۔ جب یہ سوال اُٹھتا ہے تواسی جمہوریت میں اور جمہوری حقوق کے پاسداران ایسے سوالات اُٹھانے والوں کو جمہوریت دشمن کہنا شروع کر دیتے ہیں۔

 ریاست ایک ایسا نظام تشکیل دیا ہے جس میں امیر امیر تر اور غریب بد سے بد تر ہو تا جا رہا ہے، تعلیمی نظام ایک ایسے معیار کا طالب علم پیدا کرتا ہے، جو نوکری کی  زنجیر میں جکڑا اپنی محتاجی کا رونا روتا ہیں۔ انسانی حقوق کے تحفط کے یہ ریاستی نام نہاد کبھی لیپٹوپ اور قرضے کبھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام سے عوام کو یہ سرمایہ دار بھیک دیتے رہیں، جبکہ کبھی بھی مسلوں کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش نہیں کیں۔ ملکی سر مائے کو بیروں مللک منتقل کرکے ملکی ایوانوں میں بیٹھے عوامی اصلاح کے مدعی ہیں۔ لیکن روزگار کے مواقع اور طالب علموں کی تخلیقی صلاحیتوں کے لیئے سہولیات نہ ہونے کے برابر۔

بین الاقوامی معاہدے اور پالیسیاں ملکوں اور قوموں کے استحصال کرنے کے لئے نہ ہوں بلکہ دنیا میں حقیقی امن کے قیام کے لئے ہیں۔ ایسی دنیا قائم ہوجہاں پر نظام انسان اور انسانیت کی بھلائی، اس کی جسمانی، ذہنی، فکری، علمی اور روحانی ترقی کا سبب ہوں جہاں حقیقی معنوں میں سماجی ، سیاسی اور معاشی انصاف قائم ہو۔ اس کے لئے نئی سوچ کی ضرورت ہے۔ اس نظام پر سوال اُٹھانے کی ضرورت ہے۔

لیکن نام نہاد جمہوریت نوازاور انسانی حقوق کے یہ ٹھیکیدار یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں کہ موجودہ نظام ناکام ہے۔ یہ نظام وحشت و بربریت کے سوا اور کچھ دے ہی نہیں سکتا۔ اس کا معاشی ڈھانچہ بوسیدہ ہو چکا ہے۔ خواہ آزادیاں انفرادی ہوں یا اجتماعی یہ سرمایہ داری نظام کو بحال رکھتے ہوئے حاصل نہیں ہو سکتیں۔

بحیثیت انسان اور پھر بحیثت قوم ہمیں بدلنا ہوگا،  ان عوامی نمائیندوں کا انتخاب کر نا ہوگا، جو عوامی خیر خواہ ہوں، اور مفاد پرست نہ ہوں، ہمیں شعور اور آگہی کو خوش امدید کہ کر انسانی حقوق کا تحفظ اور مفاد پرست طبقوں کا استحصال کرنا ہوگا۔ کیونک یہ ہم سے ہی ممکن ہے۔ اخر پھر وہی بات کہ فیصلہ سچ کی حمایت کرنے والوں سے ہو گا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button