کالمز
بچوں کے ساتھ جنسی بدفعلی، ایک المیہ
تحریر: محبوب حسین
جنسی زیادتی یا بدفعلی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا غیر مناسب، غیر اخلاقی ، غیر انسانی اور غیر اسلامی حرکت جو کسی بھی بنی نوع انسان کی عزت اور تقدس کو مجروح کریں جو قانون، شریعت اور اخاقیات کی منافی ہو۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بہت سارے کالے بھیڈئے کچھ سر عام اور کچھ پس پردہ اپنی نفسی خواہشات اور حوص کی خاطر اس طرح کے افسوس ناک اور شرمناک قدم اٹھاتے ہیں جن کے خلاف ائے روز مظاہرے اور احتجاج ہوتے ہیں لیکن یہ شرمناک بیماری رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ معاشرے میں ہر طرف مایوسی اور خوف و حراس پھیل چکا ہے۔ اس معاشرتی ناصور کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں جنسی تشدد اسکے اقسام اور اسباب کو سمجھنا ہوگا۔یہ ایک ایسا معاشرتی مسلہ ہے جس پر کھل کر بات بھی نہیں کی جاسکتی ہےالبتہ یہ اس قدر سنگین مسلہ بن چکا ہے کہ اسکے بارے میں میڈیا پر بات کرنی پڑے گی۔ا س کے ساتھ ساتھ یہ ہماری اخلاقی زمہ داری بنتی ہے کہ اس وبال بیماری کے بارے میں آواز بلند کی جائے.
جنسی زیادتی ایک شخص کے کردار، اعتماد کو دھوکہ دینا اور اس کے حق کو مارنا ہے جو کہ وہ اپنے جسم کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں رکھتا ہے۔ جنسی زیادتی حق اور طاقت کا ناجائز استعمال ہے۔جنسی زیادتی بالغ افراد اور بچوں، عورتوں اور مردوں، اور ہر عمر اور پس منظر کے لوگوں کے ساتھ ہو سکتی ہے۔
جنسی زیادتی کو جنسی بدسلوکی یا جنسی تشدد بھی کہا جاتا ہے۔ جنسی زیادتی کو بیان کرنے والے الفاظ جیسا کہ زنا،بدفعلی اور جنسی بدسلوکی اور جنسی بدفعلی بھی کہتے ہیں۔۔جنسی زیادتی ایک ناگوار، غیر اخلاقی، غیر مہذب، غیر بدسلوکی واقعہ ہےجو کسی بھی معاشرے میں برا سمجھا اور دیکھا جاتا ہے جو عموما کم عمر میں معصوم بچوں کے ساتھ بدچلن اور بدمعاش لوگ ان معصوم بچوں کو اس برے صحبت میں مبتلہ کرتے ہے۔اور ان پھول جیسے بچوں کا مستقبل نیست و نابوت کر کے رکھتے ہیں اگر انسان ہونے کے ناطے دیکھا جائے تو یہ وبال جرم کس بھی صورت میں کسی بھی معاشرے میں قابل قبول اور قابل برداشت نہیں سمجھی جاتی ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی یا بدفعالی مختلف شکل میں ردعمل ہوتی ہے۔ ان میں جنسی حراسگی یا جنسی تشدد، نفسیاتی تشدد، زہنی تشدد،زہنی اور جزباتی تشدد، برے عادات اور طور طریقے میں بچوں کو شامل کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ جب کوئی حیوان ان بچوں کے ساتھ ایسے ناگوار اور غیر اخلاقی تشدد کرتا ہے اور بچوں کو مکمل طور پر اپاہچ اور معاشرتی طور پر الگ تھالگ کرکے رکھ دیتا ہے۔
جنسی زیادتی کئی طریقوں سے رونما ہو سکتی ہے اور اسکے حقائق مختلف ہو سکتے ہیں۔ ان تمام حقائق کا جاننا ہم سب کے لیے انتہائی ضروری ہے۔جنسی زیادتی کے زیادہ تر واقعات کا رونما مردوں کی طرف سے عورتوں اور بچوں جس میں (لڑکا، لڑکی)دونوں کے خلاف کیا جاتا ہے۔مردوں کو بھی جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو زیادہ تر دوسرے مردوں کی جانب سے قوت ازمائی کے زریعے رونما ہوتی ہے۔جنسی زیادتی کا سامنا کرنے والے اکثر افراد اس کا ظلم اور جرائم کو کرنے والے افراد سے واقف ہوتے ہیں کیوں کہ یہ افراد انکے دوست، رشتہ دار اور پڑوسی بھی ہو سکتے ہیں جو ان بچوں کے بارے میں مکمل علم رکھتے ہیں اور انکی حرکات و سکنات کو بے خوبی جانتے ہیں۔ جنسی زیادتی کے کچھ اثرات مندرجہ زیل ہیں۔جنسی طور پر ہراساں کرنا۔بغیر مرضی کے چھونا،مجبور کر کے یا زبردستی جنسی سرگرمیوں یا جنس سے تعلق رکھنےوالےسرگرمیوں میں شامل کرنا، بشمول ایسی سرگرمیوں کے جن میں تشدد اور تکلیف کا عنصر شامل ہو۔
اپنے جنسی اعضاء کو دوسروں کے سامنے ننگا کرنا جیسا کہ جسم کے حساس جگہوں کو بغیر اجازت چھونا، انکا پیچھا کرنا، سوشل میڈیا پر بغیر رضامندی کے جنسی قسم کی تصاویر (یا ویڈیوز) پوسٹ کرنا،ان بچوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے یا خراب کرنے کے لیے انکو نشہ آور چیزیں سکریٹ، منشیات اور شراب استعمال کروانا۔کسی بچے کو یا بے بس شخص کو کسی بھی قسم کی جنسی سرگرمیوں میں شریک کرنے کے لیے تیار کرناکسی بچے کے ساتھ کوئی بھی جنسی عمل ردعمل کرنا۔
جنسی زیادتی اور جنسی جذبات کا اظہار ایک ہی چیز نہیں ہیں۔ جنسی زیادتی سے مراد ایسا ان چاہا جنسی رویہ یا جنسی عمل ہے جس میں اختیار کا استعمال کرنے اور کسی کے انتخاب کے حق کو رد کرنے کے لیے خوف، جبر یا طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جنسی زیادتی یا بدسلوکی ایک ہی بار ہونے والا واقعہ بھی ہو سکتا ہے یا پھر تشدد کے ایک سلسلے کی کڑی بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے مختلف قسم کے اثرات ہو سکتے ہیں جیسا کہ جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی اثرات وغیرہ شامل ہیں۔
جنسی زیادتی کے اثرات مختلف ہو سکتے ہیں، جس میں ایک درندہ شخص کی طرف سے دوسرے معصوم شخص پر کیا گیا تشدد جیسا کہ جنسی زیادتی کسی انسان کی زندگی میں پیش آنے والے انتہائی تکلیف دہ واقعات میں شامل ہے۔ اس کا شکار ہونے والے یا اس کی زد میں مبتلہ افراد یا بچ جانے والے شخص پر یقین کر کے اور اس معاملے کو سنجیدگی سے لے کر اس کی فوری ضرورت کو پورا کرنے سے اس کو مزید نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔جب بھی ایسے واقعات کسی بھی صورت میں سننے میں دیکھنے میں آتے ہیں تو رونگٹے کھٹے ہوتے ہے۔ ان وبال اور بدچلن واقعات کے اثرات کے متعلق بہت سارے فلمیں اور ڈرامے بنائے گئے ہیں۔ جس میں ہائی وے، میری گڑیاں اور کہانی ٹو وغیرہ شامل ہیں۔کیوں کہ ہمارا معاشرہ ایسے ہرکات کرنے سے منع فرماتا ہے۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کئی واقعات پاکستان سیمت گلگت بلتستان میں روز بروز بڑھتے جارہے ہیں اور ان جرائم کے بڑھنے کا بنیادی وجوہات کیا ہیں، ایسے جرائم ایک اسلامی اور مہذب معاشرے میں کیوں کر پروان چڑھتے ہیں۔ کیا ایسے جرائم کو ہوا دینے کے لیے کوئی اور ہاتھ ملوث ہے یا ہم خود اس وبال بیماری کو پھلا رہے ہے۔
پاکستان کے تمام صوبوں اور بلخصوص گلگت بلتستان میں بہت سارے ایسے وقعات رونما ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ جس میں زینب کیس، قصور واقعہ اور گلگت بلتستان میں حسنین، دیدار حسین اور کچھ دن پہلے غزر میں ایک اور واقعہ رونما ہوا ہے، جس کو زکر کرنا مناسب بھی نہیں ہے۔
جب یہ واقعہ کسی کے ساتھ پیش آتی ہے تو بروقت پولیس کو اطلاع دینا ایک مشکل فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے۔کیوں کہ وہ بندہ اپنے مسائل دوسروں کے ساتھ اظہار نہیں کرسکتا ہے۔ وہ اپنی توہین سمجھتا ہے۔جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے لوگ اپنے رد عمل کئی مختلف طریقوں سے اظہار کرتے ہیں بعض اوقات انتہائی جذباتی انداز میں اور بعض اوقات خاموش ہو کر اور بعض اوقات جس بندے کا ساتھ تشدد ہوا ہے وہ خدکشی کرنے پہ بھی اتر آتا ہے۔
جنسی زیادتی معاشرے میں پائے جانے والے طاقت کے عدم توازن کا ایک غلط استعمال ہے۔ جنسی زیادتی کے اکثر واقعات کی اطلاع پولیس کو نہیں دی جاتی۔کیوں کہ جس بندے کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے وہ یا تو خوب میں مبتلہ ہوتا ہے یا اسکو دھمکی مل رہی ہوتی ہے کہ اگر اپنے بتانے کی کوشش کی تو جان سے مارینگے۔ یا وہ اپنی عنا اور عزت کا مسلہ سمجھ کے نہیں بتا رہا ہوتا ہے جس کی وجہ یہ بد فعالی اور بڑھ رہی ہوتی ہے اور رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔
بدقسمتی سے ہم ایسے معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہے جس میں ظلم کرنے والا طاقت ور اور مظلوم بے بس ہے۔ اور جو بچوں کے ساتھ بدفعالی کرتا ہے وہ خود کو بڑے فخر سے ہیرو سمجھ رہا ہوتا ہے۔وہ خود کو دوسرے بندوں پہ حاوی سمجھتا ہے اور اس بندے سے دوسرے بندے خوب میں مبتلہ ہو کر اس بدکردار شخص سے دوستی نبھاتے ہے تاکہ کل کو کوئی اور واقعہ انکے ساتھ پیش نہ آئے۔
زیادتی کرنے والے افراد کون ہو سکتے ہیں اور یہ افراد کیسے ان ننےمعصوم اور پھول جیسے بچوں کو کیسے اس مرض میں مبتلہ کرتے ہے،اگر بہت سارے ایسے واقعات اٹھا کے انکے بارے میں پڑھے تو ان تمام واقعات میں قریبی رشتہ دار، ہمسائے، دوست اور فیملی ممبران بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ یہ افراد ان معصوم پھول جیسے بچوں کے ساتھ دوستی نھباتے ہے، انکے ساتھ کھیل کود میں حصہ لیکر انکی زندگی کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو تمام والدین کے لئے انکا ہر بچہ خاص اور بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے،
والدین اپنے بچوں کو حد سے زیادہ چاہتے ہیں۔ بحثیت والدین ہونے کے ناطے ہم پہ یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے بچوں پہ نظرثانی رکھیں، کیا ہمارے بچے سوشل میڈیا کا استعمال بار بار کر رہے ہیں۔کیا ہمارے بچے بلاوجہ موبائل کا استعمال کر رہے ہے ۔ انکی دوستی کن کن بندوں کے ساتھ ہیں، سوشل اداروں میں انکی دوستی کن کے ساتھ ہیں، بحثیت والدین ہونے کے ناطے ہمیں اپنے بچوں کو کتنا وقت دے رہے ہیں، کیا ہم اپنے بچوں کے ساتھ یا بچے اپنے والدین کے ساتھ کوئی بھی مسئلے کو آزادانہ طور پر اظہار کر سکتے ہیں؟ ان تمام سوالوں کے بارے میں بحثیت والدین ہمیں سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔کیاہمارے بچے گھر، محلہ، گاوں شہر، اور اسکول میں باحفاظت زندگی بسر کر رہے ہیں، کیا ہمارے بچے کشادہ ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں، بحثیت والدین ہمیں ہر وقت اپنے بچوں پہ نظر رکھنی ہوگی، بحثیت اسکالر،کونسلر، اساتذہ، بحثیت لکھاری بحثیت رپورٹر بحثیت سوشل ورکر اور متعلقہ ادارے ملکر اپنے اپنے شعبوں میں اپنی زمہ داری احسن طریقوں سے نبھانے کی اشد ضرورت ہیں، بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کو آگاہی پروگرام کروانے کے لیے تمام اداروں کو ملکر کام کرنے کی ضرورت ہیں۔ اور سماج سے ان درندوں کو تمام قانون نافظ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر انکو سر عام بے عزت اور سزا اور ان پہ نظر رکھے تو اس بدفعالی سے چھٹکارا پا سکتے ہے۔ جس میں ہم پیار محبت اور بھائی چارگی کی فضا قائم کر سکتے ہے۔جس نے کسی شخص کی رہنمائی کسی اچھائی کی طرف کی اس کو وہی اجر ملے گا جو اس بھلائی کرنے والے کو ملے گا۔ (صحیح بخاری ح 1893)،
|
|
|