کالمز

مرد عورت مارچ سے آخر چڑتا کیوں ہے؟

 میمونہ عباس

بات دراصل یوں ہے کہ عورت مارچ مردوں کی وجہ سے ہو رہا ہے اور مردوں ہی کے لیے ہو رہا سو لازم ہے کہ وہ تو بولیں گے۔ عورت نے اپنے خلاف ہونے والے مظالم کو علامتی زبان جو دی ہے۔ عورت کو روندتے، معصوم بچیوں اور بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے، غیرت غیرت کا گھناؤنا کھیل کھیلتے، ٹھرک کو اپنا قومی فریضہ سمجھ کر راہ چلتی لڑکیوں کو چھیڑتے، اپنی پسند کی عورت کا جسم حاصل کرنے میں ناکامی پر اس کا چہرہ بگاڑتے اور عورت کو انسان کی جگہ مشین سمجھتے مرد اب درندوں سے زیادہ وحشی اور خطرناک ہوچلا ہے۔ اسے عورت کی اپنی مرضی سے جینے کی آزادی کے نعرے سے زیادہ تکلیف اس بات کی ہے کہ ان نعروں کے پیچھے بار بار اسے اپنا کریہہ چہرہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ اپنے باطن کی جس گندگی اور غلاظت کو وہ شرافت اور اجلے لباس کے پیچھے چھپا کر مہذب نظر آنے کی اداکاری کر رہا ہے، اس عورت مارچ نامی بلا نے پوری طاقت اور قوت سے مرد کی اس کاوش پر پانی پھیرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ تو بھئی ایسے میں مرد کا جلنا، کڑھنا، فتوے لگانا اور بےحیائی پھیلانے کے الزام لگانا… سب بنتا ہے! کیونکہ کسی بھی دباؤ میں آئے بغیر ، نہایت بےخوفی اور بدلحاظی سے مرد کو اس کا بدصورت اور ننگ روپ نعروں، پوسٹر اور پلے کارڈ کی صورت آویزاں کرکے کر عورت اسے احساس دلانے چلی ہے کہ اسے بھی ظلم کو ظلم کہنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ پھر مرد بھلا کیوں چاہے گا کہ جس عورت کو ہمیشہ سے جوتی کی نوک پر رکھ کر، عریاں کرکے، رکھیل اور طوائف کہلوا کر اپنی مردانگی پر اتراتا رہا ہو، آج اسی عورت کے ہاتھوں بے نقاب اور مطعون ہو اور پوری دنیا اس کا تماشا دیکھے!

مرد تو اکثر ہی عورت کا تماشا لگوا کر تماش بین بن کر حظ اٹھاتا رہا ہے۔ کبھی بیوی کو پیٹ کر تو کبھی اس کے آگے نہ جھکنے والی عورت کا چہرہ تیزاب سے جلا کر، کبھی ریپ کر کے تو کبھی غیرت کے نام پر قتل کر کے، کبھی پسند کی شادی کرنے والی بہن یا بیٹی کا گھر اجاڑ کر اور کبھی اپنی مردانگی کے زعم میں اندھا ہو کر! اور ہمیشہ عورت سے خاموش رہنے اور ظلم سہنتے رہنے کی توقعات باندھے رکھیں۔ اب جب عورت نے چپ کا قفل توڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اس پر مرد کا تلملانا بنتا ہے۔ آخر کو یہی عورت اسی کی عزت بھی تو ہے،جس پر آنچ آنے کے خوف سے وہ اس پر زندگی کے دروازے آسانی سے بند کردیتا ہے۔ لیکن اسکا نتیجہ کیا نکلا؟ کہ گھٹن بڑھتے بڑھتے یکدم کسی لاوے کی طرح پھٹنے کو ہے۔ تبھی تو عورت اب کہنے لگی ہے کہ جسم اس کا ہے تو مرضی بھی اس کی ہوگی۔ جس کا سیدھا سادا مطلب یہی ہے کہ اب اسے بھی مشین سے بڑھ کر انسان سمجھا جائے اور یہ کہ اب گول روٹی نہ بنا سکنے پر مرد اسے موت کے گھاٹ نہ اتار سکے۔

عجیب المیہ ہے کہ پدرسریت کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے مرد کو انسانیت چھوڑ کر ہر شے بھاتی ہے۔ قبروں سے مردہ عورتوں کی لاشیں نکال کر نوچتے کھسوٹتے وہ بھول بیٹھا ہے کہ اسے خود پر ترس کھا کر ہی سہی اپنے اندر کے وحشی درندے پر غالب آنا ہوگا۔ کیونکہ عورت تو عورت کا ہاتھ تھام کر اپنی راہ ہر حال میں ہموار کرتی جائے گی۔ چاہے اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والی عورت بظاہر نسوانی جسم دکھائی دینے والی مگر حقیقت میں پدرسری سوچ کی حامل دوسری عورت ہی کیوں نہ ہو، بھلے اسے پیس کر مٹی ہی کیوں نہ کر ڈالو، مگر یہ سچ ہے کہ وہ وہاں سے بھی کونپل بن کر پھوٹے گی کہ تخلیق عورت کی سرشت میں ہے۔ لیکن اگر مرد کو اب بھی عقل نہ آئی اور اس نے اپنی روایتی سوچ کو بدلنے کی کوشش نہ کی تو اسے عورت کا کم اپنا نقصان ذیادہ بھگتنا پڑے گا۔

 میں جانتی ہوں، عورت اذیت کے اندھیروں میں بھٹک کر روشنی لانے کی اہلیت رکھتی ہے، وہ درد کی اتھاہ گہرائیوں سے ابھر کر زندگی کو وجود بخشتی ہے، مرد اسے دبانے کی کوشش تو کر سکتا ہے، لیکن اس کے نتیجے میں نہ روشنی ختم کرسکتا ہے نہ ہی زندگی۔ تو کیا یہ بہتر نہیں کہ عورت مخالف ہوکر زندگی کا توازن بگاڑنے کے بجائے اس کے دکھ سکھ کا ساتھی بن کر برابری کی بنیادوں پر زندگی نہ صرف خود بھی جیے بلکہ اسے بھی جینے دے۔ ورنہ دوسری صورت میں عورت مارچ جیسی تحریکوں پرجل بھن کر کوئلہ ہونے سے اچھا ہے کہ اپنے گریبان میں ایک بار ضرور جھانک کر دیکھ ہی لے تاکہ وہ میل نظر آسکے جسے صاف کرنے کا بیڑا اٹھا کر عورت گھر سے نکلی ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button