کالمز

عالمی یوم خواتین کا اصل مقصد ۔۔ایک جائزہ

تحریر: دیا زہرا

کسی بھی دن کو منانے کا خاص مقصد ہوتا ہے اور جب اجتماعی طور پر اس دن کے حوالے سے آواز اُٹھائے تو اُس اجتماعی کوششوں سے مقصد منزل کے قریب پہنچ جاتے ہیں در اصل آٹھ مارچ منانےکا بھی یقیناً کوئی نہ کوئی مقصد ہوگا اور وہ مقصد یقینًا یہی ہونا چاہیے کہ خواتین کے اوپر ہونے والی نا انصافیوں اور ظلم و زبردستی کو روکا جائے مظلوم خواتین کی دبی ہوئی آوازوں کی طاقت بنیں مگر  یہ سارے مقاصد ایک سلوگن کی نظر ہوتے دکھائی دے رہی ہیں اصل مقصد کو کھو کر سبھی سلوگن کے اوپر بحث ومباحثے میں مصروف نظر آتے ہیں۔یہاں تک کہ خواتین خود ایسے بلا جواز اور بے مقصد سلوگن کو لیئے اپنی عزت نفس مجروح کر رہی ہیں ۔ایسے میں سوال تو بنتا ہے کہ کیا آٹھ مارچ کو ہی عورت کے حقوق پر بات ہو سکتی ہے؟کیا خواتین کے حقوق کی تحفظ کے لیئے کوئی اور سلوگن موضوع بحث نہیں تھا؟ کیا اس سلوگن سے خواتین  کی عزتِ نفس مجروح نہیں ہو رہا؟کیا تمام عورتیں ایک جیسی ہوتی ہیں؟پانچویں اُنگلیاں جب برابر نہیں تو تمام مرد و عورت  ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں؟ہم معاشرے کے جس طبقے کے حوالے سے بھی آواز اُٹھا رہے ہیں کیااُس کی اکژیت اپنے حقوق سے محروم ہیں یا نہیں؟۔یہ بات واضح طور پر عیاں ہے کہ زیادہ تر خواتین اپنے حقوق سے محروم زندگی گزار رہیں ہیں ۔اس معاملے میں کہیں پر  مرد ظالم و جابر اور درندہ ثابت ہوتا ہے  تو کہیں پر عورت اس معاشرے میں ایک ناسور بن کر اس معاشرے کی خوبصورتی کو دھندلا کر دیتی ہیں ۔بات مرد و عورت کی نہیں بات ایک اچھے اور برے انسان کے حقوق کی ہونی چاہیے ،بات مظلوم اور ظالم کی ہونی چاہیے بات انصاف اور ناانصافی کی ہونی چاہیئے لیکن ہم سب اپنے اپنے پانچویں حس سمیت سو رہے ہیں اچھے اور بُرے کی تمیز ہم کھوچکے ہیں انصاف اور نا انصافی میں ہم فرق کرنے سے محروم ہیں ایک دوسرے کو تنقید کرنے کے علاوہ ہم اپنا راستہ سیدھا کرنے کے حق سے محروم ہو چکے ہیں صرف ظاہری شوشا اور منافقت کو ترجیح دیتے ہیں اصل انسانیت اور خلوص کی بجائے ظاہری قدوقامت کو لوگ پسند کرتے ہیں معاشرے کی اصل ناکامی  یہی سے شروع ہوتی ہے ۔۔بات گمانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم آٹھ مارچ منانے کا کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ۔۔ایک سلوگن پر بحث چھڑ گئی اور سب کے سب حقوق آکے اسی پر ختم ہو گئے یہ کہاں کا انصاف ہے؟  سوال پھر بھی اُٹھ رہا ہے حقوق کی پامالی یہاں سے ختم نہیں شروع ہو رہی ہے کیونکہ  اچھے اور برے کی تمیز کئے بغیر سب کو ایک ہی کشتی میں سوار کر رہے ہیں۔سلوگن اگر ایسا ہوتاجس میں عورت کی عزت کی پامالی نہ ہو اور عورت کے اُوپر ہو نے والی ناانصافیوں کو اُجاگر کیا گیا ہو – مگر ایسا نہیں ہوا ۔سسکتی بلکتی ہزاروں بے گناہ عورتیں عزت کی حفاظت کے لیئے صبر واستقامت کا دامن ساری زندگی نہیں چھوڑتی اس سلوگن نے اُن کی سب کی سب قربانیوں کو متناضع بنا دیا۔ ہر کوئی اپنی اپنی بساط کے مطابق اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نظر آتےہیں۔

بات سچ ہے کہ کسی پر کوئی زبردستی نہیں یہاں تک کہ کسی کافر سے بھی زبردستی اسلام قبول نہيں کروا سکتے لیکن بات کو مختلف زاویوں سے گھما رہے ہیں- عورت مرد نہیں بلکہ بحثیت انسان بحثیت مسلمان عورت مرد سب کے لیئے اسلام میں ایک دائرہ کار ہےجو کہ 14سو سال پہلے حضورۖ نے ہمیں بتایا ہوا ہے کہ سب کے لیئے برابر کے حقوق ہیں- اگر اسلام کے مطابق سب کو اُن کے حقوق دیئے  جائے تو کسی کے اوپر کوئی  زیادتی نہیں ہوگی۔
عورت کو میرا جسم میری مرضی کے مطابق نہیں بلکہ معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنا چاہیئے مگر افسوس ہے کہ ہزاروں عورتیں اپنے جائز حقوق سے بھی محروم ہیں اور ہزاروں حقوق کا نا جائز استعمال کرتے ہوئے بھی  نا حق حقوق کے لیئے چیخ رہی ہیں یہ دو زاویے ہیں۔
 اسلام نےتو بے شمار حقوق دیئے ہیں مگر سوال تو بنتا ہے کہ کیا معاشرے میں ہر عورت کو اسلام کے دیئے ہوئے حقوق  مل ریے ہیں؟اگر مل رہے ہیں تو کتنے % خواتین کو؟ عورت کی آزادی کا مطلب منفی بھی لے سکتا ہے اور مثبت بھی۔۔یہ انسانوں کی سوچ پر منحصر ہے کہ لوگ عورت کی آزادی کا کیا مطلب نکالتے ہیں۔۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اسلام نے جو حقوق عورتوں کو دیئے ہیں کیا معاشرہ وہ سب دے رہا ہے؟یقینا ایسا نہیں ۔۔ورنہ کوئی بھی طبقہ اپنے حقوق کے لیئے رونا نہیں رو رہا ہوتا۔بذات خود عورت ہونے کے  ناطے عورت کی آزادی کو اسلام کے اصولوں کی منافی پر چلنے کو آزادی نہیں سمجھتی بلکہ اصل آزادی عورتوں کی عزت نفس کو مجروح کئے بغیر اُن کے حقوق  جو اسلام نے دیئے ہوئے ہیں۔جیسے کی تعلیم ،وراثت، برابری، اس کے علاوہ شادی کے معاملات  سب شامل ہیں ملنا ضروری ہے لیکن افسوس کا مقام  یہ ہے  کہ%50 خواتین ان سب سے محروم  ہیں توکیا یہ اسلام میں جائز ہے؟  جب ایسے معاملات  میں بھی اگر ایک عورت بولیں تو معاشرہ اس عورت کو بے جا آزادی بے جا حقوق کے نام سے نوازتا ہیں یہ سراسر زیادتی اور ظلم نہیں تو کیا ہے؟ کیا اسلام نے عورتوں کو تعلیم اور وراثت کا حق  نہیں دیا؟  کیا اسلام نے عورتوں کی مرضی کے بغیر جس کے ساتھ چاہے باندھ کے دینے کا حکم دیا ہے؟اگر نہیں تو ایسا کیوں  ہو رہا ہے؟  لیکن لوگ اسے بھی غلط رنگ دے دیتے ہیں۔ ہزاروں خواتین اسلام کے دیئے ہوئے حقوق سے بھی محروم  ہو کر سسکتی بلکتی غیرت کے نام پر زندہ درگور ہو رہی ہیں اگر عورت مارچ والی خواتین ایسے حقوق سے محروم خواتین کی آواز بن رہی ہے تو بلا شبہ ہم بھی اس مارچ کی ہمایت کریں گے  ورنہ خواتین کو بے جا سڑکوں پر لا کے نعرہ بازی کرنے اور ایک بے مقصد سلوگن کے پیچھے ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ بلکہ اس سے اصل حقوق ہزف ہو رہے ہیں ۔اور کچھ عناصر اس بات کو لیکر مزید عورت کی عزت نفس مجروح کر رہے ہیں ۔
عورت کو اگر دین اسلام کے تحت حقوق ملے تو اس معاشرے میں کوئی بھی عورت عدم تحفظ کا  کا شکار نہیں ہو گی۔اسلام کے خلاف رد عمل ہی عورتوں پر ظلم و تشدد کی زندہ مثال ہےنہایت ہی افسوس کا مقام ہےکہ دنیا میں آج بھی کڑوروں خواتین کے ساتھ زبردستی کی جاتی ہیں اور غیرت کے نام پر قتل یا زندہ درگور کئے جاتے ہیں اور اسلام ان سب کی اجازت نہیں دیتا آئے روز الیکڑانک میڈیا ،پرنٹ میڈیا پر لاکھوں  بچیوں اور خواتین کے ساتھ ظلم و ستم کی جو خبریں ملتی ہیں کیا سب کے سب جھوٹ ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ اور آج بھی ہمارے معاشرے میں ایسی ہزاروں مثالیں ملنا عورتوں کے حقوق پامال ہونے کا واضح ثبوت ہیں۔اگر یہی سلسلا چلتا رہا تو دن گزر جائے گا  جس طرح گزر رہا ہے بولنے والے بولتے جائیں گے لکھنے والے لکھتے ۔اور صورتحال وہیں کی وہیں رہےگی اور خواتین جن مسائل کا شکار ہیں وہ شکار ہی رہیں گی۔انہیں درپیش مسائل کا دائمی حل تلاش کیا جائے گا نہ ہی انہیں مسائل سے چھٹکارا دلانے کی سنجیدہ کوشش کی جاسکتی ہے ۔۔
ہمیں تنقید اور بے جا باتوں سے جھگڑنے کی بجائے اصل حق تلفی کیا ہو رہی ہیں اُس کی طرف قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے ۔عورت مارچ کے نام پر دو طرح کے رد عمل سامنے آرہے ہیں
"خلیل الرحمٰن اور ماروی سرمد”.
گزارش یہ ہے کہ اس مارچ کے اصل مقصد پر بات کریں. تیسری دنیا کی طرف ہم کیوں نکل رہے ہیں. عورت کی تعلیم پر بات کریں، مفت تعلیم کی بات کریں، والدین کے بے شعوری کے خلاف آواز اٹھائیں جو لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں، ان سسرال والوں کی ذہنی پسماندگی پر بات کریں جو بہو کو جہیز نہ لانے پر جلا دیتے ہیں،ان خواتین کی بات کریں جو دن رات کارخانوں اور کھیتوں میں کام کر کے مناسب اجرت نہیں کما سکتی، کم عمری کی اور مرضی کے خلاف شادی کی بات کریں.اگر حقیقی معنوں میں نا انصافیوں کو اُجاگر کرنا ہے تو  گھروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ظلم کرنے،حوا کی بیٹیاں کہاں اور کس کس طریقے سے مختلف پلیٹ فارم پر   ظلم کا شکار ہو رہیں ہیں کہاں کہاں پر محفوظ نہیں ہیں اسے اُجاگر کریں زینب کی طرح ہزاروں زینب کن مظالم کا شکار ہو رہیں ہیں اُس پر بات کریں حالانکہ مار پیٹ سے زیادہ تکلیف دہ چیز عزت نفس ہے جس  کو ہزاروں لوگ پامال کر رہے ہیں اس پر جھنڈے اُاٹھائے نہیں تو اصل حقائق پر پردے پڑ جائیں گے اور تیسری دنیا کی آواز بلند ہو جائے گی۔ اور  اس قوم کی خوشیاں زرد ہوتے دیر نہیں لگیں گی۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button