کالمز

جشنِ مولودِ کعبہ

دل کی اتھاہ گہرائیوں سے جشن مولود کعبہ کی مبارک باد قبول کجیئے۔ آج اس ہستی کا یوم ولادت ہے جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہ الفاظ ’’علیؑ مجھ سے ہیں اور میں علیؑ سے ہوں۔‘‘ کبھی یہ فرمایا کہ ’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔‘‘ کبھی یہ سننے کو ملا ’’تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علیؑ ہے۔‘‘ کبھی یہ فرمایا ’’علیؑ کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔‘‘ کبھی یہ فرمایا کہ علیؑ مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔‘‘ کبھی یہ کہ ’’وہ خدا اور رسولؐ کے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘ یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی علیہ السلام کو نفسِ رسولؐ کا خطاب ملا۔ عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علیؑ کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔ جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علیؑ کو پیغمبر نے اپنا دنیا و آخرت میں بھائی قرار دیا اور سب سے آخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علیؑ کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ ’’جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علیؑ بھی مولا ہیں۔‘‘

مولائے کائنات کی ان صفات کو دیکھ کر مجھے ایک شعر یاد آرہا ہے۔ کسی نے خوب ہی کہا ہے؎

علیؑ کو کیسے میں مولائے کائنات کہوں
علیؑ کی ذات بڑی کائنات چھوٹی ہے

مولانا کوثر نیازی مرحوم عاشقانِ علیؑ میں شمار ہوتے تھے۔ برملا کہنے لگے؎

بغیر حب علیؑ مدعا نہیں ملتا
عبادتوں کا بھی ہر گز صلہ نہیں ملتا
خدا کے بندو سنو! غور سے خدا کی قسم
جسے علیؑ نہیں ملتے اسے خدا نہیں ملتا
بصد تلاش نہ کچھ وسعتِ نظر سے ملا
نشان منزلِ مقصود راہبر سے ملا
علیؑ ملے تو ملے خانۂ خدا سے ہمیں
خدا کو ڈھونڈا تو وہ بھی علیؑ کے گھر سے ملا

شاعر مشرق کہاں چپ رہنے والے تھے۔ کہنے لگے؎

ہمیشہ وردِ زباں ہے علیؑ کا نام اقبال
کہ پیاس رُوح کی بجھتی ہے اس نگینے سے

یا پھر یہ شعر؎

پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال
یہ گنہ گار بوترابی ہے

یا یہ شعر کہ؎

کسی را میسر نہ شد این سعادت
بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت

مرزا اسد اللہ خان غالب وجد میں آکر کہتے ہیں؎

غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغول حق ہوں بندگی بو تراب میں

یہ تو ٹھہرے مسلمان دانشور۔ آپ ذرا ہندوستاں کی روپ کماری کا یہ قطعہ سنیں۔ آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ مولا مرتضیٰ علی علیہ السلام سے اپنی عقیدت کا اظہار ان الفاظ میں کرتی ہیں؎

نثارِ مرتضیٰ ہوں پنجتن سے پیار کرتی ہوں
خزاں جس پر نہ آئے اس چمن سے پیار کرتی ہوں

عقیدہ مذہبِ انسانیت میں کب ضروری ہے
میں بت پرست ہوں، اک بت شکن سے پیار کرتی ہوں

رسولِ خدا صلعم کے مدنی دور میں (جب وہ مدینہ ہجرت کرچکے تھے، تب) کسی گستاخ شاعر نے نبی کریمؐ کی شان کے خلاف گستاخانہ اشعار لکھے۔ اصحاب نے اس گستاخ شاعر کو پکڑ کر بوری میں بند کر کے حضورؐ کے سامنے پھینک دیا۔

سرکار دوعالمؐ نے حکم دیا: ’’اس کی زبان کاٹ دو۔‘‘

تاریخ لرز گئی، مکہ میں جو پتھر مارنے والوں کو معاف کرتا تھا۔ کوڑا کرکٹ پھینکنے والی کی تیمار داری کرتا تھا۔۔۔۔۔۔ اسے مدینے میں آکے آخر ہو کیا گیا۔

بعض صحابہ کرامؓ نے انفردای طور پر عرض کی ’’یا رسول اللہؐ میں اس کی زبان کاٹنے کی سعادت حاصل کروں؟‘‘

حضور نے فرمایا ’’نہیں، تم نہیں۔‘‘

تب رسولِ خداؐ نے حضرت علیؑ کو حکم دیا اس کی زبان کاٹ دو۔

مولا علیؑ بوری اٹھا کر شہر سے باہر نکلے۔

اور حضرت قنبر کو حکم دیا ’’جا میرا اونٹ لے کر آ۔‘‘

اونٹ آیا مولا نے اونٹ کے پیروں سے رسی کھول دی اور شاعر کو بھی کھولا اور دوہزار درہم اس کے ہاتھ میں دیے اور اس کو اونٹ پہ بیٹھایا، پھر فرمایا: ’’تم بھاگ جاؤ ان کو میں دیکھ لوں گا۔‘‘

اب جو لوگ تماشا دیکھنے آئے تھے حیران رہ گئے کہ یا اللہ، حضرت علیؑ نے تو رسولؐ کی نافرمانی کی۔

رسول خداؐ کے پاس شکایت لے کر پہنچ گئے: ’’یا رسول اللہؐ آپ نے کہا تھا زبان کاٹ دو، علیؑ نے اس گستاخ شاعر کو دوہزار درہم دیے اور آزاد کر دیا۔‘‘

حضورؐ مسکرائے اور فرمایا ’’علیؑ میری بات سمجھ گئے۔ افسوس ہے کہ تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘

وہ لوگ پریشان ہوکر یہ کہتے چل دیے کہ ’’یہی تو کہا تھا کہ زبان کاٹ دو۔ علیؑ نے تو کاٹی ہی نہیں۔ ‘‘

اگلے دن صبح، فجر کی نماز کو جب گئے تو کیا دیکھتے ہیں وہ شاعر وضو کررہا ہے۔ پھر وہ مسجد میں جا کر حضرت محمدؐ کے پاؤں چومنے لگتا ہے۔ جیب سے ایک پرچہ نکال کر کہتا ہے ’’حضور آپ کی شان میں نعت لکھ کر لایا ہوں۔‘‘

اور یوں ہوا کہ حضرت علیؑ نے اپنی حکمت سے گستاخ رسول کی گستاخ زبان کو کاٹ کر اسے مدحتِ رسالت والی زبان میں تبدیل کردیا۔

مولائے کائنات کی سخاوت کا یہ عالم کہ عالم رکوع میں بھی ذکواۃ دی کہ جس کا ذکر قرآن پاک میں وَرْکَعُوْ مَعَ الرَّکِیِیْنْ کی شہادت کی صورت میں موجود ہے کہ ان کی پیروی کرو جو رکوع میں بھی ذکواۃ دیتے ہیں۔ آپؑ کے صبر کا یہ عالم کہ دشمن آپؑ کے چہرہ اقدس پر لعاب دھن پیھنکے اور وہ انہیں معاف کردے۔ آپ کی شجاعت و بہادری کا یہ عالم کہ خیبر کے قلعے کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور آپ کی وفاداری کا یہ عالم کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو برملا کہنا پڑا کہ ’’اے علیؑ آپ دنیا و آخرت میں میرے بھائی، وصی اور میرے بعد مومینین کا مولا ہیں۔‘‘

میں نے قلم اٹھایا تھا مبارک باد دینے کے لیے۔ پھر خیال آیا کہ کچھ تحریر بھی کروں۔ لیکن جب پیر ناصر خسروؒ کے اس حکیمانہ شعر پر نظر پڑی تو مجھے اپنی کم مائیگی کا شدّت سے احساس ہوا۔ وہ فرماتے ہیں؎

بصد سال اگر مدح گوید کسی
نہ گوید یکی از ہزارِ علیؑ

تو چہ جائیکہ ان مختصر سطور میں ہم مولائے کائنات کی شخصیت کا احاطہ کرسکے۔ بس قلم سمیٹتے ہوئے یہ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں آپ علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button