بے لگامی۔ ۔
تحریر محمد قاسم نئر مہدی آبادی
سقراط نے کہا ” سب سے قابل رحم ہستی غلام ، غریب ، یا بیمار کی نہیں ہے بلکہ ایک جاہل آدمی کی ہے اور اس سے بھی زیادہ ہمدردی کا مستحق وہ شخص ہے جس کا آقا بد تہذیب اور پست خیالات کے حامل ہو،
موجودہ دور میں ہماری سماجی حالت اور رویوں کا پیش نظر سقراط کا یہ قول باربار خیالات اور افکار میں گردش کرتی رہتی ہے۔ آج کل پڑھے لکھے معاشرے میں کم علم، کم فہم اور کوتاہ اندیش لوگ معاشرتی معاملات سنبھالنے، عوامی ترجمانی اور سردگی میں مصروف عمل نظر آتے ہیں لیکن افراد معاشرہ اس عمل سے مکمل طور پر فارغ البالی کا شکار ہیں
نقصان اور خطرے کی گھنٹی تب محسوس ہوتی ہے جب انسان کسی بڑی مصیبت سے دوچار ہوتا ہے۔ چند روزہ زندگی میں نا اہل اور نا سمجھ لوگ اپنے آپ کو سنجیدہ ظاہر کرنے اور سماج میں منفرد مقام حاصل کرنے کی تگ و دو میں سچائی کو پس پشت رکھ کر جھوٹ کو اپنا قرینہ بناتا ہے
ایسے لوگ اپنے محلے اور گاوں میں سطحی خیالات کے لوگوں کو اپنے دائرے حماقت میں لاتے ہیں اور ان کے ذہنوں پر بڑی مکاری اور ہوشیاری سے اپنی سوچ مسلط کر کےتابع بناتا ہے
ایسے لوگ شیطان کے تابع ہو کر جن بلاوں میں خوش ہیں پورے معاشرے کو اپنی تابع کرانے کی کوشش میں رہتے ہیں اور لالچ ، ہوس اور رہنمائی کے نشے میں اپنے جیسے زہنیت کے مالک افراد کا ٹولہ بنا کر اپنی ہم آہنگی کا وسیلہ ڈھونڈتے ہیں۔ معاشرے کے باخبر شخصیات کو ایسے عنا صر کی نشاندہی کرنے کی اشد ضرورت یہی لوگ، لوگوں میں جھوٹی افواہیں پھیلانے اور افراتفری ڈالنے میں پیش پیش ہوتے ہیں اور کسی شخصی اور معاشرتی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہے۔ یہی لوگ ہے جو ظاہر میں ہیرو لیکن باطن میں جھوٹے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ دنیا میں سچائی کو بڑی عزت دی جاتی ہے اور سچے انسانوں کی قدر بھی کی جاتی ہے لیکن دور جدید میں لوگ عموما” سچ کو کچھ اچھا نہیں سمجھتا اسی لیے جھوٹے لوگ سماج کا علمبردار ہے۔ آجکل جھوٹ اور ریاکاری کی ہر جگہ اداکاری ہے ۔ جھوٹ اپنی سیاہی کو ایسا رنگ آمیز کر کے پھیلاتا ہے کہ سچ کی روشنی کو لوگ اپنی آنکھوں کیلے مضر سمجھنے لگتے ہیں
ہم سچ سننے اور دیکھنے کے بجائے خوشامدیوں کی باتوں پر زیادہ کان دھرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ جھوٹ راج کرتا ہے۔ آدمی اپنی شہرت ، داد خواہی اور مفادات کے حصول کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔ انسان کو جب اپنے فائدے کی کوئی صورت دکھائی دینے لگتی ہے اور اس فائدے کو پانے کے لیے جھوٹ بولنا شرط قرار دیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں سچ بھی برا دکھائی دینے لگتا ہے۔ سقراط نے کہا شہرت کی خواہش پاگل پنی ہے اور جاہل قابل رحم ہے۔ ۔ راقم اس معاشرے کو قابل رحم سمجھتا ہے جنکے پاس با شعور افراد کا فقدان ہو۔ ۔ اہل علم خود فرمایں کہ تاریک زہہن لوگ معاشرے کے بھاگ دوڑ سنبھا لنے لگے تو اس معاشرے کا کیاحال ہو گا؟
۔ صفہ٦سچائی کا ساتھ دینا اور سچ بولنا سب سے مشکل کام ہے۔ آجکل ہر طرف جھوٹ کی حکمرانی ہے سچائی کا ساتھ دینا اور سچ بولنا بہادری اور جرات کا کام تھا لیکن اس دور میں جرم بن جاتا ہے۔ جھوٹ کے ہزاروں روپ ہیں اور ہر روپ انسان کو گمراہ کرتا ہے۔ لہزا علماکرام۔، اہل علم اور اہل دانش سے اپیل یے کہ پڑھے لکھے معاشرے میں اعلی ظرف لوگوں کی قیادت اور سر پرستی کو یقینی بنایا جائے