بے سکونی کی وبا اور سکون کے ایام
یکے از تحاریر: عبدالکریم کریمی
مجھے آج آپ سے ایک ٹاپک پر بات نہیں کرنی بہت سارے بکھرے موضوعات ہیں جن پر باتیں ہوں گی۔ مجھے اُمید ہے آپ خود بھی پڑھیں گے اور اپنے پیاروں سے بھی یہ باتیں شیئر کریں گے۔ آپ حیران ہو رہے ہیں گے کہ بے سکونی کی کیفیت میں سکون کے ایام کیسے میسر ہوسکتے ہیں؟ آپ اگر عقلِ سلیم رکھتے ہیں تو ہر چیز میں خیر کا پہلو ضرور دیکھنے کی کوشش کریں گے۔
ہم آپ سب اکثر یہ گلہ کر رہے ہوتے تھے کہ زندگی بہت مصروف ہوچکی ہے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ میں نے کئی بار اس حوالے سے لکھا ہے کہ گزشہ دو تین سالوں سے سفر در سفر اور پروفیشنل مصروفیات اتنی بڑھ چکی تھیں کہ گھر پر ہوتے ہوئے ہفتوں بعد بچوں سے ملاقات ہوتی کہ جب آپ صبح سویرے گھر سے نکلتے تو بچے سو رہے ہوتے اور رات کو واپس آتے تو پھر وہ نیند کی آغوش میں چلے جاتے۔ اور یہ صرف میرا نہیں ہر اس فرد کا معمولِ زندگی تھا جو کام کرتا ہے۔
اگر بے سکونی کی اس وبا نے ہمیں کچھ وقت سکون کے دئیے ہیں تو سکون کے ان ایام کو بھرپور جینے کی کوشش کیجیئے اور اس وبا کے پیچھے رب کی اس مصلحت پر سربسجود ہوجائے کہ اس کے حکم کے بغیر تو ایک پتا بھی نہیں ہلتا۔ سورہ انعام کی آیت انسٹھ میں ارشاد ہے "درخت سے گرنے والا کوئی پتا ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔” تو پھر وہ آنسو جو تیری آنکھ سے ٹپکا، وہ درد جس نے تیرے دل کو بے کل کیا۔ کیا اس ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے رب کو اس کی خبر نہیں۔ بس اطمینان رکھئیے گا اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
میں حیران ہوتا ہوں جب اکثر لوگ مجھے فون کرکے مختلف سوالات پوچھتے ہیں کہ سر! ہماری دُعائیں رنگ کیوں نہیں لاتیں؟ گھر میں وقت نہیں گزرتا، بوریت ہوتی ہے، ہمیں ان دنوں سے کیسے فائدہ لینا چاہئیے، آخر بندہ کب تک گھر میں یوں بیٹھا رہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ پھر کچھ من چلے میاں بیوی کے مقدس رشتے پر عجیب و غریب لطیفے بھیج کر دل کی بھڑاس نکال دیتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنا پورا وقت اپنے گھر اور گھر والوں کو دیں۔ جیسے۔۔۔
۔ اپنے دن کا آغاز ذکر خداوندی سے کریں کہ رب کا وعدہ ہے "الا بذکرللہ تطمئین القلوب” کہ اللہ کا ذکر ہی دلوں کو سکون دیتا ہے۔ شرط صرف اتنا ہے کہ اس ذکر کی بنیاد عشق پر ہو۔ پھر دیکھئیے کہ آپ کی دُعائیں کیسے شرفِ قبولیت پاتی ہیں۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ رب کے عشق میں ایک مقام وہ بھی آتا ہے کہ دُعا تو دُور کی بات ہے انسان صرف سوچتا ہے اور رب نواز دیتا ہے۔
۔ قرآن پاک کی تلاوت اور کسی اچھے اسکالر کی لکھی ہوئی تفسیر پڑھنے کی عادت ڈالے۔
۔ اپنی پسند کی کوئی کتاب تسلسل سے اور روزانہ کی بنیاد پر پڑھئیے۔
۔ بچوں کے ہوم ورک میں ان کی رہنمائی کریں۔
۔ دسترخواں پر بچوں کے ساتھ دینی باتیں کیا کریں۔ غیبیت سے پرہیز کریں۔ آج کل تو یہ ایک فیشن بن گیا ہے کہ دو دوست ملتے ہیں تو تیسرے کی غیبت شروع کر دیتے ہیں۔ نبی کریم صلعم کا ارشاد ہے کہ غیبت کرنا اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے برابر ہے۔ خدارا! قرنطین کے ان دنوں اس مرض پر قابو پانے کی کوشش کیجئے جو کورونا سے زیادہ مہلک ہے۔
۔ کسی کی کامیابی پر حسد نہ کریں۔ کسی نے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ حسد ایک ایسا زہر ہے کہ جس کو انسان پیتا خود ہے اور مرنے کی امید دشمن کی رکھتا ہے۔ اس حوالے سے ایک ڈرامہ "حسد” آن ائیر ہوا ہے۔ اپنے بچوں کے ساتھ مل کر اس ڈرامے کو دیکھنے اور اس سے سبق لینے کی کوشش کیجئے۔
۔ روزانہ کی بنیاد پر کوئی اچھی فلم دیکھنے کی کوشش کریں۔ سر دست حضرت یوسفؑ پر بنی ڈاکومنڑی جو پینتالیس قسطوں پر مبنی یوٹیوب پر دستیاب ہے روزانہ کی بنیاد پر دیکھنے کی کوشش کیجیئے۔
۔ کچھ وقت میوزک سننے کی کوشش کریں کہ اکابرین نے کہا ہے کہ میوزک روح کی غذا ہوتی ہے۔
۔ ہماری ایک اور اجتماعی بیماری خود کو دودھ سے دُھلے اور دوسرے کو غلطیوں کا پلندا سمجھنے کی ہے۔ بابا جی کہتے ہیں کہ اگر انسان اپنی انگلیوں کا استعمال اپنی ہی غلطیوں کو گننے کے لیے کرے تو دوسروں پہ انگلی اٹھانے کو وقت ہی نہ ملے۔
۔ اپنی فرینڈ سرکل کو محدود کیجئیے۔ میں ان دنوں روزانہ کی بنیاد پر سو ڈیڑھ سو لوگوں کو اپنے فیس بک فرینڈ لسٹ سے ہار پہناکر رخصت کرچکا ہوں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ مولا علیؑ کا قول ہے "ہزاروں دوست بنانا اہم نہیں بلکہ ایک دوست ایسا بناؤ جب ہزاروں آپ کے خلاف ہوں تو وہ ایک آپ کے ساتھ کھڑا ہو۔” جن سے آپ کے خیالات نہیں ملتے۔ ہمیشہ شکایت سے بہتر ہے کہ کسی کو نقصان دئیے بغیر اپنی راہیں الگ کیجئے۔ شاید کچھ لوگ اس قابل ہی نہیں ہوتے ہیں کہ ان کو دوست رکھا جائے۔ جن کے بارے میں کہوار زبان کا ایک خوبصورت شعر ہے؎
ہر ای اجناری تن اصلو ویشکی بیر
گوردوغو ہُن دیکو اِستور نو غیرور
میں اس خوبصورت اور برمحل شعر کا ترجمہ کرکے اس کی لذت کو بے مزہ نہیں کرنا چاہتا۔ کہوار سمجھنے والے احباب کمنٹ میں اس کی تشریح کر سکتے ہیں۔
۔ ممکن ہو، غیرت اجازت دے اور مردانہ وقار کو ٹھیس پہچنے کا احتمال نہ ہو تو کیچن کی یاترا بھی کیا کریں تاکہ بیگم صاحبہ کو حوصلہ تو ملے کہ کوئی تو ہے جو اس کی فکر کرتا ہے۔ ورنہ وہ خود کو اکیلی محسوس کرے گی۔ اللہ معاف کرے ایسی مستورات جو شوہر سے نہ ملنے والے سکون کے پاداش میں کسی اور کے ساتھ کسی کیفے ٹیریا میں چائے کے پیالے سے اڑتے بھاپ میں اپنا غم غلط کرنے کی سزاوار ہوتی ہیں۔ کہانی چائے اور کسی انجان کے ساتھ بیتی شام پر ہی ختم ہوتی تو کوئی بات نہ تھی۔ لیکن اس غضب ناک شام اور کافرانہ اداوں کے ساتھ عکس بندی جب اس کیپشن "سکون کے لمحات” کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہے تو قیامت برپا ہوتی ہے اور ستم رسیدہ شوہر کا وقت سے پہلے بوڑھا ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔ پھر یہی دیسی دانشور مستورات، دنیا داری نبھانے کے لیے کبھی اپنے آفیشل شوہر کے ساتھ تصویر سوشل میڈیا پر دیتی ہیں تو دیکھنے والے بھی غضب کے سوال پوچھتے کہ میڈیم یہ ساتھ کھڑا چچا کیا آپ کا والدِ محترم ہیں؟
اس سوال کا جواب تو بہت دلچسپ ہے لیکن فی الحال رہنے دے۔
خیر یہ بات جملہ معترضہ کے طور پر آئی۔ بس اتنی سی گزارش ہے کہ خدارا اپنے گھر کو دوزخ نہ بنائے۔ میاں بیوی کے اس مقدس رشتے کو مردو زن دونوں سنجیدگی سے لیں۔ نبی کریم صلعم نے جہاں مردوں کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ اپنی بیویوں کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ رکھو وہاں یہ حدیثِ پاک بھی ہماری آنکھوں کو تراوت بخشتی ہے کہ "اگر سجدہ خدا کے علاوہ کسی کو جائز ہوتا تو میں عورت سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔” یہ پاکیزہ تعلیمات ہماری ازدواجی زندگی کے لیے ذادِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
بابا جی کہتے ہیں کہ رشتہ بنانا اتنا آسان ہے جیسے مٹی پر مٹی سے لکھنا اور رشتہ نبھانا اتنا مشکل ہے جیسے پانی پر پانی سے لکھنا۔ ہم شاید احساس کا مادہ کھو چکے ہیں۔ اشفاق احمد نے بڑے پتے کی بات کی ہے:
"فاتحہ لوگوں کے مرنے پہ نہیں، احساس کے مرنے پہ پڑھنی چاہئیے، کیونکہ لوگ مر جائیں تو صبر آجاتا ہے مگر احساس مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے۔”
انسان ہمیشہ اس چیز کے پیچھے بھاگتا ہے۔ جو اس کے پاس نہیں ہوتا۔ ہم شاید اپنے گھروں میں اپنے پیاروں کو سکون نہیں دیتے کہ وہ سکون کی تلاش میں کہیں اور جا رہے ہوتے ہیں۔ قرنطین کے ان دنوں جن کو میں سکون کے ایام کہتا ہوں، ہمیں اپنے پیاروں کے ساتھ بِتانے کی ضرورت ہے ہمیں اپنے رشتے کے احساس کو جگانا ہوگا۔ ہمیں ایک دوسرے کو اپنی محبت کا یقین دلانا ہوگا پھر نہ بیوی کو شوہر کو آف لائن پر رکھ کر کسی منچلے سے بات کرنے یا سکون کی تلاش میں کہیں اور کافی پینے کی ضرورت پڑے گی نہ شوہرِ نامدار اِدھر اُدھر ہانکنے کی کوشش کرے گا۔
ہاں بہت سارے احباب پوچھتے ہیں کامیابی کے لیے کیا کرنا چاہئیے۔ لوگ آگے بڑھنے نہیں دیتے رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں، تنقید کی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ان سے گزارش ہے کہ ایسے لوگوں کے سامنے خاموش رہئیے۔ یاد رہے کہ خاموشی اختیار کرنا دب جانے کی علامت نہیں ترجیحات کا فرق ہوتا ہے کیونکہ ہر بات اور ہر بندہ جواب کا مستحق نہیں ہوتا۔ یہ جو بے جا اعتراضات کرتے ہیں یہ اصل میں حاسد ہوتے ہیں اور حاسدین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حسد اس وقت کرتے ہیں جب یہ دوسرے کو خود سے بہتر سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے ان کی حسد کے پیچھے بھی کوئی محبت ہو۔ ایک اور کہوار شعر آپ کی بینائیوں کی نذر؎
مہ سار نفرت کورونیان بر ناحقہ
ہیہ الفتو علامت سریران
یاد رہے کہ آپ کا مذاق اڑایا جاسکتا ہے، آپ پر تنقید کی جاسکتی ہے، مسترد کیا جاسکتا ہے، آپ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاسکتی ہیں لیکن اگر آپ پُرعزم ہیں تو یہ سب کچھ آپ کو کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتا۔
مارٹن لوتھر نے کہا تھا "اگر آپ اُڑ نہیں سکتے ہیں تو دوڑو۔ اگر آپ دوڑ نہیں سکتے ہیں تو چلو۔ اگر آپ چل نہیں سکتے ہیں تو رینگو۔ پر آگے بڑھتے رہو۔ اپنی سوچ اور سمت کو درست رکھو، کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔”
ہینری فارڈ کہتے ہیں "اس دن تک محنت کرو جب تمہارا دسخط ایک آٹو گراف کہلایا جائے۔”
بس جاتے جاتے بارِ دیگر یہ التجا ہے کہ جہاں سوشل میڈیا کی رنگینی یا یوں کہیئے کہ سنگینی نے کتاب بینی ہم سے چھینا تھا وہاں یہ ایام ہمیں دوبارہ کتاب کی طرف لے جاسکتے ہیں بشرط کہ ہم کتاب بینی کی مہک کو روح کی گہرائیوں تک محسوس کرسکنے کے قابل ہوں۔
اپنا، اپنے پیاروں کا اور اپنے گرد و نواح میں رہنے والے سب کا بہت سارا خیال رکھئیے گا۔ وبا کے یہ دن بھی گزر جائیں گے کہ وقت کا کام ہی گزرنا ہے۔ حفیظ بھائی کے ان خوبصورت اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گا؎
وہ مزہ وہ چین دُنیا تیری رونق میں کہاں
جو سکوں میرے کتابوں سے بھرے کمرے میں ہے
اِس لیے شاید دلوں پر چھوڑتا ہوں نقش میں
عشق کا درویش میرے فقر کے ہجرے میں ہے