نرسز کو سیلیوٹ نہیں، سہولیات چاہئیے
یکے از تحاریر: عبدالکریم کریمی
آج صبح میری ایک جاننے والی نرس نے ایک تحریر انباکس کیا۔ یقین کیجیئے اس تحریر کے حرف حرف نے مجھے رُلا دیا۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ آپ کی آواز ایوانِ بالا تک ضرور پہنچاؤں گا۔ میں تھوڑا حساس انسان ہوں اور صاحبِ اولاد بھی۔ ایسی چیزیں برداشت سے باہر ہوتی ہیں۔ پہلے آپ وہ تحریر پڑھیئے اس کے بعد اس پر تبصرہ کرتے ہیں۔ اس تحریر میں نرس نے اپنا دل اور دردِ دل نکال کے ہمارے سامنے رکھا ہے۔ وہ خود کو نرس نہیں سپاہی کہتی ہیں اور لکھتی ہیں:
"میں ایک بی ایس سی رجسٹرڈ نرس ہوں اور آج کل روٹیشن پر میری ڈیوٹی آئی سی یو میں لگی ہوئی ہے۔ کورونا سے مجھے بھی اسی طرح ڈر لگتا ہے جیسے عام لڑکیوں کو لیکن ایک فرق ہے کہ میری ہم عمر ساری لڑکیاں گھروں میں بیٹھ گئی ہیں اور شاید اب وہ اپنے بچوں کو زیادہ وقت بھی دے رہی ہوں گی لیکن میرے ساتھ اور مجھ جیسی باقی لیڈی نرسز کے ساتھ اُلٹا ہو گیا ہے۔ میں ان دنوں تین دفعہ رات کی ڈیوٹی کر چکی ہوں اور سب کہتے ہیں کہ ان کو کورونا انفیکشن ہونے کا شک ہے۔ اگر یہی سچ ہے تو میں کورونا کا پکا انفیکشن لے چکی ہوں۔ ٹیسٹ کروانے کا کوئی بندوبست نہیں۔ بس ڈر کے مارے گھر نہیں جا رہی کہ گھر پہنچنے پر جب میرا دو سال کا اکلوتا بیٹا بھاگ کے مجھ سے لپٹے گا تو کیا کروں گی۔ تین دن سے ہاسپیٹل میں ہوں۔ میاں سے کپڑے منگوالئے ہیں اور وہ بھی دُور سے ہی لیے تاکہ میاں اور بیٹا محفوظ رہیں۔ کبھی خیال آتا ہے کہ کیوں بنی نرس۔ کتنے مزے میں ہیں وہ لڑکیاں جو بی اے کرکے شادی کرتی ہیں اور میاں کی خدمت کرکے خوش رہتی ہیں۔ خوب فیشن کرتی ہیں۔ گھومتی پھرتی ہیں اور اپنے بچوں کو بھی توجہ سے پالتی ہیں۔ دوسری طرف مجھ جیسی نرسز ہیں جن سے نہ گھر والے راضی ہوتے ہیں نہ لوگ وہ عزت دیتے ہیں جس کے خواب ہم سب نے نرسز بننے سے پہلے دیکھے تھے۔ خود کے لیے وقت کہاں سے لائیں کہ ہم تو اپنے بچوں کو بھی وقت نہیں دے سکتیں۔ اب کورونا نے قیامت ڈھائی ہے تو وہ لوگ جو ہمیں برا کہتے تھے ہمیں قوم کے سپاہی کہہ رہے ہیں۔ ہمیں کسی سے بھی کوئی گلہ نہیں مگر جس طرح ملک و قوم اپنے فوجی سپاہیوں کو بندوق دے کر سرحد پر حفاظت کے لیے کھڑا کرتے ہیں پلیز ہمیں بھی کچھ حفاظتی چیزوں کا بندوبست تو کردیں۔ ہم تو ایسے بے یار و مددگار سپاہی ہیں کہ جو دُشمن کے وار سے خود کو بھی نہیں بچا پا رہے نہ کوئی مورچہ ہے نہ کوئی بندوق۔ لگتا ہے غازی بنیں نہ بنیں شہید پکے ہوں گے۔ اللہ بھلا کرے کافروں کا جنہوں نے اسمارٹ فون اور واٹس ایپ کی سہولت مہیا کررکھی ہے ورنہ تو تین دن سے اپنے بچے کو بھی نہ دیکھ پاتیں۔ میرا بیٹا پوچھتا ہے مما گھر کب آؤ گی تو دوسری طرف منہ کر لیتی ہوں کہ آنسو نہ دیکھ لے۔ بس کورونا نہ ہوا تو پندرہ دن بعد ضرور گھر جاؤں گی۔ اس یقین کے ساتھ ڈیوٹی کر رہی ہوں کہ میرے ڈر کے بھاگ جانے سے اگر کسی مریض کو طبی امداد نہ ملی تو میری اس ڈگری کا کیا فائدہ۔ مزید یہاں ہاسپیٹل میں پڑے رہنے کا ایک ذاتی فائدہ بھی ضرور ہے کہ اگر مجھے کورونا انفیکشن ہو چکا ہے تو میرے دور رہنے سے میرا بیٹا اور میاں بھی تو محفوظ ہیں۔ بیٹے کو گلے لگانے کو بہت دل چاہتا ہے مگر آئی سی یو میں پڑے لوگوں کو بھی نہیں چھوڑ سکتی کیونکہ اب تو آپ سب لوگ ہمیں قوم کے سپاہی کہنے لگے ہیں۔ اب ہم سب نے لڑنا ہے یا مرنا ہے۔ نہ رہی تو فیصلہ آپ ہی کر لینا کہ میں ماں اچھی تھی یا نرس سپاہی۔”
اب ذرا دل پر ہاتھ کر کہہ دیجئیے کہ اس نرس کو سیلیوٹ چاہئیے یا سہولیات؟ ہم عجیب قوم، ہمارے عجیب لیڈرز اور ان کے عجیب منطق۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ سیلیوٹ تو گزشتہ ستر سالوں سے ہم ہر ایرے غیرے کو مار رہے ہیں نہ صرف سیلیوٹ بلکہ سفید ٹوپیاں بھی پہنا کر نسلی غلام ہونے کا ثبوت دے چکے ہیں۔ اب خدارا! یہ ٹوپی ڈرامہ بند ہونا چاہئیے۔ کسی نے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ دُنیا میں سب سے مشکل کام کسی غلام قوم کو یہ سمجھانا کہ تم غلام نہیں ہو۔ خیر آج ہمارا ٹوپک غلام قوم اور ان کی غلامانہ ترجیحات نہیں۔ اس پر پھر کبھی بات کرتے ہیں۔
وزیراعلیٰ صاحب اور فورس کمانڈر صاحب ان دنوں بہت ایکٹیو نظر آرہے ہیں ان سے چند گزارشات کرنی ہے اگر وہ ان کو عملی جامہ پہناتے ہیں تو تاریخ میں امر ہوسکتے ہیں۔
فی الحال ہمارے کرنے کے کام یہ ہیں جیسے۔۔۔
۔ پیرامیڈیکل اسٹاف جن میں ڈاکٹرز، نرسز، ٹیکنشنز وغیرہ کو حفاظتی کٹس کی ہنگامی بنیاد پر فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ کاش! ڈاکٹر اسامہ ریاض کو سہولیات کے ساتھ ڈیوٹی دی جاتی تو ایک نوجوان ڈاکٹر ضائع نہیں ہوتا یہ محکمہ صحت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض کے لواحقین محکمہ صحت کے بڑوں پر کیس دائر کرسکتے ہیں۔ یہ ان کا حق ہے۔
۔ فی الفور پیرا میڈیکل کے چھوٹے اسٹاف خصوصاً نرسز کی تنخواہیں ڈبل کر دی جائیں۔ یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ ہاں ڈاکٹرز کی تنخواہ پہلے سے بہتر ہے اور ساتھ اپنے قصاب خانے میرا مطلب اپنے کلینکس اور دکانوں سے بھی وہ خاطر خواہ کماتے ہیں۔ ایک ہاسپٹل ایک ڈاکٹر کے بغیر تو چل سکتا ہے لیکن ایک نرس کے بغیر نہیں۔ یہ شعبہ فوری توجہ کا طالب ہے۔
۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جنرل نرسنگ کی کئی آسامیاں گزشتہ پندرہ سالوں سے خالی ہیں یا جان بوجھ کر خالی رکھی گئی ہیں جن کو فی الفور مشتہر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قابل اور مستحق ڈگری ہولڈرز اس فیلڈ میں آکر اپنی خدمات دے سکے۔
۔ آپ حیران ہوں گے ملک کے بڑے بڑے ہاسپٹلز جیسے آغا خان ہاسپٹل، الشفا انٹرنیشل، پمز، شوکت خانم، ضیا الدین، ڈاؤ ہاسپٹل وغیرہ میں جائیں آپ کو گلگت بلتستان کے کوالیفائیڈ بیٹے بیٹیاں ڈاکٹرز اور نرسز کی صورت میں نظر آئیں گے لیکن گلگت بلتستان کے ہاسپٹلز ایک سالہ ڈپومہ ہولڈر عارضی نرسنگ اسسٹنٹس اور اسسٹنٹ ٹیکنیشنز کے رحم و کرم پر ہیں جوکہ اس قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ لہٰذا اس پر فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ مذکورہ آسامیاں بروقت مشتہر ہوتی ہیں تو خطے کے کوالیفائیڈ بیٹے بیٹیاں ملک کے دیگر حصوں میں دربدر ہونے کی بجائے اپنے علاقے میں رہ کر قوم کی بہتر خدمت کرسکتے ہیں۔
۔ ہسپتالوں کے معیار کو فی الفور بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مستقل بنیادوں پر لوگوں کو صحت کے حوالے سے بہتر سہولیات مل سکے۔
گورنر صاحب، وزیراعلی صاحب اور فورس کمانڈر صاحب! یہ وقت سیلیوٹ مارنے کا نہیں سہولیات کو یقینی بنانے کا ہے۔ ہسپتالوں کے ںظام کو ٹھیک کرنے کا ہے۔ کام چور ڈاکٹرز پر نظر رکھنے کا ہے۔
کورونا وائرس سے پہلے کا واقعہ ہے۔ ایک بندہ میرے آفس میں آکر پھوٹ پھوٹ کر رویا کہ ہسپتال کئی دنوں سے جا رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب (نام لکھنے کی ضرروت نہیں۔ مجموعی طور پر سب ڈاکٹرز کا یہی حال ہے۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔) دیر سے ہسپتال آیا اور تھوڑی دیر کچھ مریضوں کو وہ بھی منظورِ نظر مریضوں کو اندر بھلا کر چیک کیا۔ پھر چوکیدار باہر آکر کہتا ہے ڈاکٹر صاحب تو پچھلے دروازے سے نکل گئے۔ آپ کو زیادہ پریشانی ہے تو آپ کلینک جائے۔ میرے خیال میں جس جس ڈاکٹر کا یہ رویہ ہے وہ اپنے بچوں کو حرام کا لقہ کھلا رہا ہوتا ہے۔ میں نے خود کئی بار ان ڈاکٹرز کا رویہ ہسپتال میں الگ اور ان کے کلینک میں الگ دیکھا ہے۔ حیرت ہوتی ہے ہسپتال میں سلام کا جواب نہ دینے والے کلینک میں چائے تک کا آفر کرتے ہیں۔ مادیت پرستی نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ میرے خیال میں سب سے پہلے ان کو اخلاقیات پر لیکچر دینے کی ضرورت ہے۔ میں جی بی گورنمنٹ کو اعزازی طور پر اپنی خدمت دینے کے لیے تیار ہوں۔ آپ اس وبا کے بعد جب حالات معمول پر آجائے ان تمام ڈاکٹرز اور کام چور آفیسران کی ایک کانفرنس بلائیں۔ مجھے اپنے کلچر کے لیے تین گھنٹے دیں میں اسلام میں اخلاقیات کے پہلوؤں پر لیکچر دوں گا۔ مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اس لیکچر کے بعد ایک بڑی تعداد جن میں ضمیر نام کی کوئی چیز ہے تو سدھر سکتی ہے۔
پھر آپ صاحبان گورنر صاحب، وزیراعلیٰ صاحب اور فورس کمانڈر صاحب! بھلے ان ڈاکٹرز کی تنخواہیں ڈبل کر دیں ان کو ہر حوالے سے مطمئین کریں لیکن آٹھ گھنٹے کی پوری ڈیوٹی ان سے لیں، پچھلے دروازے کو مستقل بند کردیں اور کلینک اور دکان چلانے پر سخی سے پابندی لگائیں۔ خلاف ورزی کی صورت میں ڈاکٹر کو فارغ کر دیا جائے۔ محکمہ صحت کو کسی دبنگ آفیسر کے حوالے کر دیں جو بروقت انتظامات کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ ایک آدھ ایسے سخت فیصلے کریں جن سے نظام ٹھیک ہو جائے۔
ورنہ صرف سیلیوٹ مارنے سے حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے یا کسی شہید ڈاکٹر کو قومی ہیرو کا ٹائٹل دینے سے ان کی جان واپس نہیں آسکتی۔ بس تھوڑا دبنگ اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔